Take a fresh look at your lifestyle.

رمضان کا مہینہ۔۔۔ حاصل کیا کرنا ہے؟ ۔ ابویحییٰ

رمضان قمری تقویم کا نواں مہینہ ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیں، انسانوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب گمراہی کے صحرا میں بھٹکتی انسانیت کی صدائے العطش، آسمان نے سنی اور بارانِ ہدایت کو عرب کے بیابانوں پر برسنے کا حکم دیا۔ پھر اس سرزمین سے ہدایت کے وہ چشمے ابلے جن سے پوری انسانیت سیراب ہوگئی۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ظلم کی چکی میں پستی اور سسکتی ہوئی انسانیت کی صدائے العدل کا جواب کائنات کے بادشاہ نے عدل سے نہیں، احسان سے دیا۔ اس طرح کہ قیامت تک کے لیے قرآن کو وہ فرقان بنا کر زمین پر اتارا کہ جس کی ہدایت نے دھرتی کو امن و سکون سے بھر دیا۔

ماہِ رمضان ایک دفعہ پھر اہلِ زمین کے سروں پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔ اس حال میں کہ آج ہر طرف ظلم اور گمراہی کا دور دورہ ہے۔ انسانیت کے مصائب کا علاج آج بھی یہی ہے کہ قرآن کی ہدایت لوگوں کے سامنے رکھی جائے اور لوگ اسے قبول کرلیں۔ 

صاحب توحید خدا نے قرآن اور رمضان کا تعلق اس طرح بیان کیا ہے:
’’رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لوگوں کے لیے رہنما بنا کر اور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے سراسر ہدایت بھی ہیں اور حق و باطل کا فیصلہ بھی۔‘‘ (البقرہ ۲،١۸۵)

قرآن کی ہدایت کیا ہے؟ اگر اسے ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ انسانوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنے آیا ہے جو انھیں ان کی موت کے بعد درپیش ہوگا۔ یعنی ان کے مالک کے حضور پیشی کا مسئلہ۔ اپنے اعمال کی جوابدہی کا مسئلہ۔ جنت سے محرومی اور جہنم کی آگ کا مسئلہ۔ ابدی ذلت یا دائمی عیش کا مسئلہ۔ مگر بڑی عجیب بات ہے کہ یہ ہدایت جس کا تعلق دنیا سے نہیں آخرت سے ہے، زندگی سے نہیں موت سے ہے، انسانوں کی زندگی اور ان کی دنیا کے سارے مسائل کا واحد ممکنہ حل ہے۔

اس دنیا میں انسان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ کہ وہ ایک فانی دنیا میں ابدی قیام کے اسباب ڈھونڈتا ہے۔ یہ کہ وہ ایک سرائے میں رہ کر کسی دائمی مستقر کے آرام ڈھونڈتا ہے۔ اقبال نے جو بات فرنگ کے لیے کہی تھی وہ ہر فرزندِ زمین کے بارے میں درست ہے:
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام 
وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام 

اس عیش اور آرام کی تلاش میں انسان خدا و آخرت کو بھول جاتا ہے۔ وہ فانی دنیا کو اپنا مقصود بناتا اور ہر اخلاقی قدر کو فراموش کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان نوعِ انسانی کا شکاری بن جاتا ہے۔ پھر ظلم اور گمراہی کی وہ ساری اقسام وجود میں آتی ہیں جن سے بحر و بر میں فساد پھیل جاتا ہے۔ انسانوں کی جان، مال، عزت و آبرو انھی جیسے انسانوں کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے۔ انسان کا اخلاقی وجود اس کی حیوانی خواہشات کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے۔

اس صورتحال کا واحد حل وہ قرآنی ہدایت ہے جو پوری قوت کے ساتھ قیامت کے ہولناک زلزلے سے انسانوں کو ڈراتی ہے۔ وہ اُس روز سے انسانوں کو خبردار کرتی ہے جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی اور حسن و زینت کے تمام آثار مٹا کر زمین ایک چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ وہ دن کہ جب لوگ اپنے سوا ہر دوسری چیز کو بھول جائیں گے۔

’’اے لوگوں! اپنے رب سے ڈرو۔ بے شک قیامت کی ہلچل بڑی ہی ہولناک چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھو گے، اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہے ہی بڑی ہولناک چیز۔‘‘، (الحج ۲۲،١)

جو لوگ قرآن کی اس پکار پر توجہ دیتے ہیں اور آخرت کی کامیابی کو اپنی منزل بنا لیتے ہیں قرآن ان کے سامنے ایک واضح نصب العین رکھتا ہے:
’’بے شک فلاح پا گیا وہ شخص جس نے پاکیزگی اختیار کی۔‘‘، (الاعلیٰ ۸۷،١۴)

’’اور نفس گواہی دیتا ہے، اور جیسا اسے سنوارا۔ پھر اس کی نیکی اور بدی اسے سجھا دی کہ فلاح پا گیا وہ، جس نے اس کو پاک کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کیا۔‘‘، (الشمس ۹١،٦)

