Take a fresh look at your lifestyle.

سوال و جواب ۔ رمضان ۔ ابو یحییٰ

[رمضان کے حوالے سے یہ سوالات پچھلے برس خواتین کے ایک آن لائن تعلیمی گروپ میں ابویحییٰ صاحب سے پوچھے گئے تھے جسے آڈیو ریکارڈنگ سے صفحہ قرطاس پرمحترمہ کومل ناز، محترمہ کنول بلال اور محترمہ بنت فاطمہ کے تعاون سے منتقل کر کے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ادارہ]

رمضان کیسے گزاریں
سوال: ہم رمضان کیسے گزاریں؟ ہادیہ
جواب: رمضان گزارنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ روٹین میں جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ ادا کریں۔ مگر ساتھ میں کچھ چیزوں کا اضافہ کرلیں۔

ایک تلاوت قرآن مع ترجمہ۔ ترجمہ پڑھنے یا سمجھنے میں مشکل ہو تو قرآن پڑھ کر میں نے جو ترجمہ و خلاصہ کیا ہے وہ سن لیں۔ اس سے قرآن کا اصل میسج انشاء اللہ واضح رہے گا۔ یہ آپ میری ویب سائٹ inzaar.org سے ڈاؤن لوڈ کرسکتی ہیں۔

دوسرا کچھ اضافی نوافل پڑھیے۔ خاص کر تہجد کا اگر ہوسکے تو ضرور اہتمام کیجیے۔

میری کتاب ’’رحمتوں کے سائے میں‘‘ کا مطالعہ فلسفہ رمضان جاننے کے لیے مددگار ہوگا۔ یہ میری سائٹ inzaar.org سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔ کتاب کی شکل میں چاہیے تو ادارے کے دفتر فون کر کے منگوا لیں۔ اس میں روزے کی اسپرٹ کا بیان بھی ہے اور اپنے احتساب کا ایک بہت اچھا طریقہ بھی ہے۔ روزے کی اسپرٹ اگر حاصل ہے اور انسان اپنا احتساب کر رہا ہے تو یہی رمضان کا حاصل ہے۔

ساتھ میں چلتے پھرتے اللہ کا ذکر، شکر اور تفکر ضرور کرتی رہیں۔ توبہ استغفار، جنت کی دعا اور جہنم سے پناہ بھی مانگتی رہیں۔ یہ سب مسنون طریقے ہیں اور رمضان میں کرنے کے خصوصی کام ہیں۔

گھر کے کام اور اعتکاف
سوال: مصروفیات کی موجودگی میں خواتین کے اعتکاف کرنے سے متعلق رہنمائی کر دیجیے۔

جواب: السلام علیکم۔ جو خواتین گھر کا کام کرتی ہیں وہ اعتکاف سے بڑی عبادت سرانجام دیتی ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی نہیں بلکہ بہت بڑی خدمت ہے۔ اس کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات موجود ہیں۔ لہٰذا اگر مصروفیات کے ہوتے ہوئے اعتکاف کرنا ممکن نہیں ہے تو آپ گھر کے کام اور ذمہ داریاں پوری کیجیے۔ اور اطمینان رکھیے کہ یہ بھی ایک عبادت ہی ہے۔

خواتین کے قضا روزے
سوال: کیا خواتین کے لیے کسی شرعی عذر کی بنا پر روزہ چھوٹ جائے تو فرض عبادت ہونے کی بنا پر اس کی قضا ادا کرنا لازم ہے؟

جواب: السلام علیکم۔ خواتین کے جو روزے چھوٹ جاتے ہیں یا اس کے علاوہ بھی کسی وجہ جیسے بیماری یا سفر کی وجہ سے کوئی شخص روزہ چھوڑتا ہے تو ان سب روزوں کی قضا عام دنوں میں اپنی سہولت سے پوری کرسکتے ہیں اور یہ قضا لازمی ادا کرنی چاہیے۔

