Take a fresh look at your lifestyle.

نبی کا جنازہ اور صحابۂ کرام ۔ ابویحییٰ

پچھلے دنوں میرے پاس ایک نوجوان کا یہ سوال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت ایسا کیوں ہوا کہ صحابہ کرام اور خاص کر حضرات ابوبکر و عمر، ان کی تجہیز و تکفین کی فکر کرنے کے بجائے خلافت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ مسیحی نوجوان کا یہ سوال دراصل ایک پورا نقطۂ نظر ہے جو بہت سی غلط فہمیوں پر مشتمل ہے۔ سرسری معلومات کی بنا پر بہت سے لوگ اس نقطۂ نظر سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حقائق کی روشنی میں اس دعوے  کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کے معاملات  باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے‘‘، (شوریٰ 42:38)
قرآنِ پاک کا یہ حکم عرب کے اُس قبائلی معاشرہ میں اترا، جس میں نہ کسی اجتماعی ریاست کا تصور تھا اور نہ کسی واحد حاکمِ اعلیٰ کی کوئی تاریخ ہی پائی جاتی تھی۔ اسلام سے قبل ہر قبیلے کا اپنا سردار ہوتا جو اس کے معاملات چلاتا تھا۔ عرب میں کوئی باقاعدہ ریاست تھی اور نہ اس کا کوئی مستقل حکمران تھا۔ حتیٰ کہ ام القریٰ مکہ کے مرکزی شہر میں بھی کوئی حکمران نہ تھا۔ وہاں بمشکل تمام ایک ڈھیلا ڈھالا نظمِ اجتماعی تھا جس میں قبائلی سردار کسی اجتماعی مسئلے پر اکٹھے ہوجاتے اور مل جل کر کوئی فیصلہ کر لیتے۔

ایسے میں اسلام کا ظہور ہوا۔ ہجرت کے بعد مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فطری طور پر اس ریاست کے حکمران تھے۔ 8 ہجری تک یہ ریاست صرف مدینہ اور اس کے اطراف تک محدود تھی۔ پھر فتحِ مکہ کے بعد صرف تین برس میں یہ ریاست پورے عرب میں پھیل گئی۔ یہ وہ عرب تھا جہاں انتشار و اختلاف کے شکار قبائل اور طرح طرح کی عصبیتیں موجود تھیں اور جو پہلی دفعہ کسی ایک حکمران کے ماتحت اکٹھا ہوا تھا۔ مگر لوگوں کا حضور پر بحیثیت رسول ایمان اور حضور کا سب سے برتر قبیلے یعنی قریش سے تعلق وہ چیز تھا جس نے عرب میں یہ سیاسی انقلاب برپا کر دیا۔ تاہم حقیقت یہ تھی کہ نئے ایمان لانے والے قبائل ابھی تک اس پورے نظام کے عادی نہیں ہوئے تھے۔

اپنے آخری وقت میں حضور کو اس صورتحال کا مکمل اندازہ تھا۔ مگر آپ نے اس حوالے سے کوئی بات اس لیے نہیں فرمائی کہ مسلمانوں کے پاس بہرحال اللہ تعالیٰ کا حکم موجود تھا۔ دوسرے حضور کو معلوم تھا کہ آپ نے اس موقع پر اگر لوگوں کو کوئی حکم دے دیا تو وہ تا قیامت سورہ شوریٰ کی مذکورہ بالا آیت کی واحد قابل عمل شکل قرار پائے گی ۔ یہ بات اُس وقت کے قبائلی دور کے حساب سے تو ٹھیک ہوتی، مگر آنے والے زمانوں میں حکمران کے انتخاب کے ہر دوسرے طریقے کو غیر اسلامی بنا کر، اسلام کے ناقابل عمل ہونے کا ایک نمایاں ثبوت بن جاتی۔ جبکہ اسلام کو قبائلی دور ہی کا نہیں بلکہ آج کے انفارمیشن دور کا مذہب بننا تھا۔ چنانچہ حضور کو جب اندازہ ہوگیا کہ رخصت کا وقت قریب ہے تو آپ نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل مسجدِ نبوی میں آخری خطبہ دیا۔ اس خطبے میں آپ نے مسلمانوں کو آخری وصیتیں کیں، مگر سیاسی حکمرانی کے عملی طریقے کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کی۔ البتہ اُس شخص کی طرف اشارہ کر دیا جو آپ کی نظر میں اس منصب کا سب سے بڑھ کر اہل تھا۔ چنانچہ اس موقع پر آپ نے دین اور اپنی رفاقت کے حوالے سے حضرت ابوبکر کی خدمات گنوائیں اور حکم دیا کہ مسجد نبوی میں ان کے دروازے کے سوا ہر دروازہ بند کر دیا جائے (متفق علیہ)۔ اگلے دن سے اپنی جگہ حضرت ابوبکر کو مسجد نبوی کی امامت سونپ کر اپنا منشا لوگوں پر مزید واضح کر دیا (متفق علیہ)۔

