Take a fresh look at your lifestyle.

مضامین قرآن (45) دعوت کے ردوقبول کے نتائج:آخرت کی دنیا:جہنم ۔ ابو یحییٰ

دعوت کے ردوقبول کے نتائج:آخرت کی دنیا:جہنم
جہنم کی سزائیں
روزِ قیامت جب لوگوں کا فیصلہ کردیا جائے گا تو آخرکار ان کو ان کے ابدی گھر میں پہنچا دیا جائے گا۔ یہ ابدی گھر یا تو جنت ہوگی جہاں لوگ ہمیشہ خدا کے فضل و انعام کو دیکھیں گے یا پھر جہنم ہوگی جہاں ابد تک اس کے غضب اور سزا کا سامنا کرنا ان کا مقدر ہوگا۔ یہ جنت اور جہنم ہی وہ مقام ہے جس کی خوشخبری اور جس کے عذابوں کی تنبیہات سے قرآن مجید بھرا ہوا ہے۔ یہی وہ اصل انسانی زندگی ہے جس سے متنبہ کرنے کے لیے ہر دور میںانبیا و رسل آتے رہے اور اللہ کا اصل منصوبہ لوگوں کے سامنے رکھتے رہے۔
انسانی نفسیات میں چونکہ فائدے کے حصول سے زیادہ خطرے سے بچنا اہم ہوتا ہے، اس لیے قرآن مجید نے بار بار اللہ سے ڈرنے اور اس کے عذاب سے بچنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔خاص کر جہنم اور اس کے عذابوں کی بہت کچھ تفصیل کرکے لوگوں کو اس سے خبردار کیا ہے۔جہنم وہ قید خانہ ہے جہاں خدا کے مجرم ابدی طور پرقید کیے جائیں گے۔ اس کے سات دروازے ہیں اور اس پر انیس فرشتے مقرر ہیں۔ اس کے داروغہ کا نام مالک بیان ہوا ہے۔اس پر مقرر فرشتے انتہائی درشت مزاج اورسخت گیر ہیں جو کسی کی فریاد سے متاثر ہوکر یا رحم کھاکر خدا کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کریں گے۔
یہ جہنم اصلاً دعوت حق کا کفرکرنے والے سرکش اور متکبر لوگوں کا ابدی ٹھکانہ ہے۔ یہاں سزاؤں کی ایک دنیا ہے جس کا سلسلہ کبھی نہیں تھمے گا۔یہ سزائیں مجرموںکے جسمانی اور نفسیاتی وجود کو مسلسل اذیت اور تکلیف میں مبتلا رکھیں گی۔ جسمانی سزاؤں کی جو تفصیل قرآن میں بیان کی گئی ہے اس میں سب سے بڑا عذاب آگ کا ہے۔یہ آگ ان کے لیے ناقابل برداشت جسمانی اذیت ہی کا نہیں بلکہ ان کی صورتیں بگاڑنے اور کھال اتارکر قبیح ترین شکل میں تبدیل کرنے کا باعث بھی بنے گی۔ یہ عذاب ایک ہی دفعہ نہیں دیا جائے گا بلکہ بار بار انھیں جلایا جائے گا اور ہر بارنئی کھال پہنادی جائے گی۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل جہنم کو ایسے جسم دیے جائیں گے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان عذابوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔وہاں وہ مریں گے بھی نہیں۔ گرچہ عذابوں کی شکل میں ہر سمت سے موت ہی آرہی ہوگی۔
ان مجرموں کا کھانا پینا بھی عذا ب کا ایک سامان ہوگا۔ان کو شدید پیاس لگے گی۔ اسے بجھانے کے لیے کھولتا ہوا پانی ملے گا جسے وہ پیاس کے مارے تونس لگے اونٹ کی طرح پینے پر مجبور ہوں گے۔یہ پانی ان کی رگیں تک کاٹ ڈالے گا۔ اسی گرم پانی سے انھیں غسل دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ پینے کے واسطے زخموں کادھوون، کچ لہو اور پیپ جو غالباً دوسرے اہل جہنم کے زخموںسے بہتی ہوگی ان کو دی جائے گی۔یہ زخم ان ہتھوڑوں سے کی گئی پٹائی کا نتیجہ ہوں گے جو فرشتوں کے ہاتھوں کی جائے گی۔ان کوکھانے کے لیے زقوم کا درخت، خاردارجھاڑیاں وغیرہ ملیں گی۔ اس سے طاقت و توانائی تو کیا آئے گی الٹا سخت باعث آزار ہوگا۔
ان مجرموں کو جب کسی عذاب سے وقفہ ملے گا تو کسی تنگ جگہ پر باندھ کر ڈال دیے جائیں گے۔ گلے میں طوق اور جسم زنجیروں میں لپٹا ہوگا۔جسمانی عذاب سے وقفے کے یہ لمحے سکون کے نہیں ہوں گے۔ کیونکہ پھر انھیں پچھتاووں کی آگ اندر سے جلانا شروع کرے گی۔سورہ لہب سے معلوم ہوتا ہے کہ مجرم میاں بیوی ساتھ ہی ہوں گے۔اسی طرح پیروکار اور لیڈر بھی وہیں موجود ہوں گے۔ابلیس اور شیاطین بھی انھی کے ساتھ عذاب میں جمع ہوں گے۔یہ سب ایک دوسرے کو کوستے اور برابھلا کہتے رہیں گے۔یہ باہمی جھگڑا اور نفرت ایک اور عذاب ہوگا جو ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ رب العالمین ان کو اپنے دیدار ہی سے نہیںبلکہ عبدیت کے شرف سے خارج کرکے ان سے بات کرنے سے انکار کردے گا۔ وہ بیزار آکر جہنم کے داروغہ مالک سے فریاد کریں گے کہ وہ اللہ سے درخواست کرے کہ پروردگار عالم ان کی موت کا فیصلہ کردیں، مگر ان کی یہ فریاد بھی بے کار جائے گی۔وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا ہوگا نہ تسلی دینے والا، کوئی غمخوار دوست ہوگا جو دکھوں کا ساتھ ہو نہ کوئی سفارشی،مددگار یا حمایتی ہی ان کو مدد کو آئے گا۔یہ صدمہ الگ ہوگا کہ جن لوگوں کو حقیر سمجھا تھا وہ جہنم کے بجائے جنت میں پہنچ گئے۔ غرض جسمانی عذابوں کے ساتھ نفسیاتی اور روحانی عذابوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہمیشہ کے لیے اہل جہنم پر مسلط رہے گا۔یہ عذاب کبھی ہلکا نہیں ہوگا اور وہ مایوس ہوکر ہمیشہ وہاں پڑے رہیں گے۔
جہنم میں جانے والے
جہنم کے اس انتہائی خوفناک انجام سے وہی مجرم دوچار ہوں گے جنھوں نے خدا کے خلاف بغاوت، سرکشی اور تکبر کا راستہ اختیار کیا۔ جنھوں نے دعوت حق کا انکار کردیا۔اس طرح کے لوگ برائی کا ارتکاب ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی غلطیاںان کا اس طرح احاطہ کرلیتی ہیں کہ وہ خدا کے حضور پیشی اوراس کے خوف سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارنے لگتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ظلم اور فساد جنم لیتا ہے اور دھرتی جبراور بدامنی سے بھرجاتی ہے۔
اس کے ساتھ قرآن مجید نے متعدد ایسے جرائم کا نام لے کر ذکر کیا ہے جن کی سزا ابدی جہنم ہے۔ان جرائم میں سب سے بڑا جرم شرک ہے۔ اس کے علاوہ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردینا اور بدکاری کو اپنی زندگی بنالینے والے لوگوں کے لیے بھی یہ وعید ہے۔اسی طرح قانون وراثت کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے بھی اسی دائمی سزا کی وعیدہے۔
قرآن مجید کے ان تمام مقامات پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے اپنے حوالے سے انتہائی جرائم ہیں۔ شرک خدا کے حقوق میں، قتل انسانی حقوق میں، مال وراثت ہڑپ کرنا رشتہ داروں کے حقوق میں اور بدکاری کا ارتکاب خاندان اور معاشرت کے حقوق کے لحاظ سے اپنے اپنے دائرے میں بدترین ظلم، فساد اور حق تلفی کوجنم دیتا ہے۔اس کے علاوہ بھی متعدد گناہ ہیں جن پر سخت عذاب کی وعید کی گئی ہے۔خاص طور پر کوئی گناہ جب انسان کا احاطہ کرلے تو پھر وہ انسان کو ابدی جہنم کا مستحق بنادیتا ہے۔
تاہم قرآن مجید میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ شر ک کے علاوہ باقی جو گناہ اللہ چاہیں گے اور جس کے لیے چاہیں گے معاف کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ کچھ لوگوں کو تزکیہ و تطہیر کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا۔تاہم جہنم ہمیشہ باقی رہے گی اور ناقابل معافی مجرم وہاں اپنا ابدی انجام بھگتتے رہیں گے۔ یہ بات قرآن مجید نے بہت زیادہ تواتر کے ساتھ دہرائی ہے۔ تاہم ایک دومقامات پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ جہنم کا خلود اور ہمیشگی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔وہ جوچاہے کرسکتا ہے۔ اس لیے کبھی اس نے جہنم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو کوئی اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا۔
یہ بات بھی واضح رہنا چاہیے کہ اہل جنت کے برعکس جن کو ان کے اعمال کا بدلہ کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ بے حدوحساب دیا جائے گا، اہل جہنم کو اتنی ہی سزا ملے گی جتنی انھوں نے برائی کی ہوگی۔
قرآنی بیانات
”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔ جس پر درشت مزاج اور سخت گیر ملائکہ مامور ہوں گے۔ اللہ ان کو جو حکم دے گااس کی تعمیل میں وہ اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا۔ اے لوگو، جنھوں نے کفر کیا، آج عذر نہ پیش کرو، تم وہی بدلے میں پارہے ہو جو تم کرتے رہے ہو۔” (التحریم6-7:66)
”بے شک جہنم گھات میں ہے۔ سرکشوں کا ٹھکانا۔ اس میں رہیں گے مدتہائے دراز۔ نہ اس میں کوئی ٹھنڈک نصیب ہوگی ، نہ گرم پانی اور پیپ کے سوا کوئی پینے کی چیز۔ بدلہ ان کے عمل کے موافق۔ یہ لوگ محاسبہ کا گمان نہیں رکھتے تھے اور انھوں نے ہماری آیتوں کی بے دریغ تکذیب کی اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر شمار کر رکھا ہے۔تو چکھو، اب تمہارے عذاب ہی میں ہم اضافہ کریں گے۔” (النبا21-30:78)
”اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا وہ گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس حاضر ہوں گے اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہی میں سے رسول تمہارے رب کی آیتیں سناتے اور اس دن کی ملاقات سے ڈراتے نہیں آئے! وہ کہیں گے ہاں، آئے تو سہی، پر کافروں پر کلمہئ عذاب پورا ہو کررہا۔ کہا جائے گا، جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے ۔ پس کیا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبروں کا!” (الزمر71-72:39)
”جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہم ان کو ایک سخت آگ میں جھونک دیں گے۔ جب جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کو دوسری کھالیں بدل دیں گے تا کہ یہ عذاب کا مزا خوب چکھیں۔ بے شک اللہ عزیز و حکیم ہے۔” (النساء 56:4)
”ان کے چہروں کو آگ جھلسے گی اور اس میں ان کے منہ بگڑے ہوئے ہوں گے۔”
(المومنون104:23)
”ہرگز نہیں! وہ ایسی آگ ہوگی جس کی لپٹ چمڑی ادھیڑ لے گی۔ وہ ان سب کو کھینچ بلائے گی جنھوں نے پیٹھ پھیری اور اعراض کیا، مال جمع کیا اور اس کو سینت سینت کر رکھا۔”
(المعارج16:70)
”کیا یہ لوگ جن کو یہ نعمتیں حاصل ہوں ان لوگوں کے مانند ہوں گے جو ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں اور جن کو اس میں گرم پانی پلایا جائے گا پس وہ ان کی آنتوں کو ٹکڑے کر کے رکھ دے گا۔” (محمد15:47)
” جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے جامے تراشے جائیں گے۔ ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا پانی بہایا جائے گا۔ اس سے جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے سب پگھل جائے گا اور ان کی کھالیں بھی۔ اور ان کی سرکوبی کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔ جب جب وہ اس کے کسی عذاب سے نکلنے کی کوشش کریں گے اسی میں دھکیلے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کا عذاب!!” (الحج19-22:22)
”پھر تم لوگ، اے گمراہو اور جھٹلانے والو، زقوم کے درخت میں سے کھاؤ گے اور اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے، پھر اس پر کھولتا ہوا پانی تونسے ہوئے اونٹوں کی طرح پیو گے۔ یہ جزا کے دن ان کی پہلی ضیافت ہوگی!” (الواقعہ51-56:56)
”وہ دہکتی آگ میں پڑیں گے۔ کھولتے چشمہ کا پانی پلائے جائیں گے۔ ان کے کھانے کو صرف جھاڑ کانٹے ہوں گے جو نہ موٹا کریں گے نہ بھوک ہی کو ماریں گے۔”
(الغاشیہ4-7:88)
”ہرگز نہیں بلکہ اس دن وہ (نافرمان)اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے۔ ”
(المطففین15:83)
”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو ایک حقیر قیمت کے عوض بیچتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا ، نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔” (ال عمران77:3)
”اور یہ جب اس(دوزخ)کی کسی تنگ جگہ میں باندھ کر ڈال دیے جائیں گے تو اس وقت اپنی ہلاکت کو پکاریں گے۔” (الفرقان13: 25)
”اور جو نہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود پکارتے اور نہ اس جان کو جس کو اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے بغیر کسی حق کے قتل کرتے اور نہ بدکاری کرتے اور جو کوئی ان باتوں کا مرتکب ہوگا وہ اپنے گناہوں کے انجام سے دوچار ہوگا۔ قیامت کے دن اس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیا جائے گا اور وہ اس میں خوار ہو کر ہمیشہ رہے گا۔” (الفرقان68-69:25)
”بے شک مجرمین ہمیشہ عذاب دوزخ میں رہیں گے۔ وہ ان کے لیے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اسی میں مایوس پڑے رہیں گے۔ اور یہ ہم نے ان کے اوپر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے۔ اور وہ پکاریں گے اے مالک! اب تمھارا رب ہمارا خاتمہ ہی کر دے۔ وہ جواب دے گا کہ تمھیں اسی حال میں رہنا ہے۔” (الزخرف43: 74-77)
”جو نیکی کما کر لائے گا تو اس کے لیے اس سے بہتر صلہ ہے اور جو بدی کما کر لائے گا تو بدی کمانے والوں کو وہی بدلہ میں ملے گا جو وہ کر کے آئیں گے۔” (قصص 84:28)
”اور جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ نہ ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر جائیں اور نہ ان سے ان کا عذاب ہی کچھ ہلکا کیا جائے گا۔ ایسا ہی ہم بدلہ دیں گے ہر ناشکرے کو اور وہ اس میں واویلا کریں گے۔اے ہمارے رب! ہم کو اس سے نکال، اب ہم نیک عمل کریں گے، ان اعمال سے مختلف جو ہم اب تک کرتے رہے ہیں۔ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی کہ جو یاد دہانی حاصل کرنا چاہے اس میں یاددہانی حاصل کر سکے! اور تمھارے پاس آگاہ کرنے والا بھی پہنچا! تو اب اس عذاب کو چکھو۔ ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں بنے گا۔ ”
(فاطر36-37:35)
”اور اس سے گریز کرے گا وہ جو بدبخت ہوگا۔ وہ پڑے گا بڑی آگ میں۔ پھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔” (الاعلیٰ:11-13:87)
”یہ بھیڑ بھی تمھارے ساتھ ہی جہنم میں پڑنے والی ہے۔ ان پر خدا کی مار! یہ تو دوزخ میں پڑنے والے ہیں۔وہ جواب دیں گے بلکہ تم، تم پر خدا کی مار! تمہی نے ہمارے لیے یہ سامان کیا۔ پس کیا ہی برا ٹھکانا ہوگا! وہ کہیں گے، اے ہمارے رب ! جن لوگوں نے ہمارے لیے اس کا سامان کیا ان کو دگنا عذاب دیجیو، جہنم میں۔
اور وہ کہیں گے ، کیا بات ہے ہم ان لوگوں کو یہاں نہیں دیکھ رہے ہیں جن کو ہم اشرار میں سے شمار کرتے تھے۔ کیا ہم نے ان کو محض مذاق بنایا تھا یاان سے نگاہیں چوک رہی ہیں؛ بے شک اہل دوزخ کی یہ باہمی توتکار ایک امرِ واقعی ہے!” (ص59-64:38)
”آگ ہے جس پر صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت ہوگی حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔
اور جب کہ وہ دوزخ میں ، آپس میں جھگڑیں گے تو زیر دست ان لوگوں سے جو بڑے بنے رہے کہیں گے کہ ہم آپ لوگوں کے پیرو بنے رہے تو کیا آپ لوگ عذابِ دوزخ کا کچھ حصہ بھی ہماری جگہ اپنے سر لینے والے بنیں گے؟ جو بڑے بنے رہے وہ جواب دیں گے ، اب تو ہم سب ہی اس میں ہیں۔ اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ اور اہل دوزخ، دوزخ کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے درخواست کرو کہ ہمارے عذاب میں سے ایک دن کی تخفیف فرما دے، وہ جواب دیں گے، کیا تمھارے پاس تمھارے رسول واضح دلیلیں لے کر نہیں آتے رہے! وہ جواب دیں گے، ہاں آتے تو ضرور رہے۔ وہ کہیں گے، تو اب تم ہی درخواست کرو۔ اور کافروں کی پکار بالکل صدا بصحرا ثابت ہوگی۔”
(المومن46-50:40)
”جب کہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور (ان کے پاؤں میں) زنجیریں ہوں گی۔”
(المومن71 :40)
”اور جنھوں نے کفر کیا ان کو منادی کی جائے گی کہ خدا کی بیزاری تم سے اس کی نسبت سے کہیں زیادہ رہی ہے جتنی تم کو اس وقت اپنے سے ہے جب کہ تم کو ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے۔ وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! تو نے ہم کو دو بار موت دی اور دوبار زندگی دی تو ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا تو کیا یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے!” (المومن 10-11 :40)
”اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! ہمیں ان لوگوں کو دکھا جنھوں نے جنوں اور انسانوں میں سے ہم کو گمراہ کیا، ہم ان کو اپنے پاؤں کے نیچے ڈالیں گے، وہ ذلیل ہوں۔” (حم سجدہ29:41)
”اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے اس کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا اور جو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے۔” (النسائ48:4)
”تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں پڑیں گے، اس میں ان کے لیے چلانا اور گھگیانا ہوگا، اسی میں پڑے رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے۔ بے شک تیرا رب جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔” (ہود106-107:11)
”البتہ جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے” (البقرہ81:2)