میں کس جماعت کا ہوں؟ مولانا تہامی بشر علوی
جس ذہن کو زندگی میں کبھی اپنی انفرادی شخصیت کا تجربہ نہ ہو پایا ہو، اس کے لیے یہ تصور قریباً ناممکن ہی ہوجاتا ہے کہ کسی شخص کا غیرجماعتی وجود کیسے ممکن ہے؟ پھر جہاں خود فراموشوں کی اک اچھی خاصی تعداد آباد ہوچکی ہو، وہاں فرد کی کسی انفرادی حیثیت کا ادراک بھی ممکن نہیں رہتا۔ اب معاملہ سیاسی ہو یا مذہبی لوگوں کے دیکھنے کا انداز یوں بن جاتا ہے کہ ”کون کس جماعت کا ہے؟” برسوں سے ایسی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا لوگوں کے لیے کسی انسان کو ”صرف فرد” کی حیثیت سے دیکھنا ناممکن ہی ہوجاتا ہے۔
چنانچہ وہ جب کسی مذہبی یا سیاسی معاملہ پر کسی کے خیال کو جانتے ہیں تو ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ کہی گئی بات کیا ہے اور وہ کس دلیل پر کہی جارہی ہے۔ ایسے میں ذہن جاتا بھی ہے تو اس طرف ہی جاتا ہے کہ جس معاملہ میں کوئی بات کہی گئی ہے وہ کس جماعت کے حق میں کہی گئی ہے۔ اب اگر وہ بات ان کی اپنائی گئی کسی جماعت کے حق میں محسوس ہو تو وہ سمجھنے کے تکلف کے بغیر ہی تائید کریں گے اور اگر بات ان کے جماعتی تعصبات کے مطابق محسوس نہ ہو رہی ہو تو بن سمجھے مخالفت پر اتر آئیں گے۔ ایسے ذہنی ماحول میں کوئی بات اپنی ذات میں درست یا غلط نہیں ہوتی بلکہ کسی جماعتی عصبیت کی بنیاد پر رد یا قبول ہوتی ہے۔ فلاں بات قبول ہے، اس دلیل کے ساتھ کہ وہ میری جماعت کے حق میں ہے، جبکہ فلاں بات رد ہے اس لیے کہ وہ دوسری جماعت کے حق میں کیوں ہے؟
اس روش پر جینے والے انسانوں کی عقلی زندگی مکمل تباہ ہوجاتی ہے۔ ایسی زندگی میں زندگی کے نام پر جو چیز بچ پاتی ہے اسے جذباتی زندگی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ زندگی پھر ”کنٹرولڈ بائی مائنڈ” ہونے کی بجائے ”کنٹرولڈ بائے ایموشنز” ہوتی ہے۔ یہ زندگی ”ریزن بیسڈ” ہونے کی بجائے ”ایموشن بیسڈ” ہوجاتی ہے۔ ایسے افراد چوں کہ ذاتی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں، اس لیے وہ اپنے وجود کے احساس کے لیے کسی نوعیت کی جماعتی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عقلی زندگی تباہ ہو جانے کے بعد وہ کسی جماعت سے کوئی عقلی وابستگی بھی نہیں رکھ پاتے۔ وہ کسی جماعت سے وابستگی بھی جذباتی بنیادوں پر رکھ پاتے ہیں۔
ایسی زندگی کے پھر اپنے لوازمات ہوتے ہیں جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ البتہ ایسی جذباتی زندگی کا ایک اہم وصف یہ ہوتا ہے کہ جلد ہی پرستش کے جذبات میں ڈھل جاتی ہے۔ اسے جو ماننا ہوتا ہے کسی بے عیب معبود کی طرح ماننا ہوتا ہے اور پورا ماننا ہوتا ہے۔ اور جسے رد کرنا ہوتا ہے مکمل رد کرنا ہوتا ہے۔ اس نوعیت کی جذباتی کیفیات جس قسم کا نفسیاتی مزاج تشکیل دیتی ہیں اسے ”ردِّ کل یا قبول کل” کی نفسیات کہا جاسکتا ہے۔
