Take a fresh look at your lifestyle.

مزاجی ڈائٹنگ ۔ محمد تہامی بشر علوی

آپ یوٹیوب کھولتے ہیں، سامنے دو ویڈیوز نظر آتی ہیں۔ ایک پر لکھا ہے ’’مریم کے بارے میں انکشافات‘‘ جبکہ دوسری پر لکھا ہے ’’عمران خان کے 11 نکات‘‘۔ آپ کی طبیعت یہی چاہے گی کہ پہلے مریم نواز کے بارے انکشافات سن لیے جائیں۔ نون لیگ والے وہ انکشافات اس ذہن سے سنیں گے کہ جوابی حملے کی تیاری کی جاسکے جبکہ پی ٹی آئی کے دوست یہ معلومات حاصل کرکے مخالفین سے جنگ میں استعمال کرسکیں گے۔ یہی معاملہ تب ہوگا جب ہم ’’عمران خان کا سکنڈل‘‘ اور’’میاں صاحب کا وژن‘‘ کے عنوانات کی ویڈیوز میں سے پہلے سکنڈل کی ویڈیو کو کلک لگانا پسند کریں گے۔

آپ سیاسی شخصیات کو ایک طرف کر کے مذہبی لوگوں کی دلچسپیوں پر بھی غور کرسکتے ہیں۔ یوٹیوب پر دو عنوانات سے ویڈیوز ڈالیے، ایک کا عنوان یہ ہو ’’فکر امام احمد رضا، مقرر مفتی منیب الرحمان صاحب‘‘ اور دوسری کا عنوان یہ رکھ لیجیے ’’وہابیوں کا آپریشن، مقرر مفتی حنیف قریشی‘‘۔ ایک مہینے بعد دونوں ویڈیوز کے ویورز کی تعداد ملاحظہ فرمائیے آپ کو حنیف قریشی صاحب کی آپریشن والی ویڈیو پر زیادہ ویورز نظر آئیں گے۔ آپ انفرادی سطح پر بھی یہ تجربہ دہرا سکتے ہیں۔ آپ رات گئے کسی دوست سے کہیے دل کرتا ہے کہ آج ہم اقبال کے تصور خودی پر ڈسکس کرلیں، دوست کا غالباً جواب یہی ہوگا کہ ابھی نیند کا غلبہ ہے تھکاوٹ ہے، چلیے پھر کسی وقت جمع ہوکر ہم ڈسکس کرلیں گے۔ آپ شدید تھکاوٹ میں کسی اگلی رات اسی دوست کے پاس آئیے اور کہیے کہ آج مجھے محلے کی فلاں لڑکی کا قصہ معلوم ہوا ہے مگر وہ قصہ ذرا طویل ہے، آپ تھکے ہوئے ہیں، رات بھی کافی بیت چکی، آپ ابھی سو جائیں ہم صبح ڈسکس کرلیں گے۔ ایسے موقع پر دوست کے لہجے کی بشاشت دیکھنے کی ہوگی، اس کا تقاضہ ہوگا کہ ’’نہیں بھئی ابھی مجھے ویسے بھی نیند نہیں آرہی، قصہ سنا لیں رات اپنی ہے سو لیں گے۔ آپ نے غور کیا، انفرادی سطح سے لے کر سیاسی و مذہبی سطح پر ہم میں کس قسم کا ذوق پروان چڑھ چکا ہے؟ ہمارے ساتھ انجانے میں یہی حادثہ ہوچکا ہے کہ ہمارے دل پستیوں سے لگ چکے ہیں، ہم کسی بھی مثبت چیز سے اکتا چکے ہیں، ہمیں اپنے سیاسی و مذہبی راہنماؤں میں وہ زیادہ پسند ہے جو مخالفین کو کڑوی کڑوی سنا ڈالے۔ بگاڑ کی وہ قسم جو ہمارے مزاج کو لاحق ہوچکی ہے اس کی فکر بھی ضروری ہے۔ بگڑے مزاج کی قوم کسی اچھے ملک میں بھی چین کا سانس زیادہ دیر نہیں لے سکتی۔ بریلوی نوجوانوں کے جذبات کی جو ترجمانی مولانا خادم حسین رضوی نے کی ہے وہ مفتی منیب الرحمان کے ہاں نہیں ہوپاتی۔ یہی وجہ ہے کہ بریلوی جوان اپنے اندر پیدا شدہ جذبات کی تسکین کے لیے مولانا خادم رضوی کی تقاریر سننے کو ترجیح دے گا۔ مجھے یاد ہے جب میں نے مولانا حسین احمد مدنی کی ایک کیسٹ خریدی تھی، تب ایک دوست نے کہا تھا کہ حضرت بہت آہستہ آہستہ بیان کرتے ہیں ایسی تقریر میں نہیں سن سکتا۔ اس نوجوان کی دلچسپی مولانا حق نواز جیسے پرجوش خطبا کو سننے میں تھی، ایسی صورت حال میں ہمیں اپنے مزاج کو معیاری بنانے کے لیے مفید علمی چیزیں سننے کی طرف موڑنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اپنے مزاج پر جبر کرنا ہوگا۔ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی مثبت باتیں سننی ہوں گی۔ ہمیں اپنے ذوق کو مثلاً ’’فلاں کا سکنڈل‘‘، ’’فلاں کی ویڈیو وائرل‘‘ اور ’’فلاں کا آپریشن‘‘ وغیرہ سے مثلاً ’’اسلام کا تصور صبر‘‘، ’’جمہوریت کی تاریخ‘‘، ’’کارل مارکس کا تصورمعیشت‘‘ اور ’’اقبال کا تصور خودی‘‘ وغیرہ جیسے موضوعات کی طرف پھیرنا ہوگا۔ اپنے ذوق کو منفی ذائقوں کے نشے سے نکال کر مثبت ذائقوں کے نشے میں ڈالنے کے لیے ہمیں خود پر جبر کرنا ہوگا۔ ہمارے خود پر اس جبر کے نتیجے میں مزاجوں میں بلندی پیدا ہوگی۔ اسی بلند مزاجی پر بلند اخلاقی اقدار قائم ہوسکیں گی۔ ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ معاشرے انسانوں سے بنتے ہیں۔ ہم ترقیاتی پہلو سے اچھا ملک بنا بھی لیں مگر وہاں بسنے کو اچھے انسان نہ ہوئے تو ہم میں سے کوئی بھی انسانی زندگی نہ جی سکے گا۔ ہمیں اپنی نسلوں کو جینے کے لیے انسانی معاشرہ فراہم کرنا ہوگا۔ اگر ہمارے مزاج کی پستیاں اگلی نسل کو ورثے میں ملتی رہیں تو ہم اپنے ساتھ اگلی نسل کے بھی مجرم ہوں گے۔

