روزے کی بادشاہی ۔ ابویحییٰ
روزہ کیا ہے، اسے ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ اپنے اوپر بادشاہی کرنے کا نام ہے۔ بلاشبہ اپنے اوپر بادشاہی کرنے سے زیادہ بڑی نعمت اس دنیا میں کوئی نہیں۔
انسان اور جانور میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جانور جبلتوں میں جیتے ہیں۔ انھیں بھوک لگتی ہے تو وہ خوراک کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ پیاس لگتی ہے تو پانی کے تالاب کا رخ کرتے ہیں۔ یہی معاملہ دیگر جبلتوں کا ہے۔ ان کی جبلتیں ان پر حکمران ہوتی ہیں۔ ان کے لیے وہ لڑتے ہیں، مرتے ہیں اور دوسرے جانوروں کو مار ڈالتے ہیں۔
یہی معاملہ انسان کا ہے جس کو اس دنیا میں ایک حیوانی قالب دے کر بھیجا گیا ہے۔ اس حیوانی قالب کی بنا پر انسان بھی اپنی جبلتوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اللہ کی طرف سے انسانوں کو خیر و شر کا شعور اور مذہب کی رہنمائی ملی ہوتی ہے۔ یوں انسان اپنی جبلت سے لڑ کر اسے کچھ حدودو قیود میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے اکثر اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان حلال و حرام سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ دوسروں کا حق مارتا اور ان پر ظلم کرتا ہے۔ یوں انسان پر حیوان غالب آجاتا ہے۔
روزہ اسی حیوانیت کو نکیل ڈالنے کا نام ہے۔ اس کا ون پوائنٹ ایجنڈا یہی ہے کہ کھانا، پانی اور بیوی تینوں سے رک جاؤ۔ یہ تینوں کام کسی پہلو سے کوئی عبادت نہیں۔ مگر یہ کرنے سے انسان کو خود پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا علم ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ اس صلاحیت کا علم ہو جائے تو انسان پھر اس صلاحیت کو ہر جگہ استعمال کرسکتا ہے۔ اپنے کھانے کو چھوڑنے والا دوسرے کا مال کیسے کھا سکتا ہے۔ اپنے پانی کو چھوڑنے والا دوسرے کی کسی چیز کی طرف کیسے بری نظر ڈال سکتا ہے۔ اپنی بیوی سے دور رہنے والا پرائی عورت کی طرف کیسے دیکھ سکتا ہے؟
اپنے نفس پر کنٹرول کی یہ صلاحیت ہی وہ بادشاہی ہے جس کا نتیجہ جنت کی ابدی بادشاہی ہے۔ بلاشبہ اس سے بڑی کوئی نعمت خالق کائنات نے تخلیق نہیں کی ہے۔