Take a fresh look at your lifestyle.

نیا احتساب ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل

کیا ہم حسد کرتے ہیں؟ کیا ہم زنا کرتے ہیں؟ کیا ہم جھوٹ بولتے ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب عین ممکن ہے ہم یہ دیں کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ عام حالات میں کوئی گناہ کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں جب انسان گناہ کی جانب مائل ہوتا اور غلط کام کرتا ہے۔
نیکی اور گناہ کا تعلق انسان کے داخلی اور خارجی ماحول سے ہے۔ داخلی ماحول میں انسان کی طبیعت، مزاج، خواہشات، رغبات اور مفادات کا دخل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنی شخصیت میں غیض و غضب کا پہلو نمایاں رکھتا ہے تو وہ باآسانی غصہ کی جانب مائل ہوجائے گا۔

دوسری جانب خارجی ماحول میں انسان کے گردو پیش کے معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور دیگر حالات کا دخل ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص مغربی ماحول میں پلا بڑھا تو اس کے لئے زنا کرنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک انسان کے لئے اپنے داخل و خارج کے موافق حالات میں نیکی کرنا عام طور پر آسان ہوتا ہے۔ دوسری جانب اگر حالات ناموافق ہوں تو ایسی صورت میں نیکی کرنا اور گناہ سے بچنا ایک جہاد بن جاتا ہے۔ یہی اصل آزمائش کا وقت ہوتا ہے اور یہیں انسان کے رخ کا تعین ہوجاتا ہے کہ وہ کس سمت جا رہا ہے؟

عام طور پر جب ہم اپنا احتساب کرتے ہیں تو ان حالات کو ذہن میں رکھتے ہیں جو موافق اور نارمل ہیں۔ چنانچہ جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ ہم تو جھوٹ نہیں بولتے، ہم تو حسد کا شکار نہیں ہوتے، ہم تو بدگمانی نہیں رکھتے، ہم کسی کے خلاف بات نہیں کرتے، ہم تو شاید کچھ بھی نہیں کرتے۔ اس طرح ہم اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دیکھنے کا زاویہ بدل لیں تو صورت حال برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ہماری زندگی میں سچ بولنے کا امتحان آیا ہی صرف دس مرتبہ ہو اور ان تمام ناموافق مواقع پر ہم یہ کہہ کر جھوٹ بول گئے کہ کبھی کبھی تو چلتا ہے۔ ممکن ہے ہمیں اپنے مدمقابل صرف چار لوگ ہی ایسے ٹکرائے ہوں جنہیں دیکھ کر حسد محسوس ہو اور ہم ان چاروں مواقع پر حسد کا شکار ہو چلے ہوں۔ ممکن ہے ہمیں زندگی میں چند ہی مرتبہ اپنے مفادات کے خلاف کوئی حق بات پیش کی گئی ہو اور ہر موقع پر ہم نے عصبیت و ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے حق کو رد کر دیا ہو۔

چنانچہ ہم سب کو نئے سرے سے اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے کردار کا جائزہ لیتے وقت اپنی شخصیت کو ناموافق حالات میں رکھ کر سوچنا چاہئے۔ ہمیں خود یہ سوال کرنا چاہئے کہ آیا ہم خود کو اس وقت بھی سچ بولنے پر آمادہ کر لیتے ہیں جب مادی نقصان سامنے ہو، کیا ہم اس وقت صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں جب دل شدت غم سے پھٹا جا رہا ہو، کیا ہم اس وقت لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں جب ان کی غلطی ایک مسلم حقیقت بن چکی ہوتی ہے، کیا ہم اس وقت بھی اپنے آپ کو چھوٹا مان لیتے ہیں جب ہماری انا بری طرح مجروح ہو رہی ہو۔ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئے سرے سے امتحان کی تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ آزمائش کے وقت ہم ناکام ہوجاتے ہیں۔