Take a fresh look at your lifestyle.

مشکلات میں جینے کا فن 12 ۔ پروفیسر محمد عقیل

اصول نمبر12۔ برائی کا جواب برائی سے دینے کی قیمت
کیس اسٹڈی:
وہ آج دفتر میں داخل ہوا تو چپڑاسی نے کہا کہ صاحب یاد کر رہے ہیں۔ وہ آلتو جلالتو پڑھتا ہوا باس کے کمرے میں داخل ہوا۔ باس کا موڈ ٹھیک نہ تھا۔ ” تمہیں پتا ہے تم نے فراڈ کیا ہے؟ باس مخاطب ہوا لیکن اس کی نگاہیں بتا رہی تھیں کہ وہ اپنا جھوٹ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس نے فراڈ کا انکار کیا لیکن اس ملاقات کا انجام اس کی ملازمت برطرفی پر ہوا اور یوں باس نے اپنے دیرینہ انتقام کو پورا کر لیا۔ وہ منہ لٹکائے گھر واپس آگیا۔ باس کی شکل اسے دنیا کے قبیح ترین جانور سے ملتی جلتی نظر آرہی تھی، اندر غم و غصے کا ایک طوفان برپا تھا۔ ایک طرف بے روزگاری کا غم تو دوسری طرف انتقام لینے کی شدید خواہش۔ وہ اپنے ایک جاننے والے کے پاس پہنچا جو ایک پیشہ ور قاتل تھا۔ اس نے سارا کیس اس کے سامنے رکھ دیا۔
"مجھے ہر صورت میں باس کی لاش چاہئے اس کے بعد تم جو بولو گے ہوجائے گا۔” اس نے اپنے جاننے والے پیشہ ور قاتل سے کہا۔ اس نے جواب دیا کہ تم ابھی جاؤ اور ایک مرتبہ پھر سوچ لو۔ کل بات کریں گے۔ وہ واپس تو آگیا لیکن اس یقین کے ساتھ کہ کل بھی وہ یہی کہے گا اور باس کا خون کروا کے ہی دم لے گا۔

رات کو جب سونے کے لئے لیٹا تو نیند کوسوں دور تھی۔ اس نے دو نیند کی گولیاں پھانکیِں اور سونے کے لئے لیٹ گیا۔ آنکھیں بند ہونے کے باوجود اس کا لاشعور اسے وہی دکھاتا رہا۔ اس کے سامنے اس کے باس کی لاش پڑی ہے اور اس کے سینے پر پاؤں رکھ کر وہ قہقہے لگا رہا ہے۔ پھر منظر بدلتا ہے۔ اس کا دوست اس سے اس سے قتل کی قیمت وصول کرنے آجاتا ہے۔ یہ قیمت پیسوں سے نہیں بلکہ ٹارگٹ کلر بن کر ہی چکائی جا سکتی تھی۔ یوں وہ ایک ٹارگٹ کلر بن کر لوگوں کا خون کرنا شروع ہی کرتا ہے کہ اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ منہ دھو کر اٹھتا ہے اور اب اس کا رخ اپنے دوست کی جانب نہیں بلکہ نئی ملازمت کی تلاش کی طرف تھا۔ اس نے انتقام کی مہنگی قیمت چکانے کی بجائے اس واقعے کو فراموش کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

وضاحت:
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ دنیا ہم نے نہیں بنائ ۔ اسی لئے یہاں ہر روز ایسے واقعات درپیش ہوتے ہیں کہ جن میں ہمیں لوگوں سے شکایت ہوتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ شکایت جائز ہے یا ناجائز، ہم اپنے مخالفین سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری نفرت ہمارے دشمنوں کو وہ قوت فراہم کرتی ہے جس سے وہ باآسانی ہم پر غلبہ پا سکتے ہیں۔ اگر ہمارے دشمنوں کو یہ بات پتا چل جائے کہ ہم کس قدر پریشان ہیں تو وہ خوشی سے بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیں ۔ ہماری نفرت، پریشانی، لعنت ملامت اور حسد سے دشمنوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ ہماری اپنی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔

اس کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے دشمنوں سے پیار کریں اس لئے نہیں کہ واقعی ہمیں ان سے پیار ہے بلکہ اس لئے کہ ہمیں اپنے آپ سے پیار ہے۔ دشمنوں سے انتقام لینے کی قیمت دینے کی بجاِئے دشمنوں کو معاف کر دیں اور ناخوشگوار واقعے کو بھول جائیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو انتقام کی قیمت چکانے کے لئے تیار ہوجائیں۔

اسائنمنٹ:
۔ اپنے مخالفین کی فہرست بنائیے اور اختلاف کی وجہ بھی لکھیں۔
۔ یہ لکھیں کہ اگر آپ بدلہ لیں گے تو اس کی قیمت کیا ہو گی؟
فراموش کرنے کی عادت ڈالیں کیونکہ آپ اپنے دشمن نہیں دوست ہیں۔