Take a fresh look at your lifestyle.

تزکیۂ نفس: عبادات: تزکیۂ صوم روزہ – ڈاکٹر محمد عقیل

نماز اور زکوٰۃ کے بعد روزہ تیسری اہم عبادت ہے۔ رمضان فرض روزوں کا مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کے لیے فجر سے مغرب تک کھانے پینے اور مخصوص جنسی عمل سے اجتناب برتنا لازم ہے البتہ مسافر، بیمار یا حیض میں مبتلا خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں۔ روزہ صرف امتِ محمدی پر ہی نہیں بلکہ ماضی کی امتوں پر بھی فرض تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی بگڑی ہوئی شکل میں عیسائیوں، یہودیوں حتیٰ کہ ہندوؤں کے یہاں بھی اب تک موجود ہے۔
روزے کی فضیلت: روزہ اُن عبادات میں سے ہے جن کی فضیلت اور اجر دیگر عبادات کی نسبت بہت زیادہ بلکہ لامحدود ہے۔ احادیث میں بڑی کثرت سے روزے کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ جنت کا ایک دروازہ ریان صرف روزے داروں ہی کے لیے مخصوص ہے ( متفق علیہ)۔ ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھنے پر گذشتہ گناہوں کی معافی کی بشارت ہے (متفق علیہ)۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی بو سے بھی زیادہ عزیز ہے (متفق علیہ)۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک جب وہ افطار کرے اور دوسری جب وہ (اپنے روزے سے رب کو راضی کرکے) خدا سے ملاقات کرے گا (متفق علیہ)۔ ایک بادشاہ اپنے ملازموں کو لگی بندھی تنخواہ سے نوازتا ہے جس کا ایک قاعدہ اور قانون مقرر ہے۔ لیکن جب وہ اپنے وفادار اور خاص لوگوں سے معاملہ کرتا ہے تو پھر اجرت کا اصول بدل جاتا اور اس کی مقدار بے حساب ہوجاتی ہے اسی طرح ایک مؤمن کے ہر عمل کی جزا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے لیکن روزے کا اجر لامحدود ہے اور اس کی جزا خود پروردگارِ عالم دیں گے (متفق علیہ)۔
روزے کا مقصد: روزوں کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ درحقیقت اللہ کے خوف، اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش، اس کی رضا کے لئے ہر طرح کی مشقت اور آزمائش کے لیے کمر بستہ رہنے سے عبارت ہے۔ خدا کا تقرب اسی صورت میں مل سکتا ہے جب بندہ اس سے رک جائے جس سے رب نے منع کیا اور وہ کرنے کے لئے کمربستہ ہوجائے جس کا اس نے حکم دیا ہے۔ عمل کی دنیا میں دیکھا جائے تو یہ کوئی دو اور دو چار کا فارمولا نہیں کہ ادھر بندے نے بندگی کا اقرار کیا اور ادھر وہ ولی صفت اور باعمل مسلمان بن گیا۔ خدا کے احکامات کی بجا آوری کے لیے سخت محنت، ٹریننگ اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ عربی میں صوم کا مطلب ہے کسی چیز سے رک جانا اور اسے ترک کردینا۔ صائم (روزے دار) کی اصطلاح عرب معاشرے میں ان گھوڑوں کے لئے بھی استعمال ہوتی تھی جنہیں جنگ کی تربیت دینے کی خاطر بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا۔ روزہ اسی تربیت کا حصہ ہے جس کے ذریعے بندہ چند جائز اعمال کو بھی خدا کے حکم پر چھوڑ کر اس کی فرمانبرداری کی عادت پیدا کرتا اور گناہوں کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ 