پرستش کے جذبات عشق کے جذبات ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اپنی معشوق جماعت یا فرد کو مکمل قبول کرنا ایسے فرد کی مجبوری بن جاتا ہے۔ وہ اپنی جماعت کی معمولی خوبیوں کو غیرمعمولی ثابت کرے گا اور خامیوں کی تاویل کر کے جماعت سے عشق نبھائے گا۔ یہیں پر بس نہیں وہ ہر فرد سے یہی چاہتا ہے کہ وہ اس کی معشوق جماعت سے وابستہ ہو اور اسی عشق کے ساتھ وابستہ ہو جس میں وہ مبتلا ہے۔ دوسروں سے وابستگی کی ایک سطح عقلی بھی ہوتی ہے۔ اس وابستگی کی علامات یہ ہوتی ہیں کہ ایسا انسان کسی جماعت یا فرد سے وابستہ ہونے کے بجائے اس جماعت یا فرد کی خوبیوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ اسے کوئی خوبی اپنی وابستگی کے دائرے سے باہر بھی مل رہی ہو تو بلاتامل قبول کرلیتا ہے۔ اس نے چوں کہ اپنی اپنائی گئی شخصیت یا جماعت کی پرستش نہیں کرنی ہوتی اس لیے اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی جماعت یا شخصیت کی بعض چیزیں قبول کر لے اور بعض رد کر دے۔ اسے اپنے وجود کے احساس کے لیے کسی غیر میں ضم ہوجانے کی مجبوری لاحق نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ کہیں ضم ہو کر اسے معصوم باور کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس کا ممدوح مجروح ہونے سے اس کی اپنی شخصیت مجروح نہیں ہوتی۔ وہ کہیں منسلک ہو کر بھی اپنے انفرادی وجود سے محروم نہیں ہوجاتا۔ اس کے ہاں رد و قبول کا معیار کوئی دلیل ہوتی ہے نہ کہ کوئی جذباتی وجہ۔ اس کے برعکس عقلی وجود سے محروم، ”ردِّ کل یا قبول کل” کے مزاج کا حامل فرد اپنی انفرادی ذات کو کسی غیر میں مکمل ضم کرلیتا ہے۔ وہ اس خبط میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اس کے ممدوح کی خوبیاں گویا اس کی خوبیاں ہیں اور اس کے ممدوح پر نقد گویا اس پر نقد ہے۔ بلکہ وہ غیر چونکہ اس کا قائم مقام معبود ہے اس لیے اسے بے عیب دیکھنا اور دکھانا اس کا جذباتی تقاضا بن جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ہی اپنی شخصیت کو فنا کرکے ”جیالے” کے روپ میں ظہور کرلیتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا فرد اپنی انفرادیت کو فنا کر کے ایک قسم کی غیر زندگی جی رہا ہوتا ہے۔
جس سماج میں انفرادی زندگی سے محروم کثرت میں ہوں تو وہاں انفرادی زندگی کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے سماج میں کسی ایسی انفرادیت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جسے کسی بھی نوعیت کی اجتماعیت کی تائید حاصل نہ ہو۔ ایسے سماج کا فرد اس سوال سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ ”آپ کسی مسئلہ پر کس طرح سوچتے اور کیا رائے رکھتے ہیں۔” کسی رائے کو جاننا اس کی دلچسپی میں شامل ہی نہیں ہوتا۔ اس کا سوال شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے کہــ ”آپ کس جماعت سے ہیں یا آپ کس جماعت کی تائید کرتے ہیں۔” گویا سائل یہ فرض کرچکا ہے کہ یہ تو طے ہے کہ کسی جماعت کا ہونا ضروری ہے بس یہ واضح کر دیا جائے کہ آپ کی جماعت کون سی ہے۔
