رمضان اور ہمارے اخلاقی معاملات ۔ ابویحییٰ
رمضان مبارک کی مقدس ساعتیں ہم پر سایہ فگن ہو رہی ہیں۔ قمری اور شمسی مہینوں کے فرق کی بنا پر اب کئی برس تک رمضان کا مہینہ موسم گرما میں آیا کرے گا۔ تاہم ایک طویل عرصے سے کی جانے والی مذہبی سرگرمیوں کے نتیجے میں مسلمان عبادات کے بارے میں اب کافی حساس ہوگئے ہیں۔ لہٰذا امید ہے کہ انشاء اللہ سخت ترین گرمی کے موسم میں بھی مسلمانوں کی غالب اکثریت موسم کی شدت اور روزے کی طوالت کے باوجود اس عظیم عبادت کو پوری ہمت اور یکسوئی کے ساتھ ادا کرے گی۔ تاہم اس کے ساتھ سابقہ تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ روزے کے ساتھ وہ ساری اخلاقی خرابیاں جوں کی توں جاری و ساری رہیں گی جنھوں نے ہمارے معاشرے کو ظلم و فساد سے بھر دیا ہے۔
ہمارے ہاں کے ایک مذہبی انسان کا تصور
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی انسان کا جو تصور ہے وہ کچھ ظاہری چیزوں اور عبادات کے ظاہری ڈھانچے تک محدود ہے۔ عبادات بلاشبہ دین کا اہم ترین اور بنیادی دینی مطالبہ ہے۔ لیکن جس طرح قلبی ایمان کے بغیر کلمہ پڑھ لینا ایک بے فائدہ عمل ہے، اسی طرح اپنی اصل روح کے بغیر یہ عبادات حقیقی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ یہ بات کوئی ہم نہیں کہہ رہے دین دینے والی ہستی نے اس حقیقت کو مختلف پہلوؤں سے کھولا ہے۔ خود روزہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے (روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘، (صحیح بخاری، رقم 1804)
یہ روایت صاف بیان کرتی ہے کہ روزہ اطاعت کی جس اسپرٹ اور تقویٰ کے جس مقصد کے لیے رکھا جاتا ہے وہ مقصد اگر پورا نہیں کیا جا رہا تو پھر صرف بھوکا پیاسا رہنا وہ عمل نہیں جو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے مقصود ہو۔
قرآن کا مطلوب انسان
مزید یہ کہ عبادات کے ساتھ دین کے بہت سے اہم اخلاقی مطالبات ہیں جن سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے چند اہم مقامات کو میں نے اپنی کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان‘‘ میں جمع کر دیا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دین آخرت کی نجات اور دنیا میں اعلیٰ شخصیت کے پیدا ہونے کی ضمانت انہی مطالبات کی بنا پر دیتا ہے۔ ان کو نظر انداز کر کے کوئی شخص کبھی بھی حقیقی دیندار نہیں بن سکتا۔ نہ ان کے بغیر آخرت کی فلاح ممکن ہے نہ دنیا ہی میں اعلیٰ انسان پیدا ہوسکتے ہیں جو کسی معاشرے کو عدل و انصاف اور نتیجے کے طور پر اللہ کی رحمتوں سے بھر دیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں یہ سانحہ ہے کہ ہمارے دینی فکر میں یہ اخلاقی مطالبات غیر اہم ہیں۔ تاہم اگر دین کے اصل ماخذ کو پڑھا جائے تو اس معاملے میں کسی قسم کی غلط فہمی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
خود روزے کی عبادت کی تفصیل جس طرح قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے اس سے یہ حقیقت صاف واضح ہوجاتی ہے یہ اخلاقی مطالبات عبادات جتنے ہی اہم ہیں بلکہ عبادات اور خاص کر روزے کی عبادت کے بیان کے ضمن میں اس حقیقت کو بالکل کھول دیا گیا ہے کہ اس عظیم عبادت کا مقصد ہی لوگوں کو ان اخلاقی مطالبات کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا ہے۔
رمضان اور اخلاقی رویے
روزہ کا حکم قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں دیا گیا ہے۔ یہ کئی پہلوؤں سے قرآن مجید کی اہم ترین سورت ہے۔ اس سورت کے آغاز میں بنی اسرائیل کو ان کے جرائم اور خاص کر بے خوفی (عدم تقویٰ) کی نفسیات کی بنا پر امامت عالم کے منصب سے فارغ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ایک نئی امت یعنی امت مسلمہ کو اس منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ جس کے بعد نئی امت کو ایمان و اخلاق کی بہترین حالت میں لانے کے لیے ہدایات اور خاص کر اپنی سب سے بڑی نعمت یعنی شریعت عطا کی گئی ہے۔
روزوں کا حکم شریعت کے قوانین کے اسی سلسلہ بیان میں رکھا گیا ہے۔ مگر وہ جس طرح اور جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اس کا سمجھنا بہت اہم ہے۔ روزہ سے قبل اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے قصاص کا حکم دیا (آیت 177-179)۔ یعنی قاتل کو اس جرم میں سزائے موت دی جائے۔ اس کی طاقت اور سماجی حیثیت سے قطع نظر قاتل جو بھی ہو اسے بہرحال سزا ضرور ملنی چاہیے۔ پھر جان کے بعد مال کی حرمت کے حوالے سے احکام شروع ہوتے ہیں (آیت 181-182)۔ عرب میں طاقتور وارث کمزوروں کو وراثت کے مال سے محروم کر دیتے تھے۔ چنانچہ اس ظلم کو روکنے کے لیے ایک ابتدائی حکم یہ دیا گیا کہ مرنے والا اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں جب موت قریب ہو تو یہ معاملہ طے کر کے جائے۔