خواتین کی تراویح
سوال: خواتین کے لیے باجماعت تراویح پڑھنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ شاہدہ بانو

جواب: السلام علیکم۔ خواتین کے لیے تراویح کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ یہ اصلاً تہجد کی نماز ہے جسے گھر میں پورے سکون و اطمینان سے تنہائی میں ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر تراویح باجماعت پڑھنی ہے تو پھر عام نمازوں کی طرح تمام آداب کا خیال رکھتے ہوئے امام کی پیروی کرنی ہوگی۔ صفیں خالی نہیں چھوڑنی ہوں گی، ستر کو ڈھانپ کر پورے ادب آداب کے ساتھ نماز کی ساری حدود کی پابندی کرنی ہوگی۔

خواتین اگر اپنی جماعت خود کر رہی ہیں تو بعض فقہا اسے مکروہ اور بعض ممنوع قرار دیتے ہیں۔ کچھ دوسرے فقہا اسے بلاکراہت جائز سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بھی خواتین کی اپنی جماعت ہوسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ ازواج مطہرات جماعت کی امامت کیا کرتی تھیں اور صف کے درمیان میں کھڑے ہوکر باقی خواتین کو نماز پڑھایا کرتی تھیں۔

نماز کی خرابی
سوال: خواتین کیلئے باجماعت نماز/تراویح پڑھنے کے دوران اگر کوئی اصول و آداب نہیں بجا لاتا تو کیا دوسرے کی نماز ہوجائے گی جو پورے التزام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نماز ادا کرے؟

جواب: السلام علیکم۔ جماعت ہوتی ہی اس وقت ہے جب آپ امام کے پیچھے اس کی پیروی کر رہے ہوں۔ اگر امام کچھ اور کر رہا ہے آپ کچھ اور کر رہے ہیں تو پھر نماز کیسے ہوسکتی ہے؟ باجماعت نماز میں امام کی اقتدا یا پیروی شرط ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ تاہم اگر کوئی اور اس حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہو اور آپ ٹھیک طریقے سے نماز ادا کر رہی ہیں تو آپ کی نماز ادا ہوجائے گی۔ دوسروں کی نماز کی خرابی سے آپ کی نماز خراب نہیں ہوگی۔

روزے میں کان میں پانی جانا
سوال: کیا کان میں پانی جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب: السلام علیکم۔ کھانا کھانے اور پینے سے روزہ ٹوٹتا ہے۔ نہاتے ہوئے کان میں غلطی سے پانی چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ باقی اگر بھولے سے آپ نے کچھ لے لیا ہے تو وہ چاہے روزہ رکھنے کے دو منٹ بعد لیا ہو یا عین دن کے وقت آپ بھولے سے کچھ کھا پی لیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ روزہ جان بوجھ کر کھانے پینے سے ٹوٹتا ہے۔

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال
سوال: روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا مسواک کا استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ شفق ناز

جواب: السلام علیکم۔ جی ہاں، روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا مسواک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ صرف جان بوجھ کر کھانے پینے یا کوئی چیز حلق سے نیچے اتارنے سے روزہ ٹوٹتا ہے۔ ویسے بہتر یہی ہے کہ روزہ سے پہلے ٹوتھ پیسٹ وغیرہ کرلیا جائے لیکن اگر روزہ کے دوران بھی کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

رمضان میں زکوٰۃ
سوال: سالانہ زکوٰۃ ماہِ رمضان میں ہی ادا کرنا کیوں ضروری ہے؟ ماہانہ زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ کیا ہے؟ اور سونا بطور تحفہ یا عیدی کی رقم پر زکوٰۃ کتنی لاگو ہوتی ہے؟