میں ذاتی طور پر کسی انفرادیت کش اجتماعیت کے تصور کا قائل نہیں ہوں، اس لیے اس سوال کو اپنے سے متعلق نہیں پاتا۔ میری دلچسپی کسی زیرِ بحث مسئلہ پر درست تر رائے تک پہنچنا ہوتی ہے نہ کہ کسی جماعت یا فرد کی تائید یا تردید۔ میں ایسی اجتماعیت افوڈ نہیں کرسکتا جو میری انفرادیت کی قاتل ثابت ہو۔
میرے ہاں اجتماعیت کا جو تصور انسانوں کے لیے موزوں بلکہ ناگزیر ہے، اس طرح کی اجتماعیت ہماری مذہبی یا سیاسی جماعتوں میں فی الحال موجود نہیں۔ جس طرز کی اجتماعیت کا روپ ہماری مذہبی و سیاسی جماعتوں نے دھار رکھا ہے اس سے وابستگی کی کم از کم شرط بھی، شرفِ انسانی سے محرومی ہے جس کی مجھ بشر ذات میں تاب ہی نہیں۔ انھی مجبوریوں کی وجہ سے میں کسی جماعت کو مکمل طور پر نہیں اپنا سکتا۔
اس تفصیل کے بعد خلاصہِ کلام یہ ہوا کہ، ”الحمد للہ میرا عقلی وجود چونکہ ابھی سلامت ہے۔ میں کسی جماعت کا حصہ اپنے عقلی وجود کے ہمراہ ہی بن سکتا ہوں۔ جس کا تقاضا یہ ہوگا کہ جماعتوں کے منشور اور پالیسی میں میری رائے کی پوری اہمیت ہو۔ مجھے حق حاصل ہو کہ جماعت کے منشور یا پالیسی سے اختلاف کرسکوں۔ چونکہ موجودہ مذہبی یا سیاسی جماعتوں میں عقلی وجود کے ہمراہ شمولیت ممنوع ہے۔ یہ تمام جماعتیں درحقیقت ”عقل فری جیالوں کا کلب” بنی ہوئی ہیں۔ میں چوں کہ انسان ہوتے ہوئے جیالہ نہیں بن سکتا۔ سو اس لیے کسی جماعت کا باقاعدہ رکن بننے سے معذور ہوں۔ میرے لیے ایسے میں جو ممکن ہے وہ یہی کہ جس جماعت میں جو اچھائی موجود ہو اس کا اعتراف کرلوں اور جس کی جس پالیسی سے اختلاف ہو وہ بھی کر گزروں۔ یہ ممکن ہے ایک مسئلہ میں ایک جماعت کا موقف درست ہو اور دوسرے مسئلہ میں دوسری جماعت کا۔ میں چونکہ جماعتی امور میں ”ایموشن بیسڈ” اپروچ کا حامل نہیں ہوں اس لیے میرا معیار ”اپنی جماعت کا فیور” نہیں ہے۔ لہذا میں ”درست اور غلط” کے معیار کو سامنے رکھ کر کسی مسئلہ پر اظہار خیال کیا کرتا ہوں۔ جب آپ کو یہ محسوس ہورہا ہوتا ہے کہ کل میں نے ایسی بات کہی جو آپ کی جماعت کے فیور کی ہے اور پھر کوئی ایسی بات کہی جو اس کے فیور میں نہیں ہے تو یہ نہ سوچا کیجیے کہ میں کل آپ کی جماعت کا تھا اور آج کسی اور جماعت کا ہو گیا۔ بس اتنا سوچ لیا کیجیے کہ جہاں آپ کی جماعت کی تائید کی گئی وہاں اس کا موقف درست تھا اور جہاں تائید نہ کی گئی وہاں میری رائے میں اس کا موقف درست نہ تھا۔ میں چوں کہ جیالہ نہیں ہوں اس لیے کسی جماعت کے بارے میں ”قبولِ کل” کی نفسیات مجھ میں نہیں ہیں۔ اگر آپ بھی اپنا عقلی وجود تحلیل کر لینے کے بعد کسی جیالے کی سی زندگی جی رہے ہیں تو یہ بات بھی آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔ ایسے میں آپ بھی مجبور اور میں بھی مجبور۔ امید ہے سوال کا جواب ہوگیا ہوگا”۔