خدائی لہجہ اور بندگی کا لہجہ ۔ ابویحییٰ
اس دنیا میں دو طرح کے انداز گفتگو اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک کے لیے خدائی لہجے کی تعبیر موزوں ہے اور دوسرے کے لیے بندگی کے لہجے کی۔ خدائی لہجہ وہ ہوتا ہے جو تکبر سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ تکبر کبھی اپنے مقام اور عہدے کا ہوتا ہے۔ کبھی علم کا اور مشیخیت کا، کبھی خاندان اور نام و نسب اور کبھی کبھی بغیر کسی وجہ کے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
اس لہجے میں انسان کی آواز بلند ہوتی ہے۔ اپنی بڑائی کا ذکر ہوتا ہے۔ اپنے صحیح ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ الفاظ میں کاٹ ہوتی ہے۔ طنز و تعریض ہوتا ہے۔ دوسروں پر الزام ہوتا ہے۔ ان کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ ان کی ہر بات کی نفی کی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس لہجے میں بدتمیزی کے ساتھ اپنی بڑائی کا جذبہ پوری طرح نمایاں ہوتا ہے۔
تاہم اس دنیا میں۔ خدا کی اس دنیا میں۔ اس لہجے کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ لہجہ خدا کے حضور بدترین ذلت اور رسوائی کا سبب بنے گا۔ رہے انسان تو ہر سلیم الفطرت شخص اس لہجے کو ایک گدھے کے شور مچانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتا۔
دوسری طرف بندگی کا لہجہ ہوتا ہے۔ اس میں بھی اعتماد ہوسکتا ہے۔ یقین ہوسکتا ہے۔ تنقید بھی ہوسکتی ہے۔ مگر یہ بدتمیزی کا لہجہ نہیں ہوتا۔ یہ لہجہ تحقیر کا لہجہ نہیں ہوتا۔ اس کے اعتماد کے پیچھے علم، تجزیہ، یقین، تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس میں اگر تیزی ہو تو اس کے پیچھے اخلاص اور تندی ہو تو اس کے پیچھے درد ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ لہجہ اعتراف کا لہجہ ہوتا ہے۔ یہ احترام کا لہجہ ہوتا ہے۔ اس لہجے کو سن کر اصلاح ہوتی ہے۔ خیر جنم لیتی ہے۔
یہ دوسرا لہجہ خدا کے محبوب بندوں کا لہجہ ہوتا ہے۔ اس لہجے کے ساتھ جینے والے خدا کے فرشتوں کی معیت میں جیتے ہیں۔ اور مرتے ہیں تو خدا کے قرب و شرف کا مقام حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ لہجہ ہے جسے اختیار کرنے کی کوشش ہر شخص کو کرنی چاہیے۔