Take a fresh look at your lifestyle.

بوٹی اور بچھڑا ۔ ابویحییٰ

اردو زبان میں کسی ایسی صورتحال کے لیے جب کوئی شخص اپنے معمولی فائدے کے لیے کسی کا بہت بڑا نقصان کرا دے، یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی بوٹی کے لیے میرا بچھڑا ذبح کرا دیا۔ اس ضرب المثل کے پیچھے یہ کہانی بیان کی جاتی ہے کہ کسی شخص کے ہاں ایک دن کے لیے کوئی مہمان آیا۔ میزبان نے دوپہر میں اسے دال کھلاتے ہوئے یہ عذر پیش کیا کہ آج قصائی کا ناغہ ہے، اس لیے گھر میں جو دال بنی ہے اسی میں گزارا کرنا ہوگا۔

مہمان نے اُس وقت تو یہ دال کھا لی، مگر دل میں شدید خواہش تھی کہ اسے کھانے میں گوشت اور بوٹیوں والا کھانا ملے۔ اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ میزبان کے ہاں ایک بچھڑا پلا ہوا ہے۔ اس نے طے کرلیا کہ رات کے کھانے میں اسی بچھڑے کا گوشت تناول کیا جائے گا۔ چنانچہ اس نے کھانے کے بعد گفتگو میں میزبان کو بتایا کہ جس بستی سے آرہا ہے، وہاں مویشیوں میں کوئی وبا پھیل گئی ہے جس میں تمام مویشی ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ وبا مختلف بستیوں میں پھیلتی ہوئی بہت جلد ان کی بستی میں بھی آجائے گی اور پھر ان کا بچھڑا بھی مردار ہوکر مرے گا یا پھر بیمار جانور کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھانا پڑے گا جو بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

میزبان کا ارادہ تو یہ تھا کہ وہ چند ماہ بعد اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر بچھڑا ذبح کرے گا تاکہ ایک دعوت نمٹ جائے، مگر مہمان نے میزبان کو اپنی باتوں سے اس درجہ خوفزدہ کیا کہ اسے عافیت اسی میں محسوس ہوئی کہ اپنا بچھڑا فوراً ذبح کر دے۔ جس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ رات کے کھانے میں مہمان نے گوشت کھا لیا۔ گو کہ وہ چند بوٹیوں سے زیادہ نہیں کھا سکا۔ یہیں سے اپنی بوٹی کے لیے دوسرے کا بچھڑا ذبح کرانے کی یہ ضرب المثل وجود میں آئی۔

انسانوں کا ایک کردار یہ ہوتا ہے جس کا اظہار اس ضرب المثل سے ہوتا ہے۔ یہ مفاد پرست لوگ ہوتے ہیں جو اپنے معمولی فائدے کے لیے دوسروں کو کوئی بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ کبھی خوف کی نفسیات پیدا کرتے ہیں اور کبھی انسانی حرص کو ابھار کر دوسروں کو آمادہ کرتے ہیں کہ وہ کوئی قدم اٹھالیں۔ اس کے نتیجے میں اُس انسان کا یا تو کوئی نقصان ہوجاتا ہے یا وہ کسی بڑے فائدے سے محروم رہ جاتا ہے۔ یہ سب اُس شخص کی وجہ سے ہوتا ہے جو مبالغہ کرکے، جھوٹ بول کر، انسانی نفسیات سے کھیل کر خود تو بوٹی کے برابر فائدہ اٹھاتا ہے، مگر دوسرے شخص کو بچھڑے جتنا وزنی نقصان پہنچا دیتا ہے۔

اس کے برعکس ایک دوسرا کردار وہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن مجید نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے ضمن میں کیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ جب فرشتے انسانی شکل میں ان کے پاس آئے تو حضرت ابراہیم نے ان کو مہمان سمجھ کر کھانے کی دعوت دی۔ اس موقع پر انھوں نے مہمانوں کو دال سبزی یا مرغی کھلانے کے بجائے، ان کے لیے اپنے ریوڑ کا ایک موٹا تازہ بچھڑا ذبح کروا کر ان کی بھرپور دعوت کا بندوست کیا۔ یہ کردار ایک سخی کا کردار ہے۔ یہ کردار ایک بے غرض ہستی کا کردار ہے۔ یہ کردار دنیوی نفع و نقصان سے بے نیاز رہ کر اخروی فائدے کو سامنے رکھنے والوں کا کردار ہے۔

دنیا میں دونوں طرح کے کردار ہمیشہ سے رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ پہلے کردار کے حاملین کو اپنے نصیب کی بوٹیاں مل جاتی ہیں۔ مگر ایسے لوگ خدا کی رحمت سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجاتے ہیں۔ آخرت میں ان کے لیے رسوائی اور جہنم کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ دوسرے کردار کے لوگ دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر حد پر جانا پسند کرلیتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر نقصان کا سودا کرتے ہیں۔ مگر دوسروں کو بوٹی کھلانے کے لیے اپنا بچھڑا قربان کرنے والے یہ لوگ کل روزِ قیامت جنت کے سب سے بلند درجات پائیں گے۔ دنیا میں برکت و عافیت اس کے علاوہ ہے۔