Take a fresh look at your lifestyle.

ون ڈش کا سبق ۔ ابویحییٰ

پچھلے دنوں ہماری پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا ہے، جس کی رو سے اب شادیوں میں ون ڈش کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس سے قبل نواز شریف صاحب کے دورِ حکومت میں شادی کی تقریب میں کھانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ شادی میں ون ڈش کھانوں کی اجازت کے اس حالیہ بل کے پاس ہونے سے قبل یہ پابندی کسی نہ کسی حوالے سے قانونی طور پر موجود تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ عملاََ شادی کے موقع پر کھانا کھلانے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔

ابتدا میں اس قانون کی پابندی کرانے کے لیے بڑی سختی کی گئی۔ پیسے والے لوگوں نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حیلے کا طریقہ اختیار کیا۔ جس میں شادی کی تقریب کو سالگرہ اور عقیقہ وغیرہ کا نام دیکر مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا۔ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے تو وہ شادی ہال میں تو کھانا نہ کھلاتے، البتہ سسرال والوں کے گھروں میں پر کھانا پکوا کر ضرور بھجوا دیتے تاکہ مہمان وہاں کھانا کھا لیں۔ بعد میں اس قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی شروع ہوگئی اور علانیہ شادی کے موقع پر پرُتکلف کھانوں کا اہتمام کیا جانے لگا۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ کھانے کے بل میں پولیس والوں کا ’حقِ خدمت‘ باضابطہ طور پر شامل ہوگیا جو ہال والے باقاعدگی سے وصول کرتے۔ چنانچہ اس بل کے پاس ہونے سے اگر کسی کو نقصان ہوا ہے تو وہ پولیس والوں کو ہوا ہے جن کی لگی بندھی آمدنی ختم ہوگئی۔

شادی کے کھانے پر پابندی کی اس دس سالہ کہانی میں ہم سب کے لیے ایک بڑا سبق موجود ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ قانون کے زور پر معاشرتی رویوں کو نہیں بدلا جاسکتا۔ یہ معاشرہ ہے جس کی اقدار و روایات قانون سازی کی بنیاد ہوتی ہیں۔ اس لیے کرنے کا کام یہ نہیں کہ شادی کے کھانے پر پابندی لگائی جائے۔ اصل کام یہ ہے کہ لوگوں کی تربیت کی جائے۔ اسراف اور دولت کی نمائش جیسی برائیوں کو ان کی نظروں میں اتنا ناپسندیدہ بنا دیا جائے کہ ان کا ارتکاب کرنے والا معاشرے میں صاحبِ حیثیت کے بجائے ایک بے کردار انسان سمجھا جائے۔

اس داستان میں ایک اور سبق ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو اخلاص کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کو قانون کی طاقت پر لوگوں میں نافذ کرکے خلافتِ راشدہ کا احیا کر لیں گے۔ ون ڈش کا قانون یہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگ یقیناََ غلطی پر ہیں اور اب تو ان کی غلطی کی تصدیق پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ نے بھی کر دی ہے۔

پاکستان کی تحریک آزادی میں اسلام کا نعرہ لگایا گیا۔ اس نعرے کی اپنی وجوہات اور پس منظر تھا۔ مگر اس کے نتیجے میں ہمارے بعض مخلص لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ پاکستان کے عوام پورے طور پر اسلام پسند ہوچکے ہیں۔ بس اب اسلامی قانون نافذ ہونے کی دیر ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہوجائے گا اور مسلمان خلافت راشدہ جیسا عروج حاصل کرلیں گے۔ چنانچہ اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک شروع کی گئی۔ قراردادِ مقاصد پاس ہوئی۔ دستور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان ہوا۔ یہاں تک کہ نظام مصطفی کی تحریک کے بعد جنرل ضیاء الحق کی اسلام پسند حکومت قائم ہوئی۔ ہر طرف اسلام کا شور وغوغا بلند ہوا۔ مختلف اسلامی قوانین نافذ ہوئے۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ خدا کی رحمتوں کا نزول تو دور کی بات ہے، مہنگائی اور بدامنی نے لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔ قوانین کی سطح پر ہمارے ہاں جتنا اسلام ہے، عوام الناس اتنا ہی ایمان و اخلاق سے دور ہوچکے ہیں۔ اسلاف کی عظمتوں کا حصول تو آج تک ایک قصہ پارینہ ہے، البتہ ہم دنیا کی کرپٹ ترین قوم گنے جاتے ہیں۔

معاملہ بالکل واضح ہے۔ اسلام کے تمام قوانین اپنی اصل شکل میں انسانوں کے لیے بہترین رہنمائی ہیں۔ مگر یہ قوانین ماضی میں صرف اس وجہ سے موثر ہوئے کہ ایمان و اخلاق کے اعتبار سے بہترین لوگوں پر نافذ تھے۔ جبکہ آج کا مسلمان ان دونوں اعتبارات سے غیر تربیت یافتہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے پر اصل فرد کی تربیت کو مقصد بنایا جائے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ دین اصل میں کچھ قوانین کا مجموعہ نہیں بلکہ ایمان و اخلاق کی دعوت کا نام ہے۔ ایمان و اخلاق کی اس دعوت میں اہل اقتدار رقیب نہیں بلکہ محبوب ہوتے ہیں، جنہیں انتہائی درد مندی کے ساتھ حق کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس دعوت میں عالمِ دین خدائی فوجدار کے مقام پر نہیں بلکہ دین کے داعی کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔

ایمان و اخلاق کا یہ بے خزاں شجر اقتدار کے ایوانوں میں نہیں، دلوں کی زمین میں اگایا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ معاشرے کا اجتماعی وجود نہیں بلکہ فرد ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ دستور کی سطح پر نہیں فرد کے کاروبارِ حیات اور معمولات میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں ایسے افراد ایک قابل ذکر تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں جو ایمان و اخلاق کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں تو بس ایک نسل تک محنت کرنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب اس کی فصل اگتی ہے تو دنیا و آخرت کی ساری رحمتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ معاشرہ اجتماعی طور پر بہتر ہوتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ غیر اللہ کے قوانین کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ ورنہ یہ ممکن نہیں کہ افراد عملی زندگی میں شیطان کے بندے ہوں اور اجتماعی زندگی میں اسلامی قوانین قبول کرلیں۔