آہ یہ چالاک انسان ۔ ابویحییٰ
آہ یہ انسان۔۔۔ اسے کیسا عظیم موقع دیا گیا اور اس نے کتنی بے دردی سے اس موقع کو ضائع کر دیا۔ یہ کیسا عظیم نقصان ہے۔۔۔ یہ کیسی بڑی محرومی ہے۔۔۔ یہ کیسی عجیب بے حسی ہے۔۔۔ یہ کیسی سنگین غلطی ہے۔ انسان کو جس روز اس کا احساس ہوگا وہ روئے گا، چیخے گا، چلائے گا۔ مگر افسوس اس کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔
اس انسان کو موقع دیا گیا تھا کہ وہ کائنات کی سب سے باکمال اور بے مثال ہستی کے آگے پورے شعور کے ساتھ سر تسلیم خم کر دے، مگر وہ اپنے تعصبات، اپنی خواہشات اور اپنے حقیر مفادات سے اوپر نہ اٹھ سکا۔ انسان کو یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ ایک سراپا کرم مالک کا شکر گزار بن کر جیے، مگراس نے اپنے لیے غفلت بھری زندگی کا انتخاب کیا۔ انسان کو یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ رب کائنات کی عظمت کے مقابلے میں اپنے مکمل عجز کو دریافت کرے اور اس کے حضور سراپا نیاز۔۔۔ سراپا اطاعت بن کر رہے، مگر وہ سرکشی اور تکبر کا شکار رہا۔
انسان بہت چالاک ہے۔ یہ چاہتا غیر اللہ کو ہے، مگر رسمی طور پر خدا کا نام لیتا ہے۔ وہ جیتا اپنے تعصبات میں ہے، مگر اپنی بات کو اصولی بات بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ پیروی اپنی خواہش کی کرتا ہے، مگر خود کو نظریاتی آدمی بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ آخرت کے لیے کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں، مگر سفارش اور جھوٹی امیدوں کی بنا پر خود کو جنت کا حقدار سمجھتا ہے۔
انسان کو اس کی چالاکی بہت مہنگی پڑے گی۔ بہت جلد عالم کا پروردگار اسے اپنے حضور طلب کرکے اس سے پوچھے گا تو نے حق پر اپنے تعصب کو کیوں ترجیح دی؟ دلیل پر جذباتی باتوں کو کیوں ترجیح دی؟ آخرت پر دنیا کو کیوں ترجیح دی؟ مجھ پر غیر کو کیوں ترجیح دی؟ اُس روز یہ انسان جان لے گا کہ کس پستی کی خاطر اس نے فردوس بریں میں خدا کے ابدی پڑوس کی بلندی کو گنوا دیا۔