دونوں احکام کے ضمن میں تقویٰ کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جان کا معاملہ ہو یا مال کا، انسان ایک دفعہ بے خوفی کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے دوسروں پر ظلم و تعدی سے نہیں روک سکتی۔ اللہ کا طریقہ تو یہ ہے نہیں کہ وہ دنیا میں ہاتھ پکڑ کر لوگوں کو ظلم و زیادتی سے روکے۔ رہے انسان تو ان میں سے جو طاقتور ہوگا وہ اپنی من مانی کر لے گا۔ جہاں موقع ملے گا وہ لوگوں کی جان اور مال پر ظلم ڈھائے گا۔ ایسے میں صرف عدل پر مبنی احکام اور تقوی کی نفسیات ہے جو معاشرے کو اس ظلم سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو انتہائی منصفانہ احکام دیے گئے اور دوسرے طرف تقویٰ کی اہمیت کو بیان کیا گیا۔
مگر تقویٰ کی اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ یہ پیدا کیسے ہوگا۔ چنانچہ اسی مقصد کے لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ مال سے متعلق احکام ابھی ختم نہیں ہوئے کہ تقویٰ کی اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لیے بیچ ہی میں آیات 183 تا 187 میں روزہ کی وہ عظیم عبادت فرض کی گئی جس کا مقصد ہی تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا گیا۔
’’ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔ (البقرہ183:2)
یہ روزہ سے متعلق پہلی آیت ہے اور اس سلسلہ کلام کی آخری آیت کے الفاظ یہ ہیں۔
اللہ اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ (البقرہ187:2)
یعنی بات تقوی سے شروع ہوئی اور تقوی پر ہی ختم ہوئی۔ یہی تقوی یا خدا خوفی جو ہر سرد و گرم میں انسان کو اطاعت پر آمادہ کرتی ہے روزے کا اصل مقصود ہے۔ پھر روزہ کے بعد بغیر کسی وقفے کے وہی حرمت مال کا موضوع پھر اٹھا لیا جس پر پہلے گفتگو ہو رہی تھی۔ ارشاد فرمایا:
اور اپنے مال باہمی طور پر باطل طریقے سے مت کھاؤ۔(البقرہ188:2)
اس طریقے کی حکمت
احکام کی یہ ترتیب اس بات کا صاف اعلان ہے کہ معاشرے میں اگر ظلم ہو رہا ہے، قاتل آزاد ہیں بے لگام ہیں، قصاص نہیں لیا جا رہا، انسانی جان کی حرمت ہر روز پامال ہو رہی ہے، معصوموں کو قتل کیا جا رہا ہے اور مجرم دندناتے پھر رہے ہیں، دہشت گردی اور خوف کی فضا عام ہے، مجرموں کو تحفظ دیا جا رہا ہے، طاقت ور طاقت کے زور پر اور اہل علم قلم اور زبان کی طاقت پر قاتلوں کا تحفظ کر رہے ہیں، عدالتوں میں عدل نہیں ہو رہا بلکہ وہیں پر بے گناہوں کو سنگسار کیا جا رہا ہے۔
لوگوں کا مال اگر باطل طریقے پر کھایا جا رہا ہے، ان کی زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں، بھتہ اور تاوان وصول کیا جا رہا ہے، ملاوٹ عام ہے، ظالمانہ منافع خوری، رشوت، لوٹ مار، کرپشن کا کلچر اگر عام ہے، تو اطمینان رکھیے اس معاشرے کے لوگ کتنے ہی روزے رکھ لیں۔ اللہ کے ہاں کوئی روزہ قبول نہیں ہو رہا۔ کچھ کا اس لیے کہ وہ روزہ رکھ کر اس ظلم میں حصہ دار ہیں اور کچھ کا اس لیے کہ وہ اس ظلم کے خلاف خاموش ہیں۔ روزہ صرف اس محدود اقلیت کا قبول ہوگا جن کے دل میں صرف خدا کا خوف ہوگا اور ہر دوسرے خوف سے بلند ہوکر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ وہ دہشت گردی کو دہشت گردی کہیں گے۔ وہ ظلم کو ظلم کہیں گے۔ قتل کو قتل کہیں گے۔ بھتہ و تاوان کو بھتہ کہیں گے۔ کرپش کو کرپشن کہیں گے۔ زمینوں پر قبضہ کو حرام کہیں گے۔ ظالمانہ منافع خوری، رشوت، کرپشن کے خلاف سینہ سپر ہو کر کھڑے رہیں گے۔
باقی جو لوگ یہ سب کام کرتے ہیں اور عین رمضان میں اس ظلم و ستم کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ اطمینان رکھیں۔ روزہ کا نتیجہ اس دنیا میں تقوی ہے۔ اگر وہ نہیں نکل رہا تو آخرت والا نتیجہ بھی نہیں نکلے گا۔ وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ ان کا انجام جہنم کی آگ ہے۔ کیونکہ انھوں نے میرے آقا کے فرمان کے مطابق روزہ تو رکھ لیا، مگر روزہ رکھ کر جھوٹ، ظلم، نا انصافی کو نہیں چھوڑا۔ وہ دنیا میں نافرمانی سے نہیں بچے تو آخرت میں جہنم سے بھی نہیں بچ سکتے۔ وہ اپنے آپ کو کچھ بھی کہتے رہیں اور کچھ بھی سمجھتے رہیں۔ یہی ان کا انجام ہے۔