سیدنا حسین پر ہونے والے اعتراضات کے جواب ۔ ابویحییٰ
سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اکثر آپ کی شخصیت اور سیرت کا اصل سبق عقیدت اور سیاست کی گرد میں چھپ جاتا ہے۔ ایسے میں دین اور تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت میں یہ خاکسار اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے کہ سیدنا حسین کی زندگی جو اس طرح کے حالات میں ایک بندہ مومن کی زندگی کا بہترین نمونہ ہے، اسے سامنے لایا جائے۔ راقم کے نزدیک اس تحریر کی اہمیت یوں بھی ہے کہ بعض اہل علم سیدنا حسین کے اقدامات پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سوالات اٹھاتے ہیں۔ جذباتیت اور عقیدت سے قطع نظر یہ اعتراضات اور سوالات بنیادی نوعیت کے ہیں۔ اس تحریر میں انھی سوالات کے بالواسطہ جواب بھی دیے گئے ہیں۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقدام کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب حضرت امیر معاویہ نے یزید کی ولی عہدی کا اعلان کیا اور اپنی زندگی ہی میں سلطنت کے تمام عاملین اور امت کے تمام اکابرین سے اس کی بیعت لینے کا عمل شروع کر دیا۔ اس وقت چار نمایاں لوگوں نے اس بیعت سے انکار کر دیا یعنی حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت حسین۔ ان میں سے حضرت حسین کا قد و قامت ہر پہلو سے سب سے بڑا تھا۔ آپ نواسہ رسول ہی نہیں بلکہ حضرت علی کے بیٹے اور حضرت حسن کے بھائی تھے۔ اس پہلو سے جو عوامی عصبیت آپ کو حاصل تھی وہ کسی اور کو حاصل نہ تھی۔
حضرت امیر معاویہ کے پاس اگر یزید کی بیعت کرانے کی سیاسی وجوہات تھیں تو ان حضرات کے پاس بیعت نہ کرنے کی دینی اور اخلاقی وجوہات تھیں۔ جن کو انھوں نے بہت واضح انداز میں حضرت امیر معاویہ کے سامنے اس وقت رکھ دیا تھا جب وہ ان سے بیعت کرانے کے لیے سن 51 ھجری میں حج کے موقع پر مکہ میں ملے تھے۔ حضرت معاویہ اس کے بعد نو برس زندہ رہے لیکن ان حضرات سے بیعت کے لیے اصرار نہیں کیا۔ اسی طرح ان حضرات کی طرف سے بھی کسی قسم کا اقدام نہیں کیا گیا۔
یہ رویہ ان بزرگوں کی دینی بصیرت اور اخلاقی جرات کا عکاس تھا۔ ایک چیز اگر اخلاقی بنیادوں پر غلط ہو تو چاہے وہ سلطنت کی طاقت کے ساتھ ہو، اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بغاوت کر دی جائے، اس لیے کہ بغاوت یا خروج سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ منع کیا تھا۔ اس معاملے میں قرآن و حدیث کی ہدایات اتنی زیادہ واضح ہیں کہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی جلیل القدر شخصیات ان کے خلاف جاکر کوئی قدم اٹھا سکیں۔
یہیں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضرت امیر معاویہ کی وفات اور یزید کے حکمران بننے کے بعد حضرت حسین نے وہ قدم کیوں اٹھایا جس کے نتیجے میں کربلا کا سانحہ رونما ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یزید کے خلافت سنبھالنے کے بعد اس کا اقتدار پوری سلطنت میں قائم ہی نہیں ہوسکا تھا۔ چنانچہ مکہ میں عبداللہ ابن زبیر کی بیعت ہوگئی تھی۔ اسی طرح عراق کے لوگ بھی یزید کی بیعت پر آمادہ نہ تھے۔ ان کے عزم اطاعت اور دعوت بیعت پر مبنی مسلسل خطوط اور پھر مسلم بن عقیل کی طرف سے یقین دہانی کے بعد جن کو حضرت حسین نے اہل عراق کے احوال کی تصدیق کے لیے کوفہ بھیجا تھا، حضرت حسین کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ عراق میں بھی یزید کا اقتدار قائم نہیں ہوا ہے۔