جواب: زکوٰۃ کی ایک قسم وہ ہے جو کہ آپ کی بچت پہ فرض ہوتی ہے۔ اس میں اصول یہ ہے کہ سال گزرنے کے بعد جو رقم آپ کے پاس بچے گی اس کا اڑھائی فی صد بطور زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا۔ آپ چاہیں تو سال میں کوئی بھی دن مقرر کرسکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ رمضان کا دن مقرر کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں کسی کی مدد کرنے پر زیادہ اجر کے مستحق ہوں گے۔ فرض کرلیں رمضان کی اول تاریخ کو کسی نے منتخب کرلیا ہے تو اب وہ اس روز دیکھے گا کہ اس کے اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں؟ زیور کتنا ہے؟ کیشں کی صورت میں کتنی رقم ہے؟ وغیرہ۔ اس پہ اڑھائی فیصد زکوٰۃ ادا کر دی جاتی ہے۔ بچت پہ لاگو ہونے والی اس زکوٰۃ کی رمضان میں ادائیگی کرنا کوئی دینی مطالبہ نہیں ہے۔ یہ زکوٰۃ بعد میں بھی مستحقین کو دی جاسکتی ہے۔ البتہ حساب اسی تاریخ سے کرلینا چاہیے جو مقرر کی ہے۔

باقی زکوٰۃ کی جو دوسری قسم ہے وہ پیداوار پہ زکوٰۃ ہے۔ پیداوار جب بھی ہوگی چاہے چھ مہینے بعد کسی کی فصل کی پیداوار ہو، تین مہینے بعد کوئی انڈسٹریل پروڈکشن ہو، ہر روز یا ہر مہینے پیداوار حاصل ہو رہی ہو یا کسی کو تنخواہ مل رہی ہو، ان سب صورتوں میں جس وقت پیداوار حاصل ہوگی تو اس پر پانچ فیصد زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ محنت اور سرمایہ دونوں آپ کا ہو۔ اگر صرف محنت جیسے ملازمت کی صورت میں یا صرف سرمایہ ہے جیسے کہیں انویسٹمنٹ کی جائے تو پھر زکوٰۃ کی شرح دس فیصد ہوگی۔ سونا بطور گفٹ آئے یا عیدی جمع ہو تو سال کے آخر تک اگر یہ رقم باقی رہے تو اس پراڑھائی فی صد زکوٰۃ ہوگی بشرطیکہ یہ رقم نصاب سے زیادہ ہو۔

مثلاً اگر اس سال نصاب کی رقم اڑتیس ہزار ہے اور آپ کے پاس اتنی یا اس سے زیادہ رقم موجود ہو تو آپ اس پر زکوٰۃ ادا کریں گی۔

روزے میں دن میں سونا
سوال: ماہِ رمضان میں رات بھر عبادت کر کے بعد فجر تا ظہر سونا صحیح ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ عید کے دن نئے کپڑے پہننا لازم ہے یا نہیں؟ مہناز عابد

جواب: السلام وعلیکم۔ ماہِ رمضان میں رات بھر عبادت کر کے بعد فجر تا ظہر سونے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ آپ کا اپنا انتخاب ہے۔ گرمیوں میں بہت سے لوگ یہ معمول اختیار کرلیتے ہیں تاکہ گرمی کی شدت سے بچ سکیں۔ اگر اللہ نے آپ کے لیے یہ آسانی دی ہے تو اللہ کا شکر کیجیے۔ یہ اس کی نعمت ہے کہ آپ اپنی سہولت کے حساب سے اپنے وقت کو تقسیم کرسکتے ہیں۔

دوسرے سوال کا پس منظر یہی ہے کہ ہم عید کے ملبوسات کی تیاری کے لیے مارکیٹ کے چکر لگا کر اپنے رمضان کو خاص طور پر راتوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ رمضان میں راتوں کو خصوصاً عید کے قریب آنے پر خواتین کا بازار آنا جانا لگا رہتا ہے نیز شب قدر پہ بھی خواتین بازاروں میں گھوم رہی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی ہوئی ہوتی ہے تو یہ صورتحال اکثر اوقات بے ہودگی کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا اس افسوسناک صورتحال سے محفوظ رہنے کے لیے عید کی تیاری رمضان سے پہلے کرلینی چاہیے۔ رمضان میں ان کاموں میں اپنا وقت ضائع بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ عید کے دن نئے کپڑے پہننا البتہ کوئی دینی تقاضا نہیں۔ جو بہتر کپڑے میسر ہوں پہن لیں۔ یہ خوشی کا تہوار ہے۔ اس کا اظہار ہونا چاہیے۔

