Take a fresh look at your lifestyle.

مشکلات میں جینے کا فن 5 ۔ پروفیسر عقیل

پریشان ہونا چھوڑئیے، جینا شروع کیجئے
پروفیسر محمد عقیل

اصول نمبر 5۔ خود کو مصروف رکھیں
کیس اسٹڈی:
وہ بڑی افسردگی سے اپنی داستان الم دوست کو سنا رہا تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے توقف کیا اور پھر اپنی بات جاری رکھی:”میرا ایک سات سالہ بیٹا اور پانچ سالہ بیٹی تھی۔ ان سے میں بے حد محبت کرتا تھا۔ اچانک میری بیٹی کو ڈنگی بخار نے آلیا اور کچھ ہی عرصے میں وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔ اس کی موت کے بعد اللہ نے ہمیں ایک اور بچی سے نوازا لیکن پانچ دنوں کے اندر وہ بھی چٹ پٹ ہوگئی۔ یہ دونوں نقصان میرے لئے ناقابل تلافی اور ناقابل برداشت تھے۔ میرا امن و سکون رخصت ہوچکا تھا۔ مجھے نہ رات کو نیند آتی نہ دن میں آرام۔ بھوک پیاس کا احساس ختم ہوچکا تھا۔ ڈاکٹروں کے چکر لگائے تو کسی نے سکون آور ادویات تجویز کیں تو کسی نے سیرو تفریح کا مشورہ دیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میرا جسم شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہو اور وہ شکنجہ سخت سے سخت تر ہو رہا ہو۔ شب و روز اسی رنج و الم کی کیفیت میں گزر رہے تھے کہ ایک دوپہر میرا بیٹا میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ میں اس کے لیے ایک کشتی بنا دوں۔ میں اپنی پریشانیوں میں غلطاں تھا اور کسی کام کے موڈ میں نہیں تھا۔ لیکن بیٹا بھی دھن کا پکا تھا۔ اس کے مسلسل اصرار نے مجھے کشتی بنانے پر آمادہ کر ہی لیا۔

مجھے اس کے لیے کشتی بنانے میں تین گھنٹے لگے، جب کشتی مکمل ہوگئی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ تین گھنٹے جو میں نے کشتی بنانے میں صرف کئے وہ انتہائی انمول تھے۔ گذشتہ کئی ماہ کے دوران یہی تین گھنٹے مجھے ملے تھے کہ جن کے دوران میرا ذہن تفکرات اور پریشانیوں سے آزاد رہا اور مجھے کچھ سکون میسر آیا۔ اب مجھ پر یہ بھید کھل چکا تھا کہ اگر پریشانی، رنج اور الم سے بچنا ہے تو خود کو مصروف رکھنا پڑے گا۔ چنانچہ میں نے گھر، دفتر اور دوست احباب میں مصروف رہنے کے لیے ایک منصوبہ بندی کی۔ آج میں اتنا مصروف ہوں کہ میرے پاس پریشان ہونے کے لئے کوئی وقت نہیں۔” (ڈیل کارنیگی کی کتاب سے ماخوذ وضاحت)

ہماری اکثر پریشانیوں اور غموں کا سبب فارغ اوقات میں بیٹھ کر اوٹ پٹانگ سوچوں کو ذہن میں جگہ دینا ہے۔ فراغت میں کبھی آفس کی پریشانی یاد آتی ہے تو کبھی گھر کا کوئی مسئلہ۔ مردوں کے برعکس خواتین کو اکثر اپنی ساس یا بہو سے متعلق سوچیں آتی ہیں جس سے ان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ذہن میں آنے والی یہ سوچیں اگر اس قابل ہیں کہ انہیں حل کیا جائے تو کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو انہیں ٹالنے کا مشورہ دے گا۔ لیکن اگر یہ سوچیں اس نوعیت کی ہیں کہ آپ ان کو حل کرنے کے لیے فی الوقت کچھ نہیں کرسکتے یا پھر یہ سوچیں ان مسئلوں پر مبنی ہیں جن کو حل ہی نہیں کیا جاسکتا تو ایسی صورت میں ان سے چھٹکارا پانا لازمی ہے۔ یہ لایعنی سوچیں اور ناقابل حل پریشانیاں اگر ذہن میں پلتی رہیں تو یہ آہستہ آہستہ دماغ کے کونوں کھدروں میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ ان کی مثال کھٹملوں کی سی ہے جو چارپائی کے ایک ایک انگ میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اگر ان کا قلع قمع نہ کیا جائے تو یہ انڈے بچے دے کر اپنی نسل کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دیتے ہیں۔

