جمہوریت، آمریت، خلافت ۔ ابویحییٰ
انسان اور ریاست: تاریخی پس منظر
ریاست انسان کی ایک اتنی ہی فطری ضرورت ہے جتنی چھت اور گھر انسان کی ضرورت ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج زمین پر انسان کا جو غلبہ نظر آتا ہے، ایک زمانے تک صورتحال اس سے بالکل مختلف تھی۔ ہزاروں برس پہلے جب انسان تمدن کے ابتدائی مرحلے میں تھا، اس زمین پر انسان بہت کمزور اور دفاعی پوزیشن میں رہتا تھا۔ فطرت کی طاقتوں اور وحشی جانوروں کی کثیر انواع کے مقابلے میں بنی نوع انسان ایک بہت کمزور جسم کے ساتھ موجود تھا۔ اس کی عقل نے بہت تیر مارا تو لکڑی اور پتھروں کے کچھ اوزار اور ہتھیار بنا لیے، لیکن پھر بھی گوناگوں چیلنجز اسے ہمیشہ خطرے کی زد میں رکھتے تھے۔
چنانچہ انسان کی بہترین دفاعی لائن یہ تھی کہ وہ تن تنہا جینے کے بجائے گروہوں کی شکل میں جیے۔ اللہ تعالیٰ نے جس فطرت اور ساخت پر انسان کو تخلیق کیا اس کی وجہ سے خاندان کی شکل میں ساتھ رہنا ویسے بھی اس کی مجبوری تھی۔ مثلاً یہ حقیقت کہ دوسرے جانداروں کے برعکس انسانی بچہ اپنی پیدائش کے کئی برس بعد بھی اپنی بقا کے لیے ماں باپ کا محتاج رہتا ہے۔ یا پھر انسان کا یہ اخلاقی احساس کہ وہ اپنے کمزور متعلقین خاص کر والدین کی ذمہ داری کو ان کی موت تک ترک نہیں کرتے۔ چنانچہ پہلے کئی خاندان اور پھر قبائل کی شکل میں لوگ جیتے بستے رہے تاکہ یہ اجتماعیت ان کی کمزوری کا مداوا بن جائے۔
تاہم یہ بھی انسانی طبیعت ہے کہ لوگ جب ساتھ رہتے ہیں تو ان میں آپس میں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ یہیں سے یہ ضرورت بھی پیدا ہوئی کہ باہمی تنازعات کو طے کرنے کے لیے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ظلم سے بچانے کے لیے کوئی ایسا فریق ہو جو جھگڑے نمٹا سکے۔ یہیں سے قبائلی سردار وں کا تصور ابھرنا شروع ہوا جو لوگوں کے باہمی جھگڑے نمٹانے کے ساتھ خارجی خطرات کی صورت میں بھی ان کی رہنمائی کرتے۔ یہ سردارعام طور پر قبیلے کا کوئی بزرگ ہوتا یا پھر کوئی طاقتور شخص جس کی طاقت اور صلاحیت کے سب معترف ہوتے۔ اس طرح کے طاقتور سرداروں کی زندگی میں ان کی اولادیں بھی نمایاں ہوجاتی تھیں۔ چنانچہ عام طور پر سردار کے بعد اس کا بیٹا ہی سردار بن جاتا۔ بعض اوقات کسی سردار کی اچانک موت، کسی دوسرے زیادہ حوصلہ مند شخص کی موجودگی یا پھر دیگر خاندانی عصبیتوں کی بنا پر کوئی شخص سردار بن جایا کرتا لیکن عام حالات میں باپ کے بعد بیٹے کی سرداری ایک معروف رواج بن گیا۔ کیونکہ لوگوں کے تعصبات ایک خاص شخص کے ساتھ وابستہ ہوچکے ہوتے تھے۔ چنانچہ عصبیت کے پہلو سے اس کے بیٹے کو بھی اپنے سردار کے طور پر قبول کرنا ان کے لیے زیادہ آسان تھا۔
ریاست اور خاندانی آمریت
تمدن کے ارتقا کے ساتھ انسان نے بڑی بڑی بستیاں آباد کرنا شروع کیں۔ قصبے اور شہر وجود میں آئے۔ نسلیں اور قومیں بننا شروع ہوئیں جو صدیوں ایک ہی جگہ آباد رہتیں۔ چنانچہ نسلی اور جغرافیائی وحدتیں وجود میں آنے لگیں۔ ان میں متعدد سردار اپنے اپنے قبائل یا گروہوں کی قیادت کرتے اور کسی اجتماعی مسئلے کی شکل میں مل بیٹھ کر تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی کیا کرتے تھے۔