صدقہ فطر اور چاول
سوال: کیا صدقہ فطر کے طور پر چاول یا دیگر اناج دیا جاسکتا ہے؟

جواب: السلام علیکم۔ جی ہاں۔ صدقہ فطر کے طور پر آپ چاول دے سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب میں چونکہ چاول پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چاول کی پیداوار بہت زیادہ پانی کا تقاضا کرتی ہے یعنی چاول وہیں اگتا ہے جہاں پانی وافر ہو۔ اس لیے عرب کے ماحول کے پیش نظر چاول کی پیداوار کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اس لیے صدقہ فطر کے سلسلے میں بطور خاص اس کا ذکر نہیں ملتا۔ اصل چیز خوراک ہے یا اس کے برابر رقم تاکہ مستحق لوگ خوراک حاصل کر سکیں۔ تو جس شکل میں آپ چاہیں صدقہ فطر دے دیجیے۔ یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔

سوال: امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ دار کی یہ فضیلت کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے برابر اجر کا حقدار ہے، اس روایت کی مصدقہ حیثیت سے متعلق وضاحت بیان کیجیے؟

جواب: السلام علیکم۔ یاد رکھیے کہ جن روایات میں بہت زیادہ مبالغہ سے کام لیا گیا ہو وہ عموماً صحیح نہیں ہوتیں۔ میری، آپ کی اور کسی روزے دار کی کیا حیثیت ہے کہ وہ سیدنا موسی علیہ السلام کے برابر پہنچ جائے یا اللہ کا اتنا قرب اختیار کرلے۔ یہ کسی صورت میں بھی ممکن نہیں ہے۔ روزے کی مثال کو ہی لے لیجیے۔ ہمارا روزہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کا ہوتا ہے جبکہ یہودیوں کا روزہ رات سے ہی شروع ہوجاتا تھا۔ ہم سے زیادہ بھوک پیاس یہودیوں کو برداشت کرنی پڑتی تھی۔ اس طرح روزہ اگر مشقت کا نام ہے تو یہودی زیادہ مشقت اٹھاتے تھے۔ اس لیے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ اس طرح ہم روزہ رکھ کر حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں آکر اللہ کا زیادہ قرب حاصل کرلیتے ہیں۔ ہم گناہ گار، خطا کار ہیں۔ ہماری کیا حیثیت کہ پیغمبروں کا مقابلہ کریں۔ اس طرح کی روایات معتبر نہیں ہوتیں، انہیں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔

ختم القرآن
سوال: تراویح میں یا ویسے ہی قرآن پاک مکمل پڑھنے پر ’’ختم القرآن‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر منع کرنے والوں کو کیا جواب دیا جائے؟ شاہدہ بانو