ان سوچوں سے نجات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خود کو مصروف رکھا جائے اور غیر ضروری فراغت سے گریز کیا جائے۔ ایک پروفیسر جیمز ایل مرسل کیا خوب کہتے ہیں:
”جب آپ مصروف ہوتے ہیں تب پریشانیاں اور تفکرات آپ پر حملہ آور نہیں ہوتیں لیکن جب آپ کے کام کاج کے اوقات اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں اس وقت آپ کا ذہن بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے ایک موٹر فارغ چل رہی ہو اور اس کی توانائی کہیں استعمال نہ ہو۔ ایسی صورت میں یہ موٹر اپنے ہی پرزے جلا دے گی کیونکہ وہ بنا کسی لوڈ کے چل رہی ہے۔ یہی حال ایک فارغ ذہن کا ہے۔ اس لئے پریشانیوں اور تفکرات سے نجات کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ذہن کی موٹر کو کسی تعمیری کام میں مصروف رکھا جائے۔ اتنا مصروف کہ یہ سوچنے کا بھی وقت نہ ہو کہ آپ خوش ہوں یا ناخوش۔”

مصروفیت کے لئے چند اہم نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ مصروفیت اس نوعیت کی ہو کہ اس سے آپ کا ذہن اور جسم دونوں مصروف رہیں۔ جیسے اگر ایک عورت کپڑے تہہ لگے تو اس دوران میں اس کا دماغ مسلسل سوچوں میں غلطاں رہ سکتا ہے۔

اسی طرح مصروفیت مثبت اور تعمیری ہو۔ مثال کے طور پر گھنٹوں بلا مقصد ٹی وی دیکھنا خود کو تھکانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح کسی لڑائی جھگڑے میں خود کو مصروف کرنا بھی کوئی مناسب تدبیر نہیں۔ مصروفیت میں یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کسی قسم کا ذہنی یا جسمانی نقصان تو وابستہ نہیں۔

مثبت مصروفیات میں جو امور شامل ہیں ان میں کسی کے کام آجانا، کسی کھیل کود میں حصہ لینا، کسی سماجی سرگرمی کا حصہ بننا، کسی تحریر کا لکھنا، اولاد، بیوی یا شوہر کو وقت دینا، ماں باپ سے نیک سلوک کرنا، رشتے داروں کے مسائل نبٹانا، محلے کے اجتماعی مفاد میں اقدام کرنا، وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار سرگرمیاں ہیں جو آپ اپنے ذوق کے مطابق منتخب کرسکتے ہیں۔

اسائنمنٹ:
۔ آپ جائزہ لیں کہ شب و روز میں کتنے گھنٹے آپ فارغ رہتے ہیں؟ پھر فراغت میں آنے والی پریشانیوں کی فہرست بنائیں۔
۔ یہ دیکھیں کہ آپ کس طرح اپنی فراغت کو مثبت سرگرمیوں میں تبدیل کرسکتے ہیں؟
۔ اگر آپ پہلے ہی سے ایک مصروف زندگی گذارتے ہیں تو تحریر کریں کہ آپ اپنی مصروفیت کو مزید مثبت کس طرح بناسکتے ہیں۔

مطالعے کی عادت کیسے اپنائی جائے:
اس سائنسی دور کی بہت ساری ایجادات مثلاً ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ نے انسانیت کو جہاں بہت سارے فائدے پہنچائے ہیں وہاں ان ایجادات کی وجہ سے انسان کا رشتہ کتابوں سے کمزور پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے آج کے انسان کے پاس معلومات کا ذخیرہ تو بہت زیادہ ہے لیکن وہ اُس حقیقی علم سے محروم ہوتا جارہا ہے جو اس کی دنیوی و اُخروی زندگی کی کامیابی کے لئے انتہائی مطلوب ہے کیونکہ کتابیں آج بھی علم کا اصل ماخذ ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ مطالعہ کا انسان کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور اس بات کا مشاہدہ ہماری روزمرہ زندگی میں مطالعہ کرنے والے اور مطالعہ نہ کرنے والے لوگوں کے عادات و اطوار اور اخلاق و کردار میں واضح فرق کی صورت میں بھی کیا جاسکتا ہے اس لئے مطالعہ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیے کیونکہ مطالعہ ناصرف ایک بہترین مشغلہ ہے بلکہ انسان کے فارغ اوقات کا بہترین مصرف بھی ہے اور اس مطالعہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم کا عملی زندگی پر اطلاق کرکے ہم اپنی دنیاوی و اُخروی زندگیوں کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