روزے کا فلسفہ: دین کا بنیادی مقصد اپنے رب کو راضی کرنا اور اس کی عبادت و اطاعت ہے۔ رب کی اطاعت میں دو دشمن حائل ہوتے ہیں۔ ایک دشمن تو داخلی ہے جو انسان کا اپنا نفس ہے جبکہ دوسرا دشمن خارجی ہے جو شیطان ہے۔ رمضان چونکہ تربیت کا مہینہ ہے اس لیے خارجی دشمن یعنی شیطان کو تو دراندازی کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب نفس کی تربیت کرکے اسے ہر قسم کے حالات میں خدا کی اطاعت و بندگی کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ نفس کی مثال ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہے جو اپنے سوار کو اپنی مرضی سے بے مقصد بھگانا اور موقع ملنے پر پٹخ دینا چاہتا ہے۔ لیکن جب اسی سرکش گھوڑے کی تربیت کردی جاتی اور اسے اچھی طرح سدھا دیا جاتا ہے تو اب یہ سوار کے اشاروں پہ ناچتا، اس کے احکامات کی تعمیل کرتا اور اس کے لیے سراپا نفع بخش بن جاتا ہے۔ گو کہ کچھ لوگ اس سرکش گھوڑے کو گولی مار کر ختم کردینا بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں روز روز کی جھنجھٹ نہیں۔ لیکن اسلام میں رہبانیت نہیں اور انسان کی اصل طاقت اس منہ زور گھوڑے کو رام کرنے میں ہے نہ کہ اس کو مار ڈالنے میں۔ روزہ بھوک اور پیاس کے ذریعے نفس کے سرکش تقاضوں کو کمزور کرکے خدا کی اطاعت کے لیے تیار کرتا ہے۔ جو تقاضے انسان کو متواتر گناہ پر مجبور کرتے ہیں ان میں جنس کے تقاضے، پیٹ کی بھوک اور حلق کی پیاس سرِفہرست ہیں۔ ان تقاضوں کی افراط انسان کو بے شمار گناہوں پر اکساتی اور لاتعداد اخلاقی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ روزہ ان تقاضوں کو نکیل ڈالتا، ان کو قابو میں رکھتا اور انسان کو ان کے شر سے محفوظ رہنے کی تربیت دیتا ہے۔ انسانی نفس کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ وہ جلد باز واقع ہوا ہے۔ روزہ اس جلد بازی کے تقاضے کو قابو کرکے صبر کی تربیت بھی دیتا ہے۔

روزے کی آفات: ہمارے معاشرے میں بالعموم لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ البتہ چند کوتاہیوں کی بنا پر اس عظیم عمل کو مکمل یا جزوی طور پر ضایع کردیتے ہیں۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں:
1۔ روزہ رکھنے سے گریز 
2۔ نماز پڑھنے سے گریز
3۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا
4۔گناہ کا کلام
5۔ غصے کا غلبہ 
6۔ زبان کے چٹخارے
7۔ وقت کاٹنے کی کوشش
8۔ ریاکاری یا دکھاوا
9۔ نیت میں خرابی
10۔ قیام الیل
11۔ دیگر کوتاہیاں
1۔ روزہ رکھنے سے گریز: رمضان شروع ہونے سے قبل کچھ لوگ روزے ترک کرنے کے غیر شرعی بہانے تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں تاکہ خود کو اور لوگوں کو مطمئن کرسکیں۔ حالانکہ شریعت میں روزے سے مستثنیٰ افراد کی تفصیل موجود ہے۔ لیکن پھر بھی لوگ سر درد کے بہانے، خود ساختہ بیماری کے سبب، کام کی زیادتی یا کسی اور بنا پر روزے نہیں رکھتے۔ اس کا بنیادی سبب خدا پر ایمان کی کمزوری اور قول و فعل کا تضاد ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا مطالعہ اور صالح لوگوں کی صحبت سے ایمان کو جلا بخشی جائے اور ہر قسم کی مشکل میں خدا کی رضا ہی کو اہمیت دی جائے۔
2۔ نماز پڑھنے سے گریز: عا م طور پر تو روزے دار نماز کا اہتمام کرتے ہی ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو روزے کی حالت میں بھی نماز پڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سستی و کاہلی ہے اور پھر یہ حضرات روزے اور نماز کو دو الگ الگ فرائض سمجھتے ہیں حالانکہ جس کی رضا کے لیے وہ خود کو بھوکا پیاسا رکھ رہے ہیں اسی کا حکم ہے کہ نماز پڑھو۔ یہ حضرات روزے کا مطلب بھوک اور پیاس ہی لیتے اور اس کی اسپرٹ کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ روزے کا بنیادی مقصد نفس کی تربیت کرکے اسے خدا کی بندگی اور اس کے تمام احکام و ہدایات بجالانے والا بنانا ہے۔ چنانچہ عین حالتِ روزہ میں خدا کی بندگی کی عملی تعبیر یعنی نماز سے روگردانی روزے کے بنیادی فلسفے اور مقصد سے روگردانی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اوپر بیان کیے گئے روزے کے فلسفے پر غور کریں۔ اس سلسلے میں تزکیۂ نماز پر لکھے گئے آرٹیکل سے مدد لی جاسکتی ہے۔
3۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا: کچھ لوگ روزہ رکھ کر ظاہری جنسی امور سے تو اجتناب کرتے ہیں لیکن دیگر طریقوں سے شہوت کو تسکین پہنچانے کی شعوری و لاشعوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ آنکھوں کو قابو میں نہیں رکھتے، کانوں سے فحش گانے سن کر نفس کو تسکین پہنچاتے یا پھر فحش باتوں میں ملوث ہوکر روزے کو ضایع کرتے اور پھر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے شہوانی تقاضے روزے میں بھی قابو میں نہیں آتے۔ بھائی جب ائیرکنڈیشن چلایا جاتا ہے تو کھڑکیاں دروازے بند کرکے ٹھنڈک کو باہر نکلنے سے روکا جاتا ہے۔ آنکھوں کی کھڑکیاں بھی کھلی ہوں اور کانوں کے دروازے بھی، تو پھر یہ شکایت عبث ہے کہ تقوٰی کی ٹھنڈک دل میں محسوس نہیں ہوتی۔ ہمت سے کام لے کر خود کو ان گناہ کے امور سے دور کرلیں۔ جونہی کسی نامحرم پر شہوت کی نگاہ پڑے تو نفس کو کہہ دیں کہ میں روزے سے ہوں اور خدا کی حمد و ثنا اور استغفار و دعا میں مشغول ہوجائیں۔ نیز دل کے وسوسوں میں بھی کسی جنسی یا شہوانی تصور سے گریز کریں کیونکہ آپ نے جس کے لئے روزہ رکھا ہے وہ دلوں کے بھید بھی جان لیتا ہے۔ یاد رہے کہ نامحرم کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنا گناہ ہے لہٰذا دفتر یا تعلیمی اداروں میں جہاں مرد و زن کا اختلاط زیادہ ہوتا ہے، نامحرم کے بارے میں ہر طرح کے جنسی اشتہا کے تصور کو قابو کیا جائے۔ 
شہوانی امور میں ایک معاملہ میاں بیوی کے تعلقات ہیں۔ ظاہر ہے کہ روزے کی ایک شرط مخصوص جنسی تعلق سے گریز بھی ہے۔ البتہ دیگر معاملات (مثلاً بوس و کنار وغیرہ) کی اجازت تو ہے لیکن چونکہ اس میں اندیشہ ہے کہ روزہ ضایع ہو جائے لہٰذا اجتناب ہی بہتر ہے۔

4۔ گناہ کا کلام: قدیم شریعتوں میں روزے کی حالت میں کلام یعنی بات چیت پر بھی پابندی ہوتی تھی۔ امتِ محمدی میں گو کہ یہ پابندی تو نہیں لیکن بلا ضرورت کلام سے گریز روزے کی روح کے قریب تر ہے۔ بات چیت میں جو گناہ ہم سے سرزد ہوتے ہیں ان میں جھوٹ، غیبت، بہتان، فحش کلام، گالم گلوچ وغیرہ شامل ہیں۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور بُرا کام کرنا نہیں چھوڑتا، تو اللہ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے(بخاری)۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روزے کا مقصد اللہ کا خوف اور اس کے احکام و فرامین کے لیے تعمیل کا جذبہ پیدا کرنا ہے محض بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک طرف تو کھانے کا ایک دانہ بھی منہ میں نہیں جا ئے اور دوسری طرف غیبت کے ذریعے اپنے ہی بھائی کا گوشت جی بھر کے کھایا جارہا ہو، شہوت سے ظاہری پرہیز کے ساتھ فحش گفتگو سے اس کی کسر پوری کی جارہی ہو، نیت تو صوم (خدا کی نافرمانی سے گریز) کی ہو لیکن گالیوں کے عمل سے اس نیت کو توڑا جارہا ہو، خدا کے حکم پر زبان کو خشک اور حلق کو پیاسا تو کردیا گیا ہو لیکن جھوٹ بول کر انہیں اخلاقی غلاظتوں سے تر اور سیراب کیا جارہا ہو۔
وہ بات چیت جو عام زندگی میں حرام ہے وہ روزے کی حالت میں اور زیادہ حرام ہوجاتی ہے جیسے ایک فوجی کا کسی حکم کی تعمیل سے انکار کرنا تو ویسے ہی قابلِ گرفت ہے لیکن جنگ کی حالت میں کی گئی نافرمانی زیادہ قابلِ سرزنش ہوتی ہے۔ ممنوع کلام پر قابو پانے کے لیے چند ہدایات پر غور کریں۔ ایک تو یہ کہ بلا ضرورت بولنے سے گریز کریں اور خاموشی کو روزے کا ادب اور عبادت سمجھتے ہوئے گفتگو میں احتیاط کریں۔ بولنے سے پہلے توقف کریں اور ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آپ کیا کہنے والے ہیں؟ اگر وہ کسی کی برائی، کسی کا مذاق، کوئی جھوٹا کلام وغیرہ ہے تو رک جائیے اور اُس رب کا تصور کریں جس کے کہنے پر آپ نے بھوک کا درد اور پیاس کے کانٹے برداشت کیے ہیں اور یہ سوچیں کہ اس موقع پر زبان کی تالہ بندی اسی رب کا حکم ہے۔ 
