مال اور حوصلہ ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ اللہ انہیں مال دے گا تو وہ لوگوں پر کثرت سے خرچ کیا کریں گے۔ اس لیے وہ اللہ سے کثرت مال کی بہت دعا کرتے ہیں۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ طلبِ مال کا مقصد یہی ہے تو پھر صرف مال کی دعا مت کیجیے بلکہ اللہ سے مال خرچ کرنے کا حوصلہ بھی مانگیے۔ اس لیے کہ پیسے خرچ کرنے کا تعلق اس بات سے نہیں ہوتا کہ آپ کے پاس مال کتنا ہے۔ زیادہ تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ میں حوصلہ کتنا ہے۔
مال خرچ کرنا ایک عظیم ترین عبادت ہے۔ اس کی جتنی فضیلت قرآن و حدیث میں آئی ہے کم ہی کسی اور عبادت کی آئی ہوگی۔ نیکی کا سات گنا تک اجر اور اللہ کو قرض دینے جیسے عظیم مقامات کا بیان قرآن مجید میں مال خرچ کرنے کے حوالے ہی سے ہوا ہے۔ مگر مال کی ایک عجیب خصوصیت ہے۔ یہ جیسے ہی انسان کے پاس آتا ہے، اسے گن گن کر رکھنے، سمیٹنے، جمع کر لینے، تجوری اور بینک بیلنس بھر لینے کی خواہش بڑھتی چلی جاتی ہے۔
انسان بہت حوصلہ کرے تو وہ اس مال کو اپنی ذات اور خواہشات پر خرچ کر دیتا ہے۔ مگر یہ مال دوسرے پر خرچ کیا جائے اور اپنا مال لوگوں کو دیا جائے یہ حوصلہ شاذ و نادر ہی لوگوں میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ حوصلہ صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جن پر اللہ کا خصوصی فضل ہو۔ یہ وہ بندے ہوتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنی رحمتوں کے لیے چن لیتے ہیں۔ ان کے دل میں انسانیت کا درد، رشتہ داروں کی محبت اور خدا کے دین کی نصرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔
جس کے بعد انسان مال کے کم ہو جانے کے خیال سے نہیں گھبراتا۔ وہ خرچ کرتا ہے اور اللہ اسے اور دیتا ہے۔ کبھی تنگی بھی ہوجائے تب بھی ان کا ہاتھ نہیں رکتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو روز قیامت اللہ کو قرض دینے والے اور نیکیوں کا اجر سات گنا تک پانے والے بنیں گے۔