Take a fresh look at your lifestyle.

شہزادی اور دھوبی کا بیٹا ۔ قاری حنیف ڈار

مرزا مظہر جانِ جاناں ایک مشہور صوفی تھے۔ مرزا مظہر اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ھی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہوسکا‘‘۔ پھر غش کھا جاتے۔ ایک دن ان کے مریدوں نے پوچھ لیا کہ حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرا ہے؟
آپ نے فرمایا ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑے دھلنے آیا کرتے تھے اور وہ میاں بیوی کپڑے دھو کر پریس کرکے واپس محل پہنچا دیا کرتے تھے، ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو جوان ہوا تو کپڑے دھونے میں والدین کا ھاتھ بٹانے لگا، کپڑ وں میں شہزادی کے کپڑے بھی تھے، جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہوگیا، محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعد اس کے اطوار تبدیل ہوگئے، وہ شہزادی کے کپڑے الگ کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا، انہیں استری کرنے کے بعد ایک خاص نرالے انداز میں تہہ کرکے رکھتا، سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ یہ تو لگتا ہے سارے خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہوگیا ہے، والد نے بیٹے کے کپڑے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر جب تک لڑکا محبت کے زیر اثر محبوب کی کوئی خدمت بجا لاتا تھا، محبت کا بخار نکلتا رہتا تھا، مگر جب وہ اس خدمت سے ہٹایا گیا تو لڑکا بیمار پڑگیا اور چند دن کے بعد فوت ہوگیا۔

ادھر کپڑ وں کی دھلائی اور تہہ بندی کا انداز بدلا تو شہزادی نے دھوبن کو بلا بھیجا اور اس سے پوچھا کہ میرے کپڑے کون دھوتا ہے؟ دھوبن نے جواب دیا کہ شہزادی عالیہ میں دھوتی ہوں، شہزادی نے کہا پہلے کون دھوتا تھا؟ دھوبن نے کہا کہ میں دھوتی تھی، شہزادی نے اسے کہا کہ یہ کپڑا تہہ کرو، اب دھوبن سے ویسے تہہ نہیں ہوتا تھا، شہزادی نے اسے ڈانٹا کہ تم جھوٹ بولتی ہو، سچ سچ بتاؤ ورنہ سزا ملے گی، دھوبن کے سامنے کوئی رستہ بھی نہیں تھا دوسرا کچھ دل بھی غم سے بھرا ہوا تھا، وہ زار و قطار رونے لگ گئی، اور سارا ماجرا شہزادی سے کہہ سنایا، شہزادی یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آگئی۔

پھر اس نے سواری تیار کرنے کا حکم دیا اور شاہی بگھی میں سوار ہو کر پھولوں کا ٹوکرا بھر کر لائی اور مقتول محبت کی قبر پر سارے پھول چڑھا دیے، زندگی بھر اس کا یہ معمول رہا کہ وہ اس دھوبی  بچے کی برسی پر اس کی قبر پر پھول چڑھانے ضرور آتی۔

یہ بات سنانے کے بعد مرزا مظہر کہتے، اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہوسکتی ہے تو بھلا اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟ ایک انسان سے محبت اگر انسان کے مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے اور وہ اپنی پوری صلاحیت اور محبت اس کے کپڑ ے دھونے میں بروئے کار لاسکتا ہے تو کیا ہم لوگ اللہ سے اپنی محبت کو اس کی نماز پڑھنے میں اسی طرح دل وجان سے نہیں استعمال کرسکتے؟ مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے انداز کو پہچان سکتی ہے تو کیا رب کریم بھی محبت سے پڑھی گئی نماز اور پیچھا چھڑانے والی نماز کو سمجھنے سے عاجز ہے؟

پھر فرماتے وہ دھوبی بچہ اس وجہ سے کامیاب ہے کہ اس کی محبت کو قبول کرلیا گیا جب کہ ہمارے انجام کا کوئی پتہ نہیں قبول ہوگی یا منہ پر مار دی جائے گی، اللہ جس طرح ایمان اور نماز روزے کا مطالبہ کرتا ہے اسی طرح محبت کا تقاضا بھی کرتا ہے، یہ کوئی مستحب نہیں فرض ہے! مگر ہم غافل ہیں۔

پھر فرماتے اللہ کی قسم اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل اسی طرح پھٹ جاتے جس طرح دھوبی بچے کا دل پھٹ گیا تھا، یہ ساری ساری رات کی نماز ایسے ہی نہیں پڑھی جاتی کوئی جذبہ کھڑا رکھتا ہے، فرماتے یہ نسخہ اللہ پاک نے اپنے نبی کے دل کی حالت دیکھ کر بتایا تھا کہ آپ نماز پڑھا کیجئے اور رات بھر ہماری باتیں دہراتے رھا کیجئے آرام ملتا رہے گا، اسی وجہ سے نماز کے وقت آپ فرماتے تھے ’’ارحنابھا یا بلال۔ اے بلال ہمارے سینے میں ٹھنڈ ڈال دے اذان دے کر‘‘۔