تاہم اس تاریخی عمل میں کبھی کبھی کسی قبیلے میں کوئی اولوالعزم اور غیر معمولی شخص پیدا ہوجاتا۔ یہ حوصلہ مند فرداپنی کرشمہ ساز شخصیت، جرات و عزیمت، تنظیمی صلاحیت اور لوگوں کو متاثر کرنے کی استعداد کی بنیاد پر مختلف الخیال لوگوں کا رہنما بن جاتا۔ اور رفتہ رفتہ اپنی طاقت بڑھاتے ہوئے دیگر قبائل کو شکست دے کر یا اپنے ساتھ ملا کر ایک وسیع حکمرانی قائم کر لیتا۔ یوں اس جغرافیائی یا نسلی وحدت میں ایک منظم اور باقاعدہ ریاست وجود میں آجاتی۔ اس کی ایک نمایاں مثال چنگیز خان کی ہے جو ایک چھوٹے سے قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا، مگر اپنی غیرمعمولی صلاحیت کی بنا پر اس نے منوا لیا کے مختلف قبائل کو ساتھ ملا کر ایک منظم ریاست قائم کی جس نے آنے والے دنوں میں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
ایسے کسی حکمران کی طاقت محض ذاتی طاقت نہیں ہوتی تھی بلکہ اس کا قبیلہ، اس کے جنگجو اور اس کے حلیف بھی پوری طرح اس کے ساتھ ہوتے اور اس نظام سے مستفید ہوتے تھے۔ چنانچہ حلیف اور رفقا اپنے مفاد کے تسلسل کے لیے اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد یا متعلقین میں سے کسی کو اپنا حکمران تسلیم کر لیتے۔ مفاد اور عصبیت کے علاوہ اس کا ایک اور اہم سبب یہ تھا کہ یہ طریقہ پرامن بھی تھا۔ ورنہ ہر دفعہ حصول اقتدار کی جنگ میں بہت کشت و خون ہوتا۔ خاندانی بادشاہت ان تمام وجوہات کی بنا پر قیادت کی تبدیلی کا ایک بہترین ذریعہ تھی۔ یوں قدیم دنیا میں بادشاہت کا ادارہ اقتدار کا پہلا اور سب سے عام ذریعہ رہا۔
نظریاتی آمریت
آمریت کی ایک دوسری شکل بھی دنیا نے تمدن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ دیکھی ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ چونکہ کسی قائم شدہ بادشاہت کو ہٹانا آسان نہیں ہوتا۔ ایسی کوشش کرنے والے بالعموم قتل کر دیے جاتے تھے۔ اس لیے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بعض اولوالعزم لوگ نظریات کا استعمال کرتے تھے۔ مثلاً اسلامی تاریخ سے واقف لوگ یہ جانتے ہیں کہ جس وقت بنوامیہ کے خلاف بنوعباس نے اپنی مہم شروع کی تو انہوں نے قرابت رسول اور اہل بیت کا نام بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ برسر تنبیہہ یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ خراسان کے حوالے سے جن ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر اس وقت پاکستان اور افغانستان میں جو فساد برپا ہے وہ عباسی تحریک ہی کے زمانے میں وجود میں آئیں۔ بات صرف یہ تھی کہ عباسی تحریک کے سب سے بڑے داعی اور نقیب ابو مسلم خراسانی نے عباسی بغاوت کا آغاز خراسان سے کیا تھا جو کہ خلافت بنوامیہ کا مشرقی صوبہ تھا۔ اسی ابومسلم نے ضعیف الاعتقاد نومسلم عجمیوں کی قوت کو بنوامیہ کے خلاف منظم کیا۔ خراسان اس کا مرکز تھا۔ کالے جھنڈے اور کالے عمامے عباسیوں کے نشان تھے۔ اسلامی تاریخ کا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے۔ یہی کالے جھنڈوں اور خراسان سے اٹھنے والے لشکروں کی کل حقیقت ہے۔ یہ بنو امیہ کے خلاف عباسیوں اور علویوں (سیدنا علیؓ کی اولاد اور نام لیواؤں) کے متحدہ محاذ کی نظریاتی جنگ تھی تاکہ اپنی جنگ کو مقدس بنا کر عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔ انہوں نے یہ تائید اور اقتدار حاصل کر بھی لیا۔ مگر نجانے اس خراسان اور کالے جھنڈوں کے پیچھے اور کتنی تباہی ہمیں دیکھنا ہوگی۔ خیال رہے کہ اُس وقت موجود ائمہ اہل بیت اِس فساد کی حقیقت کو سمجھتے تھے اور اس لیے وہ اس سے بالکل دور رہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر عباسیوں نے ان کے نام پر بنوامیہ سے جنگ تو کی مگر آخرکار علویوں کو کونے میں کر کے اقتدار پرخود قبضہ جما لیا۔
بہرحال عباسیوں، علویوں اور خاص کر ابومسلم خراسانی نے عربوں کے خلاف عجمیوں کی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے نظریات کا استعمال کیا۔ کالے عمامے، کالے جھنڈے، اہل بیت اطہار اور قرابت رسول کے مقدس ناموں کا زبردست استعمال ہوا۔ یوں ان نظریات کے سہارے دنیا کی سب سے طاقتور بادشاہت بنوامیہ اپنے عین عالم شباب میں ختم کر دی گئی۔ تقدس کا یہ ہالہ اتنا مضبوط تھا کہ بنو عباس کی سیاسی قوت تو دو صدی ہی میں ختم ہوگئی لیکن قرابت رسول کے تقدس کی بنیاد پر خلافت بنو عباس پانچ صدیوں تک قائم رہی۔ یہاں تک کہ ایک غیر مسلم حملہ آور ہلاکو خان نے اس کو ختم کر دیا۔
بہرحال خلاصہ یہ کہ سماج اور ریاست میں بادشاہت اور خاندانی آمریت کے بعد اقتدار کی دوسری بنیاد نظریاتی آمریت کو حاصل رہی ہے۔ اس طریقے میں فرد کی ذاتی صلاحیت اور استعداد کے ساتھ ساتھ یا اس سے بڑھ کر ایک نظریہ کچھ ہم خیال لوگوں کو حصول اقتدارکی جدوجہد پر ابھارتا ہے۔ یوں ایک نظریاتی پارٹی یا گروہ وجود میں آتا ہے۔ بعض اوقات اقتدار پر اس گروہ کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ یوں ایک فرد کے بجائے ایک پورا نظریاتی گروہ کسی معاشرے کو اپنا یرغمال بنا کر اپنا غلبہ و اقتدار قائم کر لیتا ہے۔ قدیم دورمیں یہ نظریاتی پارٹی بھی بادشاہت کا روپ دھار لیتی تھی البتہ دورجدید میں فرد کے بجائے پارٹی یا گروہ کی آمریت کا چلن عام ہوا۔ اس کی ایک نمایاں مثال کمیونسٹ تحریک ہے جس کے اقتدار نے ستر برس تک نصف دنیا کوا پنے شکنجے میں جکڑے رکھا۔
یہ دونوں شکلیں بظاہر مختلف ہیں، مگر ان میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی مرضی و منشا کے بغیر بادشاہت اور آمریت عوام پر مسلط ہوجاتی ہے۔ ان میں کوئی اچھی بات ہوتی ہے تو لوگوں کو اس کا فیض ملتا ہے اور ان کا جو شر ہے وہ بہرحال عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
آسمانی جمہوریت
بعض لوگوں کو یہ تعبیر شاید کچھ اجنبی لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب آسمان سے زمین کے حکمران کے براہ راست فیصلے نازل ہوتے اور لوگ خوش دلی سے ان فیصلوں کو قبول کر کے اپنی ریاست چلاتے تھے۔ قدیم صحیفوں میں اس کو خدا کی بادشاہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہم نے اس ترکیب کو ذرا وسیع کرتے ہوئے ’خدا کی بادشاہی‘ کے لیے آسمان کا استعارہ لیا ہے اور جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ یہ کسی قسم کا جبر نہیں تھا بلکہ لوگ اپنی مرضی سے انبیا کی بات مانتے تھے۔ اور یہ اختیار بھی رکھتے تھے کہ ان فیصلوں کو قبول نہ کریں۔ اس کو ہم نے آسمانی جمہوریت سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں حکمران اللہ کی منشا اور عوام کی فلاح کو اپنی ہر ذاتی غرض سے بلند رکھتے اور معاشرے میں عدل وانصاف کا الم بلند رکھتے۔