جواب: السلام علیکم۔ یہ ایک غیرمتعلق بحث ہے جو صرف لفظی نزاع پہ مبنی ہے۔ یعنی جس وقت لوگ کہتے ہیں کہ ختم القران کی آج محفل ہے یا ختم قرآن کے بعد دعا مانگ رہے ہیں تو ان کی یہ مراد نہیں ہوتی کہ قرآن مجید ان کی زندگیوں سے ختم ہوا ہے اور وہ دوبارہ اسے نہیں پڑھیں گے۔ ان کے الفاظ کا خاص مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا جہاں سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور پڑھتے پڑھتے ہم اس مرحلہ پہ پہنچ گئے جہاں قرآن مجید ختم ہوتا ہے۔ اب اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن مجید ایک جگہ پہ آکر ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ بات ایک جگہ سے شروع ہوتی ہے دوسری جگہ پہ ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ہر سورۃ ایک جگہ سے شروع ہوتی ہے اور دوسری جگہ پر ختم ہوتی ہے۔ دراصل بعض لوگ سادہ باتوں کو بھی نہیں سمجھ پاتے تو ایسے لوگوں سے الجھا مت کریں۔ انہیں بتا دیا کریں جس طرح قرآن مجید کی کسی سورۃ کا آغاز اور اختتام ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید الحمد سے شروع ہو کر الناس پہ جا کے ختم ہوتا ہے۔ لہٰذا ختم القرآن کا مفہوم قطعاً یہ نہیں ہوتا کہ اپنی زندگیوں سے اسے ہم ختم کر کے نکال رہے ہیں۔ یہ صرف دورہ قرآن مکمل ہونے پر اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے، اس سے دعا مانگنے، مدد مانگنے یا اس کے احسان مند ہونے کا موقع ہوتا ہے۔ اس میں کوئی حرج یا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک لفظی نزاع ہے۔ ایسی غیرمتعلق بحثوں سے بچنا چاہیے۔ جن لوگوں کی توجہ ایمان اور اخلاق کی دعوت پہ نہیں ہوتی وہ اسی طرح کے لفظی نزاع میں اپنی زندگی ضائع کر دیتے ہیں۔

تراویح کی نماز
سوال: اجتماعی تراویح/نوافل ادا کرنے سے عبادت کی یکسوئی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود کیا تراویح باجماعت ادا کرنی چاہیے؟

جواب: السلام علیکم۔ میں بالکل آپ کی بات سے متفق ہوں۔ یہ تنہائی کی عبادت ہے اور نفلی نماز بھی تنہا ہی ادا کرنی چاہیے۔ البتہ اسے جماعت سے پڑھنے کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ثابت ہے۔ ایک موقع پر آپ نے اس کا اہتمام کیا تھا اور تین دن تک لوگ آپ کے پیچھے تہجد کی یہ نماز جماعت سے پڑھتے رہے۔ چوتھی رات لوگ انتظار کرتے رہے، مگر آپ حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے۔ اور پھر وجہ بیان کی کہ یہ اس خیال سے کیا کہ یہ نماز فرض نہ کر دی جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باجماعت تہجد جسے اب تراویح کہتے ہیں اس کی اجازت موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں اسے باقاعدہ ایک امام کے تحت منظم کر دیا تھا۔ لیکن حضرت عمر نے خود اس میں شرکت نہیں کی تھی بلکہ اگلے دن جب دیکھا کہ لوگ ایک امام کے ساتھ تراویح پڑھ رہے ہیں تو آپ نے خود اس میں شامل نہ ہونے کی وجہ اس طرح بیان کی کہ جس نماز یعنی تنہائی میں پڑھی گئی نماز کو چھوڑ کر لوگ اجتماعی طور پر یہ نماز پڑھ رہے ہیں، وہ اس سے بہت بہتر ہے۔ آپ نے خود وہ نماز پڑھی، نہ پڑھائی۔ آپ نے خود گھر پہ تنہائی میں نماز ادا کی۔ اصل فضیلت بھی تنہائی میں یہ نماز ادا کرنے کی ہے۔ خاص کر معاشرے کے اہل علم کی ایک تعداد کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ اصل نماز تہجد کی وہ نماز ہے جس کو عام لوگ اپنی دنیوی مصروفیات اور مسائل کی بنا پر نہیں پڑھ پاتے، وہ لوگ اسے تراویح کی شکل میں ادا کر لیتے ہیں۔ انشاء اللہ ان کو اس کا اجر ملے گا۔

تراویح اور لیکچرز
سوال: مغربی ممالک کی مساجد میں مسلم خواتین کے لیے تراویح کا اہتمام (مختلف لیکچرز و ذکر اذکار سیشنز سے پہلے یا بعد میں) اگر مرد حضرات سے علیحدہ طورپر کیا جائے تو کیا اس میں شریک ہونا مناسب ہے؟