ذیل میں کچھ تجاویز دی گئی ہیں جن پر عمل کر کے آپ مطالعہ کو اپنی زندگی کا جزو بنا سکتے ہیں:
۔ مطالعہ کی عادت کو اختیار کرنے کے لئے آغاز قرآن مجید کی تلاوت اور احادیث کے مطالعہ سے کیجیے اور اس کے لئے بہترین وقت نماز فجر کے بعد کا ہے۔ شروع میں روزانہ صرف 10 منٹ مطالعہ کے ساتھ آغاز کیجیے لیکن اس کو ہر صورت باقاعدگی سے روزانہ کرنے کی کوشش کیجیے۔ اس وقت میں سے بھی پہلے 5 منٹ قرآن مجید کی تلاوت کے لئے وقف کیجیے اور باقی 5 منٹ حدیث کی کسی کتاب کا مطالعہ کیجیے مگر اس میں ضروری بات یہی ہے کہ اس کام کوروزانہ بلا ناغہ کیا جائے۔ کچھ ہی عرصے میں یہ عادت آپ کی زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ اس سے نا صرف آپ کا دین سے تعلق قائم رہے گا بلکہ کتاب اللہ اور حدیث رسول کا باقاعدہ مطالعہ تزکیہ نفس کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ بصورت دیگر آپ وقت مقرر کرنے کی بجائے روزانہ کا ہدف بھی مقرر کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید کے چند رکوع کی روزانہ تلاوت کی جائے اور ساتھ ہی احادیث کی کسی اچھی کتاب میں سے روزانہ فقط ایک یا دو احادیث کا مطالعہ کر لیا جائے۔ مگرآپ اپنا روزانہ کا ہدف صرف اتنا مقرر کیجیے جو با آسانی مکمل کیا جا سکے۔

اگر قرآن مجید کے عربی متن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر بھی پڑھی جائے تو یہ اور بھی بہتر ہے اس کے لئے قرا ن مجید کی کسی عمدہ مگر مختصر تفسیر کا انتخاب کر لیجیے۔ اسی طرح مطالعہ حدیث کے لئے کسی عمدہ کتاب کا انتخاب کر لیجیے۔ امام نووی کی کتاب ریاض الصالحین احادیث کی ایک بہترین کتاب ہے جس میں فقہی مسائل کی بجائے فضائل اعمال اور تزکیہ نفس سے متعلق احادیث کو جمع کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ کتاب علماء کے ساتھ ساتھ عوام کے لئے بھی نہایت مفید ہے اس لئے اس کتاب کو ہر گھر میں ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ اربعین نووی بھی احادیث کی ایک مختصر مگر جامع کتاب ہے۔

جب نماز فجر کے بعد مطالعہ کی عادت پختہ ہو جائے تو پھر آپ روزانہ مطالعہ کے وقت اور ہدف میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں لیکن یہ اضافہ صرف اس حد تک کیجیے جس کے بارے میں آپ کو پختہ یقین ہو کہ آپ آسانی سے اُسے پورا کر سکیں گے۔

۔ اسی طرح قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر موضوعات پر کسی اچھی اسلامی کتاب کا انتخاب کیجیے اور روزانہ صرف 10 منٹ مطالعہ کیجیے جس کے لئے بہترین وقت رات کو سونے سے پہلے کا ہے۔ اس مطالعہ کو اپنے معمول کا حصہ بنائیے اور آپ کتنے ہی تھکے ہوئے کیوں نہ ہوں 10 منٹ مطالعہ لازمی کیجیے جب آپ کی یہ عادت پختہ ہو جائے تو اس وقت کو آہستہ آہستہ بڑھاتے جائیے لیکن 30 منٹ سے زیادہ مطالعہ مت کیجیے بس اسی معمول پرمسلسل اور سختی سے عمل کیجیے۔

۔ اسی طرح دیگر معلوماتی کتب کے مطالعے کے لئے روزانہ مختصر وقت مقرر کیجیے جن میں ایسی کتابوں کے مطالعہ کو اپنا معمول بنائیے جن کا تعلق آپ کی فیلڈ، انڈسٹری، تاریخ، تعمیر شخصیت، سائنس و ٹیکنالوجی، حالات حاضرہ یا آپ کی پسند کے کسی بھی موضوع سے ہو۔ ایسی کتابوں کے مطالعے کے لئے بہترین وقت آپ کے کام کرنے کی جگہ (workplace) یعنی دفتر، فیکٹری وغیرہ میں کھانے یا نماز کا وقفہ ہوسکتا ہے۔

۔ اپنی پسندیدہ کتابوں کی فہرست تیار کیجیے اپنے اردگرد لوگوں سے بہترین کتب کے بارے میں دریافت کیجیے اور جو کتابیں آپ کو دلچسپ معلوم ہوں ان کو اپنے پاس ایک فہرست میں محفوظ کرتے جائیے اور ان تمام کتب کا یکے بعد دیگرے مطالعہ کیجیے لیکن کوشش کیجیے کہ کوئی ضخیم کتاب اس فہرست میں شامل نہ ہو۔ کچھ ہی عرصے میں آپ بہت ساری بہترین کتابوں کا مطالعہ کرچکے ہوں گے۔

۔ کتابوں کا مطالعہ ایک بہترین مشغلہ ہے اس کو اپنے اوپر بوجھ نہ بنائیے بلکہ اس مشغلے سے لطف اندوز ہوں۔ دلچسپ کتابوں کا انتخاب کیجیے اپنی پسندیدہ کتابوں کو دوسروں کے ساتھ شئیر کیجیے اور ان کتب کے مطالعہ سے جو علم حاصل ہو اُس کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کیجیے۔ مطالعہ کے لئے کسی پرسکون جگہ اور آرام دہ کرسی کا انتخاب کیجیے اور اس بہترین تفریح سے لطف اندوز ہوں۔