یہ ایک سجدہ ۔ ابویحییٰ
انسان کا چہرہ اور سر اس کی عزت و شرف کا اظہار ہے۔ ہماری زبان کے متعدد محاورے یہ بتاتے ہیں کہ جسم کے اس حصے کا انسانی شرف سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ سر جھکانا، ناک نیچی کرنا، منہ نہ لگانا، ناک رگڑوا دینا، منہ پر تھوکنا وغیرہ جیسے اسالیب اور محاورے اسی شرف کے ہونے یا نہ ہونے کا بڑا عمدہ بیان ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ وہ اپنے اس چہرے اور سر کو پروردگار کے سامنے زمین پر ڈال دے۔ یہ وہ عبادت ہے جسے ہم سجدہ کہتے ہیں۔ سجدے میں انسان کا سر اور ناک زمین پر رگڑتا ہے اور اس کا وجود اس ہستی کے سامنے ڈھے پڑتا ہے جس نے اسے سب کچھ عطا کر رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسان سجدہ میں رب کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔
مگر اکثر عبادت کرنے والے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سجدے کو نماز کا بس ایک جز سمجھ کر رسمی طور پر سجدہ کرنے پر چھوٹ جاتے ہیں۔اس سجدہ میں وہ تین دفعہ گنتی کر کے ایک تسبیح پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ انہیں احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔ حالانکہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سجدہ کر کے انسان اپنے شرف اور عزت کے سب سے بڑے مقام کو اپنے رب کے سامنے پست اور ذلیل کر دیتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا ہم کسی دوسرے انسان کے سامنے کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
انسان اگر اس احساس کے ساتھ سجدہ کرے تو اس کی کیفیت بدل جائے گی۔ خاص کر یہ سجدہ اگر نماز سے باہر کیا جائے تو پھر یہ عادتاً اور رسماً کیا جانے والا سجدہ نہیں رہے گا بلکہ یہ اپنی ذات میں ایک ایسی اور مکمل عبادت کی لذت اور حلاوت انسان کو عطا کرے گا جو کسی اور ذریعے سے انسان کو نہیں مل سکتی۔ سجدہ بلاشبہ ایک عظیم عبادت ہے، بشرطیکہ سوچ سمجھ کر کیا جائے۔