Take a fresh look at your lifestyle.

سلام اس پر۔۔۔ ۔ ابویحییٰ

گستاخی رسول کا مسئلہ پچھلے دس پندرہ برسوں سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی پہلو سے تازہ ہوجاتا ہے۔ ان برسوں میں ہم نے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، لیکن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا دہرانا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق خود ہماری محبوب ہستی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ شخصیت، وقار اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کے ساتھ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلوم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی، سب سے اعلی اور سب سے زیادہ باکمال شخصیت ہیں۔ یہ بات ہم عقیدتاً نہیں کہہ رہے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ معلوم انسانی تاریخ آپ جیسی بے مثل کسی دوسری ہستی کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھتی۔ آپ کی عظمت کی وجہ بحیثیت نبی اور رسول آپ کے مشن کی کامیابی نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر وہ عظیم اخلاق اور بے مثل کردار تھا جس کا مظاہرہ ایک حکمران اور پیشوا ہونے کے باجود آپ نے عمر بھر کیا۔

آپ کی اس بے مثل شخصیت کا سب سے غالب پہلو وہی ہے جسے قرآن نے ’’رحمت للعالمین‘‘ کہہ کر نمایاں کیا۔ یہ ابر رحمت جب برسا تو دوست تو کجا دشمن بھی اس کی عنایتوں سے محروم نہ رہے۔ بد ترین دشمنوں نے بھی آپ سے معافی، درگزر، رحم کے سوا کچھ نہیں پایا۔ اسی بے مثل شخصیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہ لیا۔ مکہ میں کفار نے آپ کو بد ترین سَبّ و شتم اور تمسخر و استہزا کا ہدف بنایا۔ مدینہ میں یہی کام منافقین اور یہود نے اپنے طریقے سے کیا۔ مگر جواب میں صبر، درگزر، معافی اور رحم کے سوا کچھ نہ پایا۔

یہ وہ بے مثل ہستی ہے جس کے بارے میں آج کے مسلمان ہمیں آئے دن یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ رحمت للعالمین نے فلاں فلاں کو گستاخی کے جرم میں قتل کرایا۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ رحمت للعالمین کے بارے میں ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہیں کہ معاذ اللہ نبئ رحمت کا ظرف اتنا کم تھا کہ کسی بدبخت کی زبان درازی کا تحمل نہ کرسکتا تها- باخدا ایسی کوئی بھی بات رسول خدا کی عظمت سے فروتر ہے۔ آپ کی ہستی وہ سورج ہے جو ہر بے ہودہ گو کی پہنچ سے بہت بلند اور اعلیٰ ہے۔

قبل اس کے ہم یہ بتائیں کہ یہ نقطہ نظر کس طرح غلط ہیں، ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں گستاخی رسول کے کسی قانون کے خلاف نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی ابتدائی زندگی کا ایک بڑا حصہ بریلوی مکتب فکر کے زیر اثر گزارا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق سارے اہل حدیث اور دیوبندی حضرات ہی گستاخ رسول ہیں۔ اس کا ایک علانیہ نمونہ جنید جمشید مرحوم کے معاملے میں سامنے آچکا ہے۔ اس وقت بھی ہمارے سماج میں گستاخی رسول کے بیشتر مقدمات غیر مسلموں کے خلاف نہیں بلکہ وہ ہیں جو بریلویوں نے دیوبندیوں اور اہل حدیث حضرات کے خلاف درج کرا رکھے ہیں۔ کوئی قانون اگر نہیں ہوگا تو پھر سارے فیصلے سڑکوں پر ہی ہوں گے۔ اس لیے ہم قانون کو تو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ رحمت للعالمین نے اس طرح کا کوئی قانون ہمیں عطا کیا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قانون نہیں ہوگا تو فرقوں میں بٹی اس امت میں ختم نہ ہونے والا فساد شروع ہوجائے گا۔ اسی طرح ہم اس بات کے بھی خلاف نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے جو بھی کوشش کی جاسکتی ہو وہ کی جائے۔ حکمت و بصیرت کے ساتھ ایسا کرنا ہرگز غلط نہیں ہوگا۔

اب ہم بہت اختصار سے یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح کے کسی قانون کی رحمت للعالمین سے نسبت غلط ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ حضور نے پوری زندگی گھٹیا معاندین اور بدترین دشمنوں کا سامنا کیا۔ انھوں نے ہر قدم پر آپ کے دین کے ساتھ آپ کی شخصیت اور خاندان کو بهی ہدف بنایا۔ اگر آپ ان کو سزا دینے والے ہوتے تو کفار مکہ اور یہود و منافقین میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچتا۔ مگر سیرت طیبہ کی یہ روشن حقیقت ہے کہ آپ نے خدا کے حکم کے سوا کبھی کسی کو سزا نہیں دی۔ آپ کی یہی وہ اعلیٰ ظرفی تھی جس نے آپ کو دلوں کا بادشاہ بنا دیا تھا۔

دوسری چیز یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید کسی ایسے قانون اور سزا سے خالی ہے جس میں کسی گستاخ رسول کی سزا کا کوئی ضابطہ بیان کیا گیا ہو۔ یہی معاملہ احادیث کا ہے۔ قتل، چوری، زنا وغیرہ کی طرح جن کے بارے میں قرآن کے ساتھ ذخیرہ حدیث بھی تفصیلات سے بھرا ہوا ہے گستاخی رسول کا کوئی قانون اور اس کی کسی سزا کے ذکر سے قرآن اور حدیث دونوں خالی ہیں۔

اب لے دے کے کچھ واقعات ہیں جو پیش کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ میں جمع کر دیے ہیں۔ اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کے بیان کیے جانے والے واقعات کی ایک بڑی تعداد غیر ثابت شدہ ہے۔ مثلاً بہت مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ ماننے والے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔ مگر ابن کثیر نے یہ واقعہ نقل کرکے بتا دیا ہے کہ یہ ثابت شدہ نہیں ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن پر اپنے بعض پچھلے مضامین میں اس طالب علم نے بھی اور بعض دیگر اہل علم نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ غیر مصدقہ ہیں۔

اب رہے ثابت شدہ واقعات جیسے کعب بن اشرف اور ابو رافع وغیرہ تو ان کا معاملہ یہ ہے کہ ان لوگوں پر جو سزا نافذ کی گئی وہ اللہ کے رسول کا انکار کرنے اور اس کے لائے ہوئے دین کے خلاف عناد کا عملی اظہار کرنے کی سزا تھی۔ اس طرح کے معاندین اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف شب و روز سازشیں کرتے، کفار مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر اکساتے، مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے اور اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے تھے۔ اس سارے عمل میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اہل خانہ اور عام مسلمانوں کو ایذا بھی دیتے تھے۔ ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ یہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی دعوت کو مٹانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک طرف یہ لوگ کفار کے ساتھ مل کر اسلام کو مٹانے کی سازشیں کر رہے تھے اور دوسری طرف مدینہ میں رہ کر الزام و بہتان لگانے، جھوٹا پروپیگنڈا کرنے، مسلم خواتین کوایذا دینے اور بیہودہ گوئی کا راستہ اختیار کرچکے تھے۔ قرآن مجید کی سورہ احزاب میں ان کے اسی معاندانہ رویے کو موضوع بنا کر یہ بتا دیا گیا تھا کہ یہ باز نہ آئے تو آخرکار اپنے عناد کی سزا پاکر جلاوطن کردیے جائیں گے یا ماردیے جائیں گے۔ یہ رسولوں کی اقوام کے بارے میں اللہ کی ایک غیر متبدل سنت ہے کہ رسولوں کے ایسے معاندین کو زندہ نہیں چھوڑا جاتا،(الاحزاب62:33)۔

چنانچہ یہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف دشمنی میں ہر حد پامال کرنے کی وہ سزا تھی جو اللہ کے حکم سے دی گئی اور اس قانون رسالت کے مطابق دی گئی جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ رسول کے خلاف اٹھنے والے لوگوں کو اتمام حجت کے بعد یا تو فطرت کی طاقتوں کے ہاتھوں برباد کر دیا جاتا ہے یا پھر جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ہوا کہ صحابہ کرام کی تلواروں کے ہاتھوں ان پر اللہ کا عذاب آیا،(التوبہ14:9)۔

اس طرح کے لوگوں کی بیہودہ گوئی ان کے عناد کا ایک اظہار تو ضرور تھا، مگر یہ ان کے قتل کی اصل وجہ نہ تھی۔ حضور کی ہستی اس سے بہت بلند تھی کہ اپنی ذات کے لیے لوگوں سے انتقام لے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں۔ آپ نے ساری زندگی گالیاں کھا کر دعائیں دیں ہیں۔ بدترین قاتلوں اور دشمنوں کو معاف کیا ہے۔ایسی پاکیزہ، بلند اور اعلیٰ ہستی کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ اپنی ذات کے لیے انتقام لیا کرتی تھی، پیغمبر اسلام سے محبت کا اچھا اظہار نہیں ہے۔