روح کی بھوک ۔ فرح رضوان
کیا بات ہے ہماری پوری قوم ہی بڑی دیالو واقع ہوئی ہے، جگہ جگہ لوگ انفرادی یا اجتماعی طور پر مفلس کی پکار پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ مجبور کی مدد کو لپک اٹھتے ہیں، مظلوم پر ظلم پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ بھوکا انسان تو کیا جانور بھی ہو تو اپنے مونہہ کا نوالہ اسے دے ڈالتے ہیں۔ ۔ ۔ اس قوم کو سب کا درد دکھائی دیتا ہے سب کی آہ و فغاں سنائی دیتی ہے۔ ۔ ۔ سوائے اپنی روح کے۔
روح کو بھی تو خوراک درکار ہے۔ وہ بھوکی ہے اپنے گھر میں رہتے ہوئے بے گھر، بے ردا، بے آسرا، بے سر و سامان، بے وقعت، بے مراد، بے مہر پڑی سسک رہی ہے۔ اللہ کے بندو کوئی اس کی بھی تو سن لو کہ کیا کیا مظالم وہ دن رات سہہ رہی ہے، تم عافیہ صدیقی پر مظالم پر تڑپ کر حکومتوں کو، سربراہان کو گالیاں دیتے ہو، کہ قوم کی عزت کو بیچ ڈالا، جبکہ خود اپنی ہی روح کی عصمت کا صبح شام میں کئی بار کیسا کیسا سودا کرتے ہو۔
ایدھی صاحب کی عظمت کے اعتراف میں یہ کہنا بہت آسان ہے کہ وہ گندے نالوں میں پڑی بوسیدہ لاشوں کو، جن سے ان کے گھر والے بھی گھن محسوس کرتے تھے ان کو بھی غسل دے کر ان کی آخری آرام گاہ کے سپرد کرتے۔ ۔ ۔ ناجائز اور بے یار و مددگار بچوں کو کچرے سے اٹھا کر پالتے پڑھاتے کارآمد انسان بناتے۔ ۔ ۔ لیکن ہم خود کیا اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ گندی غلیظ صحبتوں کے نالے میں پڑی بساند زدہ اپنی ہی روح کو نکال لیں؟ اسے توبہ کا غسل دیں، اچھی صحبت کی مہک دیں، اس لاغر لاچار ادھ مری روح کو کوئی عبادت کی آکسیجن، ذکر کا ٹانک، خدا خوفی کی ویکسین فراہم کریں؟ ہم وہی ہیں ناں! جو انجان غریب نادار کو علاج کے لئے بنا رقم گنے جیب میں جو کچھ موجود ہو دے ڈالتے ہیں تو اللہ کے بندو اللہ کے نام پر اس مسکین غریب بیمار بھوکی لاچار روح کو بھی کچھ بھیک دے دو، کوئی چھت کوئی چھپر سائبان کا بندوبست کر دو۔ اللہ سب کا بھلا کرے۔