یہ آیات کھول کر بتاتی ہیں کہ آخرت کی کامیابی کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنا تزکیہ کرتا ہے یا نہیں۔ یہ تزکیہ رہبانیت جیسی کوئی چیز نہیں بلکہ ایمان و اخلاق کی آلائشوں سے خود کو بچانے کا عمل ہے۔ ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نفسِ انسانی میں خیر و شر کا پورا شعور شروع دن ہی سے موجود ہے اور اسی علم کی بنیاد پر انسان یہ جانتا ہے کہ اسے اپنے آپ کو کن آلائشوں سے بچانا اور کن چیزوں کو اختیار کرنا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان اخلاق سے عاری نہیں بلکہ فطرت کا عطا کردہ پاکیزہ لباس پہن کر آتا ہے۔ اس لباسِ فطرت کے دامن میں شرک کا کوئی داغ اور الحاد کا کوئی دھبہ تک نہیں ہوتا۔ اس پر ظلم کا میل اور ہوس کی گندگی نہیں لگی ہوتی۔ مگر دنیا میں موجود شیطانی ترغیبات، حیوانی خواہشات اور ماحول کے اثرات انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ فطرت میں موجود خیر و شر کے تصورات کو بھول کر خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اس راہ پر آگے بڑھتا ہے، یہ گرد آلود راستہ دامنِ دل اور لباسِ فطرت کو غلیظ سے غلیظ تر کرتا چلا جاتا ہے۔ غفلت کی دھول اور سرکشی کی کالک فطرت کے حسن کو نری غلاظت میں بدل دیتی ہے۔ انسان پہلے پہل خیر و شر کی تمیز کھوتا ہے اور پھر معاشرے میں ہر شر خیر اور ہر خیر شر بن جاتا ہے۔ فطرت میں پیدا ہو جانے والی اس کجی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں پیغمبر بھیجے، کتابیں اتاریں، بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا۔ قرآن نہ صرف تزکیے کے نصب العین کو انسانوں کے سامنے رکھتا ہے بلکہ ایمان و اخلاق اور فکر و عمل کی آلائشوں کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔

قرآن کی اس ہدایت کی روشنی میں ہر بندۂ مومن کی زندگی کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو فطرت میں موجود اور قرآن میں بیان کردہ ان آلائشوں سے بچائے۔ انسان جیسے ہی یہ عمل شروع کرتا ہے، اس کا براہِ راست نتیجہ اس کے اخلاقی وجود پر مرتب ہوتا ہے۔ شرک و الحاد کی گندگی کو دھونے کے بعد انسان اپنے جیسے انسانوں کو خدا بناتا ہے نہ خواہشِ نفس کو اپنا معبود ٹھہراتا ہے۔ آخرت کی کامیابی کا نصب العین تقاضا کرتا ہے کہ انسان کی جان، مال، وقت اور صلاحیت کا ایک حصہ لازماً ذاتی مفادات سے بلند ہوکر صرف کیا جائے۔ ایسے پاکیزہ لوگوں کے معاشرے میں نہ طاقتور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں اور نہ اہلِ ثروت غربا سے بے نیاز اپنی خرمستیوں میں مگن رہتے ہیں۔ انسان اپنے ابنائے نوع کے ساتھ اس یقین کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں کہ کل روزِ قیامت ہر معاملہ ربُ العالمین کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ وہ عدالت جہاں فیصلے مادی نہیں بلکہ اخلاقی قانون کی بنیاد پر ہوں گے۔ چنانچہ دھوکہ، فریب، بددیانتی، خیانت، جھوٹ اور معاشرے میں پائی جانے والی ان جیسی تمام اخلاقی گندگیاں اوصافِ حمیدہ کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہیں۔ یوں دھرتی نورِ ایمان سے چمک اٹھتی ہے۔

فلاحِ آخرت اور اس کے لیے پاکیزگی کے حصول پر انسان کو متحرک کرنے والی سب سے بڑی چیز خدا کے حضور پیشی کا خوف، اس کی پکڑ کا اندیشہ، اس کے عذاب کا ڈر اور اس کا تقویٰ ہے۔ یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو روزوں کی فرضیت کا اصل مقصود ہے:
’’ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔‘‘، (البقرہ ۲،١۸۳)

یہ تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کہ رمضان میں قرآن کی بار بار تلاوت انسان کو جہنم کے عذاب اور خدا کی پکڑ سے بے خوف نہیں رہنے دیتی۔ دوسری طرف روزے میں کھانے پینے سے رکنا انسان کو نہ صرف پرہیزگاری کے آداب سکھاتا ہے بلکہ اسے اُس مضبوط قوت ارادی سے آگاہ کرتا ہے جسے استعمال کرکے وہ ہر اخلاقی ناپاکی سے بچ سکتا ہے۔

سو اب جب کہ رمضان کی آمد آمد ہے، آئیے۔ ۔ ۔ رمضان کے استقبال کا عزم کرتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں قرآن صرف ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے، آئیے۔ ۔ ۔ قرآن کو ہدایت کے لیے پڑھنے کا عزم کرتے ہیں۔ یہ عزم کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں گے۔ یہ جاننے کے لیے پڑھیں گے کہ قرآن جس دن کی مصیبت سے خبردار کرنے آیا ہے وہ کون سا دن ہے۔ فکر و عمل اور اخلاق و عقیدہ کی اُن گندگیوں کو جاننے کے لیے پڑھیں گے جن سے بچے بغیر جہنم کی آگ سے نہیں بچا جاسکتا۔

رمضان ثواب کا مہینہ ہے۔ آئیے۔ ۔ ۔ اسے ہدایت کا مہینہ بنا دیں۔ یہ بھوک پیاس سے رکنے کا مہینہ ہے۔ آئیے۔ ۔ ۔ اسے تقویٰ حاصل کرنے کا مہینہ بنا دیں۔ یہ قمری تقویم کا نواں مہینہ ہے۔ آئیے۔ ۔ ۔ اسے ایمانی تقویم کا پہلا مہینہ بنا دیں۔