جواب: السلام علیکم! تراویح تہجد کی نماز ہے۔ تہجد کی نماز انسان تنہائی میں پڑھے اور براہ راست دعا و مناجات سے تعلق پیدا کرے تو یہ بہت ہی بہترین بات ہے۔ اور ترجیح اسی کو دینی چاہیے کہ تنہائی میں خشوع و خضوع سے یہ نماز ادا کی جائے۔ البتہ اجتماعی طور پر تراویح کی رعایت سے اگر کچھ خواتین فائدہ اٹھانا چاہیں تو شریک ہوسکتی ہیں۔ تراویح کے درمیان میں اگر کوئی بیان وغیرہ دیا جارہا ہے تو اس میں کوئی چیز ممنوع نہیں ہے اور نہ وہاں جانے میں کوئی حرج ہے۔

عیدی
سوال: ایک سفید پوش شخص اپنے محدود ذرائع سے عید کے موقع پر خاندان کے بچوں کو عیدی دیتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں یہ رواج شدید مشکلات کا باعث ہے۔ کیا اسے ختم نہیں کیا جاسکتا؟ فرح رضوان

جواب: السلام علیکم۔ جی آپ نے بالکل درست فرمایا کہ بہت سی جگہوں پر عیدی دینا بہت تکلیف دہ مرحلہ بن جاتا ہے یعنی لوگ اسے afford نہیں کرسکتے لیکن پھر بھی انہیں خاندان میں موجود بچوں کو عیدی دینی پڑتی ہے۔ میرا خیال ہے اب اس رواج کو ختم ہونا چاہیے۔ اب وہ زمانہ ہی نہیں رہا جس میں اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ اب لوگ عموماً اپنے بچوں کا بہت خیال کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں بچوں کو سارا سال کچھ نہیں ملتا تھا نہ موجودہ دور کے بچوں کی طرح والدین کی طرف سے ان کے لاڈ اٹھائے جاتے تھے۔ اس لیے بڑے افراد یا بوڑھے بزرگ عید کے موقع پر سال میں ایک دفعہ عید کے دن بچے کو خوش کرنے کے لیے اسے عیدی دے دیا کرتے تھے۔ اور اس کا بھی طریقہ یہ تھا جو سربراہ ہوتے تھے اور جو afford کرسکتے تھے وہ دے دیا کرتے تھے۔ یہ رواج اب میرے خیال میں غیرضروری ہوچکا ہے اس لیے کہ اب والدین اپنے بچوں کے لیے سارا سال سب کچھ کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ خاندان کے بزرگوں کو مداخلت کر کے یہ پابندی لگانی چاہیے کہ عیدی کو ختم کیا جائے کیوں کہ اس کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔

روزے میں خون دینا
سوال: کیا روزہ کی حالت میں خون دیا جا سکتا ہے ؟
جواب: جی ہاں۔ روزہ کی حالت میں (blood donate) یعنی خون دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اپنی ہمت دیکھ لینی چاہیے۔ ایسا نہ ہوکہ کمزوری کی وجہ سے روزہ توڑنا پڑجائے۔

تین دن تک عید منانا
سوال: تین دن تک عید منانے کی روایت کیا حضور کے دور سے ہی چلی آرہی ہے؟
مسز طارق

جواب: السلام علیکم۔ جی نہیں۔ عیدالفطر کو تین دن منانے کا رواج تو لوگوں نے بنایا ہے۔ اس کا پس منظر بظاہر یہی ہے کہ چونکہ عید الاضحی کے تین دن ہوتے ہیں تو لوگوں نے اسی حساب سے عیدالفطر کو بھی چھوٹی عید قرار دیتے ہوئے تین دن تک مخصوص کرلیا۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ عید الاضحی تین دن منانے کا تصور عیدالفطر تک آیا ہے اور ایک دن کے بجائے تین دن عید منائی جاتی ہے۔ اس کا کوئی مذہبی پہلو نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت بس پہلے ہی دن ہے۔ اس میں مذہبی پہلو صرف نمازِ عیدالفطر کے حوالے سے ہے، باقی تو یہ سیلیبریشن ہے جو آپ چاہیں تو حددود میں رہتے ہوئے آزادی سے خوشی منا سکتے ہیں جیسے تفریح کرنا، ملنا جُلنا، کھانا پینا وغیرہ۔