آئیے عزم کرتے ہیں کہ اپنے پست مزاج کو پست باتوں کی غذا دینا اگر بالکل ختم نہیں تو کم کرلیتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نا کچھ مثبت اور اعلی باتوں کے عادی بنیں گے۔ اس کے لیے ہمیں خود پر جبر کرنا ہوگا۔ ایک قسم کی ’’مزاجی ڈائٹنگ‘‘ کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ ہمارا پست مزاج جتنا توانا ہوا پڑا ہے اسی حساب سے اس کی ڈائٹنگ ضروری ہوچکی ہے۔ ہمارا پست مزاج، پست چیزیں چاہے بھی تو ہمیں اسے بھوکا رکھنا ہوگا۔ پست ذوقی سے اعلیٰ ذوقی کا یہ سفر خود پر جبر کے سوا نہیں کٹ سکتا۔ ہمارے سامنے اب دو ہی راستے ہیں:
اسی پست ذوقی پر قناعت کر کے نسلوں کو انسانی شرف سے محروم کر دیں یا اعلیٰ ذوق کے لیے خود پر جبر کر کے اس ’’مزاجی ڈائٹنگ‘‘ کے مجاہدے سے گزریں۔

میں جانتا ہوں کہ پستی کا نشہ اتارنا اتنا آسان نہیں۔ مگر دیکھیے کہ مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں ہماری نسلوں کا بھی ہے۔ ہم خود پست ذوق معاشرے میں آگرے ہیں تو کیوں اگلی نسل کو بھی ایسا معاشرہ تحفے میں دے مریں؟ اگر ہم پست ذوق معاشرے میں پلی اولادیں ہیں تو لازم نہیں کہ اپنی اولادوں کو بھی پست ذوق معاشرہ بخش دیں۔ آئیے اعلیٰ ذوق کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اس عزم کے ساتھ کہ کسی پست چیز کا شوق نہیں رکھیں گے۔