دوسری ہدایت یہ کہ روزے کی حالت میں گناہ کے کلام کو اسی طرح حرام سمجھیے جس طرح کھانا اور پینا۔ کھانا پینا روزے کے ظاہر کو برباد کرتا ہے جبکہ فحش کلام اور غیبت وغیرہ روزے کے باطن کو تہس نہس کرڈالتے ہیں۔ نوعیت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں خدا کی معصیت (گناہ) ہیں۔ اس ضمن میں تیسری ہدایت یہ ہے کہ زبان کو خدا کی یاد سے تر رکھیں۔ یہی وہ موقع ہے کہ اللہ کو تمام عیوب سے پاک سمجھ کر اس کی تسبیح کی جائے، اس کی کاریگریوں کو دیکھ کر حمد و ثنا کے گن گائے جائیں، اس کی وفاداری کے ترانے پڑھے جائیں، اس کی رحمت کی چھاؤں اور مغفرت مانگی جائے۔ یہ ذکر بھی بدکلامی سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
آخری بات یہ کہ وہ مقام جہاں گناہ کی باتیں ہورہی ہوں تبدیل کرلیا جائے کیونکہ بعض اوقات ماحول اور ساتھیوں کے اُکسانے سے بھی بدکلامی سرزد ہو جاتی ہے۔ 
5۔ غصے کا غلبہ: روزے کی حالت میں اعصاب کی کمزوری اور بھوک پیاس کی شدت کی بنا پر چڑچڑاہٹ اور غصہ طبیعت پر غالب آجاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں، بیوی اور ماتحتوں پر سختی کرتے اور ان پر چیخ پکار کے ذریعے اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ غیض و غضب متعلقین اور ساتھیوں پر بھی برسنے لگتا ہے۔ چونکہ فریقِ ثانی بھی کچھ ایسی ہی کیفیات کا شکار ہوتا ہے لہٰذا بسوں میں مسافرین کے درمیان تو تو میں میں شروع ہوجاتی، سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجاتا اور لوگوں میں گالم گلوچ اور بعض اوقات ہاتھا پائی کی نوبت بھی آجاتی ہے۔
اس کا بنیادی سبب بھوک پیاس اور اعصابی کمزوری کے علاوہ غصہ کو درست سمجھنا ہے کہ میں تو روزے سے ہوں اور میرا حق ہے کہ میں یہ سب کچھ کروں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ روزے کے فلسفے کو یاد رکھا جائے کہ اس کا مقصد صبر کی تربیت دینا ہے۔ چنانچہ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی اس تربیت میں ناکامی کی علامت ہے۔ اس کا علاج حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ روزے کو ایک ڈھال کی طرح استعمال کیا جائے۔ لہٰذا جس کا روزہ ہو وہ نہ تو بے حیائی کی باتیں کرے اور نہ ہی جہالت دکھائے۔ پھر بھی اگر کوئی گالی دے تو وہ کہہ دے کہ میرے بھائی میں روزے سے ہوں (بخاری و مسلم)۔ مزید یہ کہ غصے کی حالت میں مقام کی تبدیلی بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ 
6۔ زبان کے چٹخارے: صبح سے شام تک بھوکا رہنے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں کی جانب رغبت بڑھ جاتی ہے۔ اس اشتہا کو مٹانے کے لیے نت نئے کھانوں کا اہتمام، انواع و اقسام کے پکوان اور لاتعداد مشروبات کی تیاری میں وقت صرف کیا جاتا اور ان کا تصور کر کر کے روزے کا وقت کاٹا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان میں بسیار خوری کے نتیجے میں رمضان میں اکثر لوگوں کا وزن کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے۔ وہ وقت جو جنت کی نعمتوں کی یاد میں گزرنا چاہئے تھا وہ دنیوی دسترخوانوں کی نظر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ تقوٰی اور صبر جو اس بھوک اور پیاس سے پیدا ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوتا اور نتیجے کے طور پر سطحی قسم کی لذتیں تو مل جاتی ہیں لیکن روزے کے ثمرات و فیوضات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ کھانا پینا ضرورت کے تحت ہو، مقصد نہ بن جائے۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ اہتمام میں وقت ضایع کرنا، اور لذتوں کی یاد میں گرفتار رہنا بالکل بھی مناسب نہیں۔ نیز اگر اس صورتِ حال میں آپ اپنے کھانے سے زیادہ مستحقین اور دیگر افراد کو کھلانے کی فکر کریں تو چٹخاروں کی غیر ضروری رغبت سے نجات مل سکتی ہے۔
7۔ وقت کاٹنے کی کوشش: چونکہ رمضان میں دفتر اور تعلیمی اداروں کی چھٹی جلد ہوجاتی ہے اس لیے لوگوں کو کافی فارغ وقت دستیاب ہوجاتا ہے۔ لوگ اس وقت کو عبادات، اذکار اور خدا کی یاد میں لگانے کے بجائے ناول پڑھنے، بلامقصد انٹرنیٹ پر سرفنگ یا چیٹنگ کرنے، تاش اور دیگر گیمز کھیلنے یا ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بعض اوقات حدود سے تجاوز ہو جاتا اور روزے کی صحت پر اثر پڑجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ رمضان میں کچھ اہداف مقرر کرلیں۔ مثلاً پورے مہینے میں ایک قرآن ترجمے اور تفسیر سے پڑھنا ہے یا حدیث، سیرت اور اسلامی موضوع پر کوئی کتاب ختم کرنی ہے۔ اور پھر اوقات مقرر کرکے اس پر سختی سے کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح فراغت کے اوقات میں قرآن یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روزمرہ کی دعاؤں کو یاد کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح خدا کی صناعی، اس کی قدرت، اس کی رحمت اور کائنات کے تنوع پر غور کر کے خدا کی معرفت بڑھانے کی کوشش کریں۔

8۔ ریاکاری یا دکھاوا: روزے کی آفتوں میں سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ روزہ گھر والوں یا دفتر کے ساتھیوں کو دکھانے کے لیے رکھا جائے۔ اصل میں دکھاوے کے علاوہ ایک اور عنصر خوف کا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اس قسم کے لوگوں کی اکثریت البتہ چوری چھپے کھانے پینے سے گریز کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ خوفِ خدا ہوتا ہے لیکن اصل محرک لوگوں کی ملامت سے بچنا ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ خدا کے حوالے سے یہ حقیقت ذہن میں تازہ کی جائے کہ اس کی ملامت لوگوں کی ملامت سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ پھر جب مشقت ہی اٹھانی ہے تو نیت میں ذرا سی تبدیلی کرلی جائے کہ میں یہ بھوک اور پیاس اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا پانے کے لیے برداشت کررہا ہوں۔
ریاکاری کی ایک صورت یہ ہے کہ لوگ اپنے روزوں کا مختلف بہانوں سے ذکر کرتے ہیں کہ میرے تو پورے روزے جارہے ہیں یا آج کا روزہ تو بہت سخت ہے وغیرہ۔ اس قسم کی گفتگو کا محرک اگر دکھاوا ہے تو یہ روزے کے اجر کو کم یا ختم کرسکتی ہے۔ چنانچہ دل و دماغ میں روزے کی غایت خدا کی رضا ہی بٹھائی جائے اور لوگوں کی تحسین وصول کرنے کے بجائے زمین و آسمان کے اُس بادشاہ کی تحسین و داد وصول کرنے کی کوشش کی جائے جس کے ہاتھ میں تمام خزانے ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھ کر انہیں لوگوں سے حتی الامکان چھپایا جائے تاکہ ریاکاری پر قابو پایا جاسکے۔
9۔ نیت میں خرابی: کچھ لوگ رمضان کے روزے اس نیت سے رکھتے ہیں کہ وزن کم ہوجائے یا تیزابیت کم ہو یا دیگر بیماریوں کا علاج ہوجائے۔ یاد رکھیں کہ آپ جس لیے روزہ رکھیں گے تو وہی آپ کا نصیب ہے۔ لہٰذا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ وزن کم کرنے کو مقصود بناتے ہیں یا خدا کی بندگی کو۔
10۔ قیام الیل: رمضان عبادت کا مہینہ ہے۔ یہ خدا کی طرف سے ڈسکاؤنٹ پر سیل (Sale) کا اعلان ہے جس میں جنت کی وسیع و عریض زمینیں، اس کے گھنے باغات، اس کی ابلتی ہوئی نہریں، اس کے عالیشان تخت، اس کے خوابناک بیڈرومز، اس کی معطر فضائیں اور نہ جانے کیا کیا کچھ انتہائی کم قیمت پر اس ماہ میں دستیاب ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چند رت جگے ان نعمتوں کو آپ سے قریب کردیں۔ اگر ہر رات جاگنا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک دن چھوڑ کر، یا پھر ویک اینڈ پر۔ اور آخری عشرہ تو بس لوٹ لینے کا عشرہ ہے گویا کہ دینے والے نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ سب کچھ ہی دے دے گا بس شرط یہ ہے کہ کوئی مانگنے والا تو ہو۔
رات جاگنے سے متعلق کئی غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ تراویح کی نماز فرض نہیں بلکہ یہ تہجد ہی کی نماز ہے اور تمام مسالک کا اس پر اتفاق ہے بجز حنفی مسلک کے جو اس نماز کو سنت مؤکدہ سمجھتا ہے اور اس کے تارک کوگناہِ صغیرہ کا مرتکب قرار دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حنفی مسلک کے تحت بھی اس نماز میں پورا قرآن سننا ضروری نہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے آخری دنوں میں کسی اور امام سے اپنی مسجد میں نماز پڑھوائی تو ہدایت کی کہ پورے مہینے سورۂ الم ترکیف سے ہی تراویح پڑھائی جائے (مآثر حکیم الامت: صفحہ ۹۵)۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کچھ لوگ تراویح کو روزے کا لازمی جزو اور اس کے ترک کو روزے کے فاسد ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ 
دوبارہ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ رات کس طرح جاگی جائے۔ اکثر لوگوں کو قرآن کی چھوٹی سورتیں یاد ہوتی ہیں لہٰذا وہ تہجد کی نماز چند منٹ میں پڑھ کر ہاتھ جھاڑ کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچھ علما نماز کی حالت میں قرآن میں سے دیکھ کر پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس ذریعے سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تہجد کی نماز ایک نفلی نماز ہے اور اس میں رکعتوں کی تعداد گیارہ سے لے کر 40 تک ہے۔
رات جاگنے میں محض نماز پڑھنا ہی شامل نہیں۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا بھی اس کا حصہ ہے۔ اسی طرح خدا سے باتیں کرنا، اس سے اپنے دل کا حال کہنا، کبھی مکان، جائداد، صحت اور اولاد کی مادی سطح سے بلند ہوکر اس سے دعائیں کرنا، اس کی پاکی بیان کرنا، اس کی حمد کرنا وغیرہ بھی اس کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں دعاؤں کی کتاب حصنِ حصین کو سامنے رکھ کر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے الفاظ سے بھی مناجات کی جاسکتی ہے۔

11۔ دیگر ہدایات: 
ا۔ روزہ میں دیگر کوتاہیوں میں بے شمار چیزیں آسکتی ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ البتہ اتنا یاد رکھیں کہ ہر گناہ خدا سے دور کرتا اور ہر اچھا عمل خدا کے قریب کرتا ہے۔ وہ بھوک و پیاس کسی کام کی نہیں جس کے ساتھ ساتھ گناہوں کا سلسلہ بھی چلتا رہے اور خدا سے دوری کا سبب بن جائے۔
ب۔ اپنا احتساب کریں، اپنی کمزوریوں کو جانیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں تزکیۂ نفس کے سلسلے میں تیار کردہ سوال نامے ’’اپنا احتساب کیجئے‘‘ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
ج۔ یہ دیکھیں کہ پچھلے رمضان سے اس رمضان تک کیا کوتاہیاں اور نافرمانیاں سرزد ہوئیں۔ ان پر اللہ سے معافی مانگیں اور آئندہ ان سے بچنے کا عہد کریں۔
د۔ حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں خاص طور پر دل کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ کریں کیونکہ جو خرچ ہوگیا وہ بچ گیا اور جو بچ گیا وہ رہ گیا۔