دو عیدیں
سوال: ماہِ رمضان لاہور جبکہ عید الفطر نوشہرہ میں گزارنے پر اوقات کے فرق کی بناء پر اگر روزہ چھوٹ جائے تو کیا قضا روزہ رکھنا صحیح ہے؟

جواب: السلام علیکم۔ کسی شہر میں اپنی عید منانا ملکی نظم کی خلاف ورزی ہے۔ اگر آپ کو یہ صورتحال پیش آئے کہ لاہور سے وہاں جانا ہو تو آپ وہاں مسافر ہونے کی غرض سے روزہ چھوڑ سکتی ہیں۔ لیکن اس بنا پہ روزہ نہ چھوڑیں کہ وہاں عید ہے۔ آپ کو حکومتی ادارے کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق وہاں روزہ ہی رکھنا چاہیے اور اگر آپ نے روزہ چھوڑنا ہے تو وجہ یہ ہو کہ آپ مسافر ہیں نہ کہ وہاں عید کی وجہ سے روزہ چھوڑا جائے ۔کیوں کہ وہاں منائی جانے والی عید کو جائز نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ وہاں کے لوگوں کو کوئی حق حاصل ہے کہ ملکی نظام کی خلاف ورزی کر کے اپنی الگ سے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لیں۔ یہ محض تفرقہ بازی ہے۔ باشعور لوگوں کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ اس کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے۔

حمل کی وجہ سے روزے چھوڑنا
سوال: اگر کوئی خاتون دورانِ حمل ماہِ رمضان کے روزے نہ رکھ پائے تو کیا اس کی پیدا ہو نے والی اولاد کا بڑے ہو کر اس کے بدلے میں روزہ رکھنا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب: السلام علیکم۔ بہن! اصول یہ ہے کہ جس پہ جو ذمہ داری ہے وہ اسی کو ادا کرنی ہوگی۔ ایک عورت نے اگر حمل اٹھایا ہے، جو تکلیفیں سہیں تو اس کا بہت اجر ہے۔ لیکن اپنی ذمہ داری ان خاتون کو خود ہی ادا کرنی ہوگی۔ سہولت سے جب دل چاہے اپنی مرضی سے قضا روزے رکھ سکتی ہے۔ چاہے سردیوں کے ٹھنڈے دنوں میں ادا کرے یا جب دس گیارہ گھنٹوں کا روزہ ہوتا ہے تب ادا کرے۔ جتنی سہولت آپ لینا چاہیں لیں لیکن ادا آپ ہی کو کرنا ہے اولاد بہرحال اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔

افطار میں خصوصی اہتمام کا مطالبہ
سوال: مرد حضرات افطاری پر خصوصی اہتمام کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے خاتون خانہ ماہِرمضان کی بابرکت ساعتوں سے مستفید ہونے کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت کچن میں گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں خواتین کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: السلام علیکم۔ اگر مرد اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ افطار میں اہتمام کیا جائے تو ان کو سمجھانا چاہیے کہ افطار میں اتنا ہی اہتمام ہونا چاہیے جتنا ہم روٹین میں کرتے ہیں۔ روٹین میں ہم بس کھانا کھاتے ہیں۔ اصولاً تو یہی کافی ہے، لیکن افطار میں چاہیں تو کچھ تھوڑا بہت اضافی اہتمام کرلیں جیسے کچھ کھجور پھل وغیرہ۔ اس سے بڑھ کر رمضان میں بہت زیادہ اہتمام کرنا مناسب نہیں ہے، ورنہ سب لوگوں کی توجہ کھانے پینے پر ہی لگی رہتی ہے اور رمضان میں تقویٰ کے بجائے چٹورے پن کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔

ماہ رمضان سے پہلے روزے رکھنا
سوال: ماہِ رمضان کے آغاز سے پہلے تین روزے لگاتار رکھنے کی حقیقت کیا ہے؟ رمضان کے عشرے اور ان میں پڑھی جانے والی مخصوص دعاؤں کی اہمیت کے بارے میں بتا دیجیے۔

جواب: السلام علیکم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے رمضان سے قبل روزے رکھنے سے منع کیا ہے اور خود بھی روزے نہیں رکھا کرتے تھے۔ شعبان میں اگر روزے رکھنے ہیں تو نصف اول میں رکھنے چاہئیں۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو وہ روایت ضعیف ہے جس میں تین عشروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں مخصوص دعاؤں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

شب قدر کا الگ الگ ہونا
سوال: ماہ رمضان پوری دنیا کے ممالک میں ایک دن آگے یا پیچھے ہوجاتا ہے اسی طرح طاق راتیں اور لیلۃ القدر بھی مختلف دنوں میں ہوتی ہوں گی۔ ایسی صورت میں وقت کا فرق ہونے کی بناء پر لیلۃ القدر کا مختلف ممالک میں ایک ہی رات میں ہونا کیسے ممکن قرار دیا جاسکتا ہے؟ یعنی ہر جگہ لیلۃ القدر کے لیے ایک ہی رات کیسے مخصوص کی جاسکتی ہے؟ ندا بی بی

جواب: السلام علیکم۔ دن اور رات کا تعلق کرۂ ارض سے ہے۔ یعنی زمین کی گردش سے دن اور رات وجود میں آتے ہیں۔ اللہ تعالی کی ہستی اس سے بہت بلند تر ہے کہ اس کے معاملات کو کرۂ ارض پر منحصر کر کے سمجھا جائے۔ وہ کائنات کے معاملات کس طرح چلا رہے ہیں ہم بالکل نہیں جانتے۔ قرآن مجید نے ہمارے حساب سے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ لیلۃ القدر بڑی خیر و برکت والی رات ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی بات خدائی سطح پہ واقع ہوتی ہو اور انسان جیسی ادنیٰ مخلوق کو سمجھائی جائے گی تو اسی کے پیمانے پر سمجھائی جائے گی۔ دن اور رات کی جو تعبیر ہم جانتے ہیں ہمیں اسی کے حساب سے سمجھا دیا گیا ہے۔ لیکن یہ لیلۃ القدر دراصل کس طرح واقع ہوتی ہے، اصل معاملہ کیا ہوتا ہے، ہم نہیں جانتے۔

اصول سمجھ لینا چاہیے کہ رمضان کا مہینہ عبادت اور خدا کے قرب کو تلاش کرنے کا ہے۔ ہمیں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اس ماہ مقدسہ کے آخری عشرے میں ایک رات میں خود اللہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ اہل زمین پر ہوتی ہے۔ بعض روایات میں آخری پانچ طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے کا کہا گیا ہے۔ چنانچہ اپنے طور پر ان راتوں میں خصوصاً اور اس کے علاوہ آخری عشرے اور رمضان کی دیگر راتوں میں بھی عبادت کے ذریعے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا قرب تلاش کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے اس رات کو پا لیا تو یہ بہت اچھی بات ہے اور نہیں پایا تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک مومن کے لیے اصل شب قدر وہ ہوتی ہے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رو رہا ہو، گڑ گڑا رہا ہو، فریاد کر رہا ہو، ہر غیر اللہ سے دھیان ہٹ چکا ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف آپ متوجہ ہوں، وہی لمحہ آپ کے لیے شبِ قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور آپ کی زندگی کے سب فیصلے اسی لمحے میں ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اس لمحے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کسی خاص شب کو متعین نہیں کیا۔