چنانچہ حضرت حسین نے کسی قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج نہیں کیا تھا بلکہ یزید کا اقتدار ابھی قائم ہی نہیں ہوا تھا۔ وہ حضرت امیر معاویہ کے اس فیصلے کو درست نہیں سمجھتے تھے جس میں انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنا دیا تھا، مگر ایک قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف تھا۔ چنانچہ وہ خاموش رہے۔ لیکن حضرت امیر معاویہ کے بعد سیدنا حسین کا اہل عراق کی دعوت پر وہاں بیعت کے لیے جانا قائم شدہ حکومت کے خلاف اقدام کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ شورائیت کے اسی اصول کی ایک عملی شکل تھی جس کے مطابق مسلمانوں کو اپنا حکمران چننے کا طریقہ سکھایا گیا ہے،(الشوری38:42)۔ مگر بدقسمتی سے یہ اہل عراق بزدل اور دھوکے باز تھے۔ چنانچہ انھی بزدلوں نے آپ کو بیعت کے لیے عراق بلا کر آپ سے غداری کر دی اور کربلا کے میدان میں آپ ہی کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ جب یہ بات آپ پر واضح ہوگئی کہ یزید کا اقتدار عراق پر بھی مکمل طور پر قائم ہوچکا ہے تو آپ نے وہ تین شرائط میدان کربلا میں عمر بن سعد کے سامنے رکھیں تھیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو، میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں گا، (طبری بروایت ابو مخنف، جلد 4، صفحہ 313)۔ یہیں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اگر یزید کے اقتدار کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے تو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ کیا صرف اس لیے دینے کو تیار ہوگئے تھے کہ دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ ان کی اعلیٰ شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات ناقابل فہم ہے۔ ہمارے نزدیک اصل بات وہی ہے کہ پہلے یزید کا اقتدار قائم نہیں ہوا تھا، مگر جب آپ پر واضح ہوگیا کہ یزید کا اقتدار مکمل طور پر قائم ہوچکا ہے تو آپ نے دینی تعلیمات کے عین مطابق وہی فیصلہ کیا جو آپ کو کرنا چاہیے تھا۔
بدقسمتی سے کوفہ کے بدعہد لوگوں نے یہ موقع آنے ہی نہیں دیا۔ ان کو اندازہ تھا کہ یزید اور حضرت حسین میں ویسا ہی سمجھوتہ ہوجائے گا جیسا حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن میں ہوا تھا، مگر اس کے بعد عراقیوں کی شامت آجائے گی۔ چنانچہ انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایک طرف اپنی جان بچانے کے لیے انھوں نے حضرت حسین اور ان کے تمام ساتھیوں کو شہید کر دیا تاکہ حضرت حسین ان کے خلاف گواہی دینے کے لیے زندہ نہ رہیں۔ aدوسری طرف انھیں یہ فائدہ ہوا کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد تمام مسلمانوں کی نفرت کا رخ یزید کی طرف ہوگیا اور وہ زیادہ عرصہ اقتدار میں نہ رہ سکا۔ چنانچہ تاریخی روایات یہی بتاتی ہیں کہ عبیداللہ ابن زیاد حضرت حسین کی شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا تھا مگر شمر بن ذی الجوشن نے اس کو ورغلاتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ وہ حضرت حسین کو مجبور کرے کہ وہ اس کے سامنے ہتھیار ڈالیں اور اس کے ہاتھ پر بیعت کریں(حوالہ بالا)۔ عرب کے سب سے بڑے سردار کے لیے یہ انتہائی توہین آمیز شرط تھی جس کا پورا کرنا ممکن نہ تھا۔ جس کے بعد مفسدوں کو اپنا کام کرنے کا موقع مل گیا۔ حضرت حسین شہید ہوگئے اور یہ مفسد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
تاہم اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضرت حسین کا کوئی قدم نہ تو دین کی تعلیمات کے خلاف تھا اور نہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے تھا۔ جس وقت جو رویہ دینی اور اخلاقی پہلو سے آپ جیسی اعلیٰ شخصیت سے مطلوب تھا، آپ نے اسی کا مظاہرہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جذباتیت، عقیدت اور سیاست کی گرد میں اب لوگ کسی حقیقت کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