چار دن بعد پیر کے دن ظہر سے قبل حضور کا انتقال ہوگیا۔ مسلمانوں پر اپنے محبوب نبی کے رخصت ہونے کا انتہائی شدید صدمہ تھا۔ مگر اس کے ساتھ دوسری تلخ حقیقت یہ تھی کہ قبائلی عصبیت سے بھرپور عرب کی نئی ریاست میں حکمرانی کا منصب خالی ہوچکا تھا اور کسی جانشین کا ابھی تک تعین نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جو اس پس منظر میں متوقع تھا۔ انصار کے بعض لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھا ہوکر حضور کی جانشینی کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے۔ حضرت ابوبکر جو بلاشک و شبہ اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے، ان سے اس موقع پر اگر معمولی سی بھی کوتاہی ہوجاتی تو اسلام کی تاریخ بننے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ ان حالات میں حضرت ابوبکر حضور کے انتقال کی خبر سن کر سیدھے مسجد نبوی تشریف لائے اور ان شاندار الفاظ سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند کیا کہ ’’جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ جان لے کہ اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہیں مرے گا‘‘، (بخاری 640/2641)۔ اس کے ساتھ ان پر یہ ذمہ داری بھی آن پڑی کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔ چنانچہ وہ حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح جیسے اہم قریشی سرداروں کو لے کر انصارکے ہاں گئے اور ایک طویل بحث و گفتگو کے بعد حضور کے بعض ارشادات کی روشنی میں انصار کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ہر شخص کو معلوم تھا کہ قریشی مسلمانوں میں سب سے بڑا لیڈر کون ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے ان کا نام تجویز کیا جسے سب نے فوراً تسلیم کر لیا۔ یوں ریاستِ مدینہ میں انتشار کا خطرہ ٹل گیا۔ مگر اس پورے عمل میں پیر کے دن کی رات ہوگئی۔ اگلے دن منگل کو حضور کو سیدنا علی اور دیگر قریبی اعزا نے غسل دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسبِ ارشاد آپ کی قبر آپ کی وفات کی جگہ پر ہی بنائی جانی تھی۔ اس لیے تدفین اور نمازِ جنازہ کے لیے کہیں اور جانے کا سوال نہیں تھا۔ اس لیے لوگوں نے گروہ در گروہ آکر سیدہ عائشہ کے اس حجرے ہی میں نماز ادا کی جہاں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ اس عمل میں منگل کا پورا دن گزر گیا اور بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں حضرت عائشہ کے حجرے میں حضور کی تدفین عمل میں آئی۔

یہ ہے وہ بات جس کا افسانہ بنا کر ہمارے بعض مسلمان بھائی اسلام، اس کے نبی اور ان کے بہترین پیروکاروں کے بارے میں ایسے سوالات پیدا کر دیتے ہیں جن کی بنا پر نئی نسل اسلام سے بدظن ہوجاتی ہے اور غیر مسلموں کو ہمارا مذاق اڑانے کا موقع مل جاتا ہے۔ جبکہ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر کے ابتدائی زمانے میں خلافت کے قیام اور مہاجرین و انصار اور قریشِ مکہ کی بھرپور تائید کے باوجود عرب میں ایک زبردست بغاوت رونما ہوئی۔ اندازہ کیجیے کہ اگر حضور کے انتقال کے وقت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فوری فیصلہ کر کے نزاع کو ابتدا ہی میں ختم نہ کرتے اور اہل مدینہ میں باہمی انتشار پیدا ہوجاتا تو مسلمانوں کا کیا انجام ہوتا؟

ہم نے جو کچھ تحریر کیا ہے، اس کی تائید سیدنا علی کے اپنے طرز عمل سے ہوتی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہ ہونے کی بنا پر انھیں ابتدا میں یہ شکایت تھی کہ مجھے مشورے میں کیوں شریک نہیں کیا گیا، مگر جب ان پر معاملہ واضح ہوگیا تو انھوں نے سیدنا ابوبکر کی بیعت میں تاخیر نہیں کی۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے پورے دورِ حکومت میں انھوں نے بھرپور طریقے سے ان حضرات کی معاونت کی اور ہمیشہ ان کے قریب ترین مشیر رہے۔ اور ان دونوں نے بھی ہر معاملے میں حضرت علی کی رائے کو مقدم رکھا۔
بلاشبہ صحابہ کرام وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق اس طرح ادا کیا کہ قرآنِ مجید نے بھی جگہ جگہ ان کے اخلاص اور قربانی کی گواہی دی ہے۔ قرآنِ کریم کی اس گواہی کے بعد ان لوگوں کی صداقت کے لیے کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں۔