دنیا میں اس کی سب سے قدیم مثال وہ تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے قائم کی۔ اللہ تعالیٰ مختلف قوموں میں اپنے رسولوں کو بھیجتے رہے ہیں۔ یہ لوگ پر امن طور پر لوگوں کو اپنی دعوت پیش کرتے۔ کچھ لوگ یہ دعوت مان لیتے اور کچھ رد کر دیتے۔ جس کے بعد ماننے والے اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے رسول کو اپنا حکمران بھی تسلیم کر لیتے۔ باقی قوم کو ہلاک کر دیا جاتا اور پھر یہ علاقہ اللہ تعالیٰ ان بچے ہوئے لوگوں کو دے دیتے جہاں اللہ کے رسولوں کی قیادت میں یہ لوگ حقیقی اسلامی معاشرے قائم کرتے۔ معلوم تاریخ میں اس کی سب سے قدیم مثال وہ ہے جو بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ سے شروع ہوئی اور کئی صدیوں تک طالوت بادشاہ کے ظہور تک جاری رہی۔ یہ دور قاضیوں اور انبیاء کا دور کہلاتا ہے جس میں ریاست میں کوئی بادشاہ یا آمر نہیں ہوتا تھا بلکہ عوام کے جھگڑے اور جنگ و امن کے معاملات انبیاء اور قاضی چلایا کرتے تھے۔
اس کے بعد بنی اسرائیل نے ایک انحراف کیا۔ انہوں نے اللہ کی پسند کے قانون کے بجائے عام دنیوی اصولوں کے مطابق اپنے لیے بادشاہی نظام چاہا۔ ان کے نبی سیموئل علیہ السلام نے ان کو بہت سمجھایا۔ مگر وہ باز نہ آئے۔ چنانچہ ان کی فرمائش پر طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کر دیا گیا۔ جس کے بعد حضرت داؤد اور حضرت سلیمان جیسے جلیل القدر انبیا بادشاہ بنے۔ لیکن بنی اسرائیل اللہ کی پسند کے نظام کو چھوڑ کر ایک غلط قدم اٹھا چکے تھے۔ کیونکہ بادشاہی نظام اپنی نوعیت کے لحاظ سے جابرانہ نظام ہے جس میں بادشاہ اپنی من مانی کرتا ہے اور اچھے خاصے فساد کے بغیر بادشاہ کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ پیغمبروں کے اس منصب سے ہٹنے کے ساتھ ہی اس نظام کی خامیاں پوری طرح ظاہر ہوگئیں اور بنی اسرائیل آمریت کے شکنجے تلے جکڑے گئے۔
انبیا علیھم السلام اور بنی اسرائیل کے قاضیوں کا نظام دنیا کا پہلا جمہوری نظام تھا۔ اس میں عوام اپنی مرضی سے اللہ کی مرضی اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔ کوئی زبردستی ان پر اسلام نافذ نہیں کرتا۔ یہ نظام اپنی روح میں اتنا زیادہ جمہوری تھا کہ جب لوگوں نے اللہ کی مرضی کے خلاف ایک شخص کو بادشاہ مقرر کر کے اس نظام کی بساط لپیٹنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی بھی اجازت دے دی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ انسانی اختیار کے مقابلے میں اپنی مرضی بالجبر نافذ نہیں کرتے۔ عوام اپنی مرضی سے اللہ کی مرضی اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔ تاہم نافرمانی کی سزا دینا اور اطاعت پر عطا کرنا ان کا حق ہے اور یہ کام وہ بہرحال کرتے رہتے ہیں۔
اس کی ایک دوسری شکل وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں ظاہر ہوئی۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا اور اپنی خوشی سے آپ کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ آخری نبی اور رسول تھے اور آپ کے بعد آسمان سے وحی اترنے کا سلسلہ بند ہوگیا اس لیے آپ کے بعد کسی کو آسمان سے حکومت کے لیے نامزد کرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافت راشدہ میں خلفائے راشدین کو لوگوں نے اپنی مرضی سے اپنا حکمران منتخب کیا۔
خلفائے راشدین کا انتخاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب سیاسی طور پر ایک منظم ریاست کے بجائے ایک قبائلی نظام کے دور میں تھا۔ قریش کعبہ کے متولی بھی تھے اور اس کی وجہ سے عرب میں سیادت و قیادت کا جتنا کچھ تصور تھا، اس کے لحاظ سے وہی عرب کے رہنما تھے۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا کہ لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں، عرب کے مسلمان قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں اور کفارِ عرب کفارِ قریش کے پیرو ہیں، (بخاری رقم، 3495)۔ اسی بنا پر آپ نے واضح کر دیا تھا کہ آپ کے بعد اقتدار قریش ہی میں رہے گا (بخاری رقم، 7139)۔ آپ کے ذہن میں وہ قریشی شخصیت بھی بالکل واضح تھی جسے آپ کی رائے میں مسلمانوں کا حکمران بننا چاہیے تھا، مگر آپ اسے نامزد کر دیتے تو پھر حکمران کی نامزدگی کا طریقہ ہی تا قیامت دین قرار پا جاتا اور لوگوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہ رہتی۔ چنانچہ حضور نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل مسجدِ نبوی میں ایک آخری خطبہ دیا۔ اس خطبے میں آپ نے اُس شخص کی طرف اشارہ کر دیا جو آپ کی نظر میں اس منصب کا سب سے بڑھ کر اہل تھا۔ چنانچہ اس موقع پر آپ نے دین اور اپنی رفاقت کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمات گنوائیں اور حکم دیا کہ مسجد نبوی میں ان کے دروازے کے سوا ہر دروازہ بند کر دیا جائے (متفق علیہ)۔ اگلے دن سے اپنی جگہ حضرت ابوبکر کو مسجد نبوی کی امامت سونپ کر اپنا منشا لوگوں پر مزید واضح کر دیا (متفق علیہ)۔ تاہم براہ راست لوگوں سے اس حوالے سے کوئی بات نہ کی۔ یہی ایک حقیقت اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ لوگوں پر بالجبر کسی شخص کو حکمران بنانا دین کی منشا کے بالکل خلاف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد بعض انصاری سقیفہ بنو ساعدہ میں اکھٹے ہو کر انصار کی حکومت کی بات کرنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی حضور کی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ صورتحال ایک خوفناک فساد کو جنم دے سکتی تھی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ کوئی فتنہ برپا ہوتا حضرت عمرحضرت ابوبکر کو لے کر انصار کے پاس پہنچے۔ حضرت ابوبکر اور عمر نے مل کر صورتحال کو سنبھالا۔ حضرت عمر کی بصیرت نے یہ جان لیا تھا کہ اس مجلس میں خلیفہ کا فیصلہ نہ ہوا تو یہ آگ دوبارہ بھڑک اٹھے گی۔ چنانچہ آپ نے دوران گفتگو حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی۔ جس پر وہاں موجود تمام مہاجرین و انصار نے آپ کی بیعت کرلی۔ بعد میں تمام مسلمانوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ اس کی وجہ بالکل واضح تھی جو حضرت عمر نے اُس تقریر میں کھول بھی دی جس کا ذکر آگے آرہا ہے کہ حضرت ابوبکر جیسا کوئی دوسرا اس وقت موجود ہی نہیں تھا۔ ان کی موجودگی میں کسی دوسرے شخص کے انتخاب کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
بخاری (رقم، 6830) کے مطابق حضرت عمر نے یہ پوری بات مسجد نبوی میں ایک خطبہ دیتے ہوئے اُس وقت بیان کی جب زندگی کے آخری حج کے موقع پر آپ نے یہ سنا کہ کوئی شخص یہ ارادہ کر رہا ہے کہ آپ کے انتقال کے بعد وہ فلاں صحابی کی بیعت کر لے اور یوں ان کی خلافت منعقد ہوجائے گی جیسا کہ حضرت ابوبکر کی منعقد ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی تقریر میں آپ نے واضح کر دیا کہ تمام مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کوئی کسی سے بیعت نہ کرے ورنہ بیعت لینے اور کرنے والے دونوں کو فساد فی الارض کے جرم میں قتل کر دیا جائے گا۔
خلفائے راشدین میں سے یہی وہ انتخاب ہے جس سے کسی کو کوئی غلط فہمی ہوسکتی تھی۔ باقی خلفاء کا انتخاب تو بالکل واضح ہے کہ عوام ہی نے کیا تھا۔ حضرت عمر کا انتخابی مرحلہ حضرت ابوبکر نے اپنی زندگی ہی میں طے کرا دیا تھا۔ ان کے بارے میں ہر شخص سے رائے لی گئی اور سب نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اس کی نوعیت بالکل ایسی ہی تھی جیسے پاکستان کے وزیراعظم کا انتقال ہونے لگے تو وہ اپنی زندگی ہی میں حکمران پارلیمانی پارٹی کے مشورے سے ایک شخص پر اتفاق رائے کرا دے۔ مہاجرین قریش کی حیثیت اُس مسلم معاشرے میں یہی تھی۔ ان کی لیڈر شپ مسلمہ تھی جس کوسب لوگوں کی تائید حاصل تھی۔
حضرت عمر کے بعد یہی معاملہ حضرت عثمان کا ہوا تاہم اس دفعہ لوگوں کے سامنے ایک کے بجائے چھ افراد کو پیش کیا گیا۔ حضرت عمر زخمی تھے اس لیے اپنے سامنے اس عمل کو پورا ہوتا نہ دیکھ سکے۔ گرچہ قرائن یہی ہیں کہ ان کی رائے میں یہ منصب حضرت علی کو ملنا چاہیے تھا۔
یہ راقم کی رائے ہے جو غلط ہوسکتی ہے کہ اس زمانے کے لوگ بھی حضرت علی کو حضرت عمر ہی کا تسلسل سمجھتے تھے اور نئی نسل اب ذرا نسبتاً ایک نرم حکمران چاہتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے حضرت علی کے بجائے حضرت عثمان کا انتخاب کر لیا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کی بیعت بھی عام لوگوں نے اپنی مرضی سے کی۔ جنھوں نے بیعت نہیں کی ان کو بھی کوئی اعتراض ان کی شخصیت پر نہیں تھا، اعتراض صرف یہ تھا کہ پہلے حضرت عثمان کا قصاص لیا جائے، بیعت وہ بعد میں کریں گے۔
اس تفصیل سے یہ بات ظاہر ہے کہ خلفائے راشدین کا انتخاب لوگوں نے کیا، وہ زبردستی لوگوں کے اوپر مسلط نہیں ہوئے تھے۔ ان لوگوں کا خاندانی یا نظریاتی آمریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی پنا پر ہم نے اس خلافت کو بادشاہت یا نظریاتی آمریت کے خانے میں نہیں رکھا بلکہ آسمانی جمہوریت کے ذیل میں رکھا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں نے بھی اس آسمانی جمہوریت کو گنوا دیا اور بادشاہت اور آمریت کے جال میں پھنس گئے۔ اور خلافت کے نام پر مسلمان چودہ صدیوں تک بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانی خاندانی بادشاہتوں کو سہتے رہے۔
مغربی جمہوریت
آسمانی جمہوریت کا یہی وہ تصور تھا جس نے دنیا کو پہلی دفعہ اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ بادشاہت یا آمریت کے علاوہ یہ ممکن ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے اپنے حکمران کا انتخاب کریں۔ چنانچہ قدیم یونان ہو یا جدید مغرب، ہمارے نزدیک یہ جمہوریت کے اصلی ماڈل نہیں بلکہ اس آسمانی جمہوریت کی نقل ہیں جو دنیا کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی اور جس میں انسان پر انسان زبردستی مسلط نہیں ہوتے تھے۔ اس مغربی نظام میں یقینا بڑی کمزوریاں ہیں۔ خاص کر ہمارے ہاں تو جمہوریت کے نام پر وہی مذاق ہو رہا ہے جو اسلام کے نام فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا زہر پلا کر ہمارے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس پر ہم کسی اور وقت بات کریں گے۔ تاہم جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اب آسمان سے حکمران کا فیصلہ نازل نہیں ہوسکتا۔ ہمیں تین نظام ہائے سیاست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ یعنی بادشاہت، آمریت اور جمہوریت۔ باشاہی جبر اور آمرانہ سوچ کے مقابلے میں جمہوری نظام بلاشبہ اللہ کی ایک نعمت ہے جو سب سے پہلے اسی نے اپنے بندوں کو عطا کی۔ چنانچہ ہمارے نزدیک جمہوریت ہی وہ تصور ہے جو اب مسلمانوں کے لیے بہترین انتخاب ہے۔
جمہوریت اور خلافت
اس موقع پر دو غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ ایک کا تعلق سماجیات کے غلط فہم سے ہے اور دوسرے کا دین کے غلط فہم سے۔ پہلی غلط فہمی غلط تقابل پر مبنی ہے جس میں خلافت کو جمہوریت کے بالمقابل ایک نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت اور جمہوریت اپنی نوع کے لحاظ سے دو جدا تصورات ہیں جو بالمقابل نہیں ہوسکتے۔ اسی غلط فہمی کو واضح کرنے کو ہمیں پچھلے صفحات میں سماج اور ریاست کے ارتقا اور حکمرانی کی مختلف شکلوں کو تفصیل سے زیر بحث لانا پڑا ہے۔
مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جمہوریت کا اگر کوئی تقابل ہوسکتا ہے تو وہ بادشاہت اور آمریت ہے نہ کہ خلافت۔ یہ تینوں نظام دراصل ایک ہی سوال کا جواب دیتے ہیں۔ وہ یہ کہ وہ کیا بنیاد ہے جس پر کسی شخص کو ریاست کا حکمران بنایا جائے گا۔ بادشاہت کا جواب ہے کہ بادشاہ کا بیٹا بادشاہ بنے گا۔ آمریت کا جواب ہے کہ جو زیادہ طاقت ور ہوگا وہ جبراً اقتدار پر قبضہ کر لے گا۔ جمہوریت کا جواب یہ ہے کہ جس کا انتخاب عوام الناس کریں گے وہی حکمران بنے گا۔
اس کے برعکس خلافت ایسے کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی چودہ سو برس کی خلافت کی تاریخ میں تینوں طریقے ملتے ہیں۔ خلافت راشدہ میں اُس دور میں جو عوامی رائے عامہ کو جاننے کا کو ممکنہ طریقہ تھا اس کے مطابق عوام کی مرضی کے عین مطابق یعنی جمہوری طریقے پر خلفائے راشدین کا انتخاب کیا گیا۔ جبکہ ