Take a fresh look at your lifestyle.

زیلینسکی کا مقصد ۔ خطیب احمد

ولادی میر زیلینسکی (Volodymyr) یوکرائن کے موجودہ صدر ہیں جو پہلے ایک کامیڈین تھے۔ وہ یوکرائن کے ایک پسماندہ خاندان میں 25 جنوری 1978ء کو پیدا ہوئے۔ تعلیم میں خاص دلچسپی نہ ہونے پر مقامی سرکس میں ایک کامیڈین کی حیثیت سے شمولیت اختیار کرلی۔ پھر انھوں نے فلم انڈسٹری میں جاکر چند فلمیں ڈائریکٹر و پروڈیوسر کے طور پر کیں اور دو ہی سال بعد اپنا ٹی وی چینل بنا لیا۔

2015 میں زیلینسکی نے ایک کامیڈی ٹی وی سیریل لکھا اور پروڈیوس کیا۔ اس کا نام Servant of the people تھا۔ ڈرامہ سیریل میں انھوں نے ملک کے صدر کا کردار ادا کیا اور اس کردار میں ملک سے کرپشن کو ختم کرنے کے عملی اقدامات کیے جو عوامی حلقوں میں بےحد پسند کیے گئے۔ زیلینسکی نے2017 میں الیکشن میں صدارت کے عہدے کے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 2019 کے انتخابات میں وہ 73.22 فیصد ووٹ حاصل کرکے یوکرائن کے صدر منتخب ہوگئے۔

ایک رپورٹر نے زیلینسکی کا انٹرویو کیا اور پوچھا کہ آپ نے یہ سب کیسے کیا؟ زیلینسکی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب میرا ملک روس سے 24 اگست 1991ء کو آزاد ہوا تو میری عمر 13 برس تھی۔ اس کے بعد برسوں تک میں نے دیکھا کہ کرپشن میرے ملک کا بیڑہ غرق کیے جا رہی ہے۔ نااہل لوگ حکومت کا حصہ ہیں۔ ملک کے ساتویں جنم دن 24 اگست 1998ء کو میں اپنے ساتھ عہد کر لیا کہ اس آزاد ملک کی بقا کے لیے مجھے اس ملک کو سنبھالنا ہے۔

جب ایک سرکاری دفتر میں میرا جائز کام کرنے کے لیے رشوت مانگی گئی تومیں نے ٹھان لیا کہ بیس سال بعد جب میں چالیس کا ہو جاؤں گا تو ملک کا سربراہ بنوں گا۔ میں سب ٹھیک کر دوں گا مگر کسی کو برا بھلا نہیں کہوں گا۔ اس دن کے بعد میرا ایک ایک لمحہ مجھے میری منزل کی طرف لے کر گیا۔ عوام سے تعلق قائم کرنے کا سب سے موثر ذریعہ میری نظر میں میڈیا تھا۔ میں نے سرکس سے آغاز کیا۔ پھر ٹی وی اور فلم میں آیا اور عوام میں مقبول ہوگیا۔ پھر اپنے پلان کو پیپر پر اتار کر Servant of the people سیریل لکھا اور عوام کو دکھایا کہ میں یوکرائن کو کیسا دیکھتا ہوں۔ میں کیا کرنا چاہتا تھا یہ میں نے اپنی ڈائری پر لکھا ہوا تھا جسے میں نے کسی سے بھی شئیر نہیں کیا تھا۔ حتیٰ کہ میرے بیوی بچے بھی میرے اس مشن سے ناواقف تھے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایک فرد بھی مجھے کہے کہ تم یہ نہیں کرسکو گے۔

آج میں اس ملک کا سربراہ ہوں۔ میں یوکرائن کو ایک ایسا ملک بنا دوں گا کہ اس کی مثال دی جائے گی۔ جس دن میں نے عہدہ سنبھالا اس کے بعد پہلا صدارتی بل پیش کر کے کرپشن کی سزا موت کر دی ہے۔ وہ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا لیڈر یا سرکاری افسر کیوں نہ ہو۔ میں معیار تعلیم کو ہر یوکرائنی کے لیے یکساں کروں گا ایک سرکس کے جوکر اور ملک کے صدر کے لیے قانون ایک ہوگا۔ آپ آج بھی دیکھ لیں۔ پانچ سال بعد بھی دیکھ لیجیے گا کہ یوکرائن کہاں کھڑا ہوگا۔

زیلنسکی کی اس داستان میں ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ جب کوئی مقصد بنالیا جائے تو انسان اسے حاصل کر ہی لیتا ہے۔ چنانچہ اب ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے پاس دنیا اور آخرت کے لحاظ سے کوئی مقصد ہے یا ہم ایسے ہی بے مقصد جیے جارہے ہیں۔ ہم ملک و قوم کی فلاح کا کوئی مشن اپنے لیے رکھتے ہیں یا نہیں۔ ہم اجتماعی خیر کے کسی مشن کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں۔ لوگوں کی سیرت و کردار میں بہتری کے لیے عملی طور پر کوئی کام کرتے ہیں یا نہیں۔ اسی سوال کے جواب پر پاکستان کے مستقبل کا انحصار ہے۔