کتابوں کی نمائش 2018، ایکسپو سینٹر ۔ ثمر عمیر
کتابوں کی نمائش 2018 جس کا انعقاد expo center میں کیا گیا، خوش قسمتی سے مجھے وہاں میری پانچ سالہ صاحبزادی کے ساتھ جانا نصیب ہوا۔ ادارہ انذار کا سٹال ہال نمبر 2 اسٹال نمبر 16 پر مجھے کچھ وقت کھڑے ہونے کے فرائض انجام دینے تھے۔ ادارے کے سربراہ اور مصنف ابو یحییٰ کی دیگر تصانیف کے علاوہ ان کا مشہور ناول ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کا تعارف کرواتے ہوئے مجھے جن باتوں کا تجربہ پیش آیا وہ کسی حد تک دلچسپ ہیں جسے میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گی۔
انسانوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے بہت سی باتیں سیکھنے اور غور کرنے کی ہوتی ہیں جس سے انسانی نفسیات کا علم ہوتا ہے، انسان کی سادگی، مروت، خوف، شخصیات کا تنوع، خوش اخلاقی، خوش مزاجی، احترام انسانیت، علم دوستی اور رب سے گہرا تعلق جیسی اعلیٰ صفات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کتاب کی نمائش میں آنے والے لوگوں میں بزرگ، نوجوان خواتین و حضرات اور بالغ نوجوان لڑکے لڑکیاں، اسکول اور مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد بھی ذاتی دلچسپی کی بنا پر موجود دکھائی دیے، میرا تجزیہ بزرگوں اور جوانی کی عمر سے گزر کر عمر کے آخری حصے میں قدم رکھنے والوں کے حوالے سے یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی عمر گزار لی ہے لہٰذا اصلاح نفس ان کے لیے کوئی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ یعنی کچھ مایوسی ان کے رویے سے جھلکتی نظر آئی جس کی ایک وجہ ناول کے عنوان پر غور نہ کرنا بھی تھا ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ سے ان کا تاثر دنیوی زندگی کے حوالے سے بنا کیونکہ انہوں نے برملا کہا ۔۔۔ ارے میری تو زندگی ختم ہو رہی ہے ۔۔۔ میں نے کہا یہی تو بتایا گیا ہے اس ناول میں کہ ابھی زندگی شروع ہی کہاں ہوئی ہے؟
ایک صاحب جو کہ ادھیڑ عمر تھے، ان کو میں نے کہا کہ ابھی بھی وقت تو باقی ہے جس پر وہ مسکرا دیے۔ گہرائی سے اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ابھی تک ہم روایتی مسلمانوں کی طرح زندگی گزارتے چلے جارہے ہیں اس لیے آخرت کے بارے میں شعوری طور پر یقین کرنا یا اس کا سوچنا ہمارے لیے انتہائی اجنبی ہے۔ اس لحاظ سے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے سنجیدگی کے ساتھ سوچا جائے، اس کی تیاری کی جائے، یا اس کے لیے کوئی پلاننگ کی جائے۔ یا یہ کہ ہماری موجودہ زندگی کی طرح وہ بھی زندگی ہے جس میں ہم سب نے جانا ہے۔ یا یہ کہ وہ ہمیشگی کی زندگی ہے اور یہ دنیا عارضی جگہ ہے وغیرہ۔۔۔ مثبت پہلو اس کا یہ ہے کہ جب ہم اس طرح کی activity سے گزرتے ہیں تو جن لوگوں تک ہم عام حالات میں کسی طرح بھی نہیں پہنچ سکتے ان کے بھی کانوں میں کچھ اس یاد دہانی کی گونج بالواسطہ پہنچ جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو کتاب سے متعارف کرواتے ہوئے جیسے ہی قیامت کا ذکر آیا انہوں نے ڈر کے مارے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ سب سے اچھا تجربہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے گروپ کے ساتھ رہا، ان کی سلیم الفطرتی اور دلچسپی قابل دید تھی، صرف بات ان کے معیار پر سمجھانے کا ڈھنگ اور ان کی زندگیوں سے متعلق کرکے اس کو بیان کرنے کی دیر ہوتی ہے۔۔۔ ان کی فطری ہدایت کے نور کی تابناکی محسوس کی جاسکتی ہے۔ البتہ رہنمائی کرنے والوں کے پاس حکمت ہونا ضروری ہے۔ ناول کی صورت میں قیامت کو بیان کرنا ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ الحمد للہ ایک طبقہ ان تمام تصانیف سے پہلے ہی واقف ہے اور وہ اسی لیے مزید نئی کتابیں خریدنے کے لیے تشریف لاتے رہے۔
’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کا آخری حصہ ’’خدا بول رہا ہے‘‘، بھی خریداروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا رہا، ناول کے حوالے سے تعارفی جملے بیان کرتے ہوئے یہ جملہ ان لوگوں کے لیے کسی حد تک دلچسپی کا باعث تھا ۔۔۔ کہ۔۔۔ modern life style میں جو حالات ہیں اس میں کوئی کیسے ایمان و اخلاق پر قائم رہ سکتا ہے؟ ایک جوڑا جو اسی طرح کی زندگی گزار رہا تھا وہ کیسے آخرت کے حوالے سے فکر پر آمادہ ہوا؟ یہ باتیں اس ناول میں آپ جان سکتے ہیں۔ یہ سن کر بھی کچھ نوجوان اور کچھ بڑی عمر کے لوگ جو پہلے سے کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے ان باتوں کو سننے کے لیے رک جاتے تھے۔
’’قرآن کا مطلوب انسان‘‘ کے حوالے سے آگاہی ناول کی تفصیلات کے بعد ہمارا ہدف تھی۔۔۔ الحمد للہ لوگ چاہتے ہیں کہ سمجھیں اور سیکھیں۔بعض ایسے بھی تھے جو قرآن کا ترجمہ پڑھ کر براہ راست اپنی ہدایت کا سامان کر رہے ہیں، ان کے لیے بھی اس کتاب اور کورس میں موجود تفصیلات علم میں اضافے کا باعث بنیں۔۔۔ جب دعوت کا کام اخلاص نیت اور دعوت کے شعوری جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے تو خود اپنے لیے ایمان کی حلاوت اور اپنی اصلاحِ نفس کا سامان بھی پیدا ہوتا ہے۔ روحانی سکون اور طمانیت حاصل ہوتی ہے جو مقصد حیات پر زندگی گزارنے (یعنی زندگی بندگی ہے) کے احساس کے ساتھ اپنے کمال کو چھوتی ہے۔ اور دل سے یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ زندگی ایسے کارآمد کاموں کی نذر ہو جائے۔ حق زندگی اور حق بندگی ادا ہو جائے۔
دعوتی عمل کے علاوہ اس طرح کی نمائش نفیس ذوق کے حامل لوگوں سے ملاقات کے مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔ بچوں کو لے جانے کے بھی بڑے فوائد ہیں میری پانچ سالہ صاحبزادی نے پمفلٹ بانٹنے میں اس قدر دلچسپی سے حصہ لیا کہ کتابیں اور کلرنگ بک خریدنے کی خواہش پر یہ ایکٹیویٹی اس کے لیے غالب رہی۔ رائیٹر اور عظیم شخصیات سے ملاقات کا موقع بھی بچوں کی شخصیت کو بنانے میں اہم کردار کا حامل ہے۔