صدقہ اور صبر ۔ فرح رضوان
ماں جی مجھے تو آج پتہ چلا شاہین خالہ ایک ایسے دور سے بھی گزری ہیں جب ان کی اور خالو جی کی سٹوری اینڈ ہونے لگی تھی، کمال ہے ناں یقین ہی نہیں آتا ان کی آپس کی محبت اور مزاج آشنائی کو دیکھ کر کہ ایک زمانے میں دونوں کے بیچ اتنے فاصلے تھے۔ مجھے تو رشک آتا ہے جب میں ان کی ایک دوسرے سے انسیت اور مہربانی دیکھتی ہوں ان کے پرسکون پُراعتماد بچوں کو دیکھتی ہوں۔
ماں جی نے آج اپنی پرانی سہیلیوں کزنز وغیرہ کو گھر پر مدعو کیا ہوا تھا، پرانے دوست ملیں اور یادوں کے دریچے نہ کھلیں یہ تو ممکن نہ تھا۔ تو جہاں یہ سب اپنی باتوں میں مگن تھیں وہیں ان کے ساتھ آئی ہوئی بہو بیٹیاں بھی اس بیٹھک سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ اور اب ان کی بہو صبا جو مہمانوں کے جانے کے بعد کچن سمیٹنے میں مصروف تھی، ساتھ ہی ساتھ آج کی دعوت پر تبصرہ بھی کر رہی تھی ’’ماں جی پتہ ہے یہ اچھا آئڈیا ہے کہ ہم سب کبھی کبھی یوں اکٹھا ہوا کریں، جیسے میں آپ سے دوسروں کے بارے میں پوچھ رہی ہوں باقی کی سب نئی لڑکیاں آپ بزرگ لڑکیوں کے تجربے سے فائدہ حاصل کریں گی، اور ویسے بھی آج آپ سب کتنا خوش تھے یہ انرجی کسی دوا یا غذا سے تو ملنے والی نہیں ناں۔‘‘
ماں جی نے مسکرا کر اس کی بات دہراتے ہوئے کہا ہاں واقعی آج ہم بزرگ لڑکیوں نے تو بہت مزہ کیا اور جب شاہین کی پرانی یادیں تازہ ہوئیں تو میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ، نئی بچیوں کو سمجھنا چاہیے کہ زندگی میں آج کیے گئے ایک آسان لیکن غلط اور ایک مشکل ترین لیکن درست فیصلے سے اگلے پندرہ بیس سال بعد کیا کیا خیر یا شر کے در کھل سکتے ہیں۔ اس اثناء میں ماں جی فریج (Fridge) میں تمام چیزیں رکھ چکیں تو پانی کا گلاس تھامے کرسی پر بیٹھ گئیں، صبا بھی برتن جگہ پر رکھ کر ان کے سامنے جا بیٹھی جس کی آنکھوں میں سوال تھا پھر کیا ہوا؟
ماں جی پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں اپنی بہن کی درست حکمت عملی کی وجہ سے آج میں بہت بڑے گناہ سے بچ گئی ہوں صبا، ورنہ اس کے بچوں میں نہ یہ خود اعتمادی ہوتی نہ والدین کی عزت و محبت۔ بیس سال پہلے شاہین کے میاں قمر بھائی پر ہم سب گھر والوں کو وہ غصہ تھا کہ حد نہیں۔ نہ وہ کسی تقریب میں آسکتی نہ کسی کے گھر ملنے جاسکتی، شک اتنا کرتے کہ حد نہیں اور خود کا کردار…. خیر چھوڑو، جب وہ تائب ہوچکے تو ہم کیوں کسی کی پردہ دری کریں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔۔۔۔ وہ شاہین کو نہ جانے کتنا ذلیل کرتے ہونگے ہمیں تو پتہ بھی نہیں لیکن اندازہ اس لیے ہے کہ وہ تو ہماری ہی بات بات پر کھنچائی کر ڈالتے، ان حالات میں بچوں کے ساتھ ہر وقت سر پر طلاق کی تلوار لٹکی رہتی جس سے تنگ آکر ہم سب بہن بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ اب قمر بھائی سے دو دو ہاتھ کر کے ہم خود ہی خلع لے لیں۔ جب بھائی اچھا کماتے ہیں دوسروں کو اتنا اتنا کچھ دیتے ہیں تو بہن کو رکھنا کیا مشکل تھا، میرے مزاج میں بھی اس زمانے میں تیزی بہت تھی اور بہن کی محبت میں میری چاہت تھی کہ وہ اس شخص کی قید سے فوری آزاد ہو جائے۔ تب ہماری اماں جی بھی حیات تھیں وہ بھی اسی بات کے حق میں تھیں۔ ایک شاہین ہی تھی جو ادھر میاں کو جھیل رہی تھی ادھر ہماری طرف سے شہ دینے پر بھی ٹس سے مس نہ ہوتی۔ اس کا ایک ہی جواب تھا مجھے اللہ کی مدد کافی ہے۔
پھر ایک روز جب میں اور اماں جی مل کر اسے سمجھانے گئے تو اس وقت اس نے بہت سختی سے مجھ سے کہا کہ ’’آپا میں نے بہت بڑا سودا کرلیا ہے اپنے رب سے، جو میں دیکھ رہی ہوں کل کو ان شاء اللہ تم بھی دیکھ لوگی۔ ٹھیک ہے کہ بڑے بھائی صاحب بہت کھلے ہاتھ سے خرچ کرسکتے ہیں، چھوٹے بھیا کل کو ان سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ آج میں ان کی زندگی میں چلی گئی تو وہ جی بھر کر مجھ پر میرے بچوں پر خرچ کریں گے لیکن باپ کی کمی پوری نہیں کرسکیں گے جو میں ہرگز نہیں چاہتی۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے اس فیصلے کو اختیار کرنے کے بدلے بس یہ ہو جائے کہ جب کبھی میرے بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس فکر سے آزاد کہ ان کو اپنی بہن کے بچوں کی فیس ادا کرنی ہے، گھر کے خرچ میں ہاتھ بٹانا ہے، بھانجی کی شادی کرنی ہے، وہ بھرپور خوشی سے گھومیں پھریں تو، اللہ تعالیٰ میرے حصے میں اس تمام رقم کے صدقے کا ثواب لکھ دے، وہ اللہ کی راہ میں کچھ بھی خرچ کریں اس میں میرا بھی حصہ لکھ دیں۔ صدقہ مشکلوں کو ٹال دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ میں اس طرح نیت کر کے وہ سب اجر پاسکتی ہوں جو میں خود تو اپنے مالی حالات کی وجہ سے خرچ کر نہیں سکتی لیکن اپنا گھر چھوڑ جانے کی صورت میں ان کو مجھ پر چاہتے نہ چاہتے کرنا ہی پڑتا اور جو صدقہ جہنم کی آگ کو بجھا سکتا ہے میری زندگی میں لگی آگ کو بھی ان شاء اللہ ضرور بجھا دے گا۔‘‘
اور دیکھ لو صبا اللہ تعالیٰ کیسے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہے، بمشکل دو ایک سال گزرے ہوں گے کہ میری شاہین کی کایا پلٹ ہوگئی، وہ ہنستی تھی مجھ پر کہ آپا اگر کسان کو یقین نہ ہو کہ وہ جو ہل چلا کر زمین پر اپنا خون پسینہ ایک کر رہا ہے کل کو رب تعالیٰ مردہ بیج سے کونپل نکالے گا اوپر سے برسات ہوگی کھیتی سر سبز ہوگی تو وہ کچھ نہ کرے، تب پتہ ہے وہ اکیلا نہیں ہم سب بھوکے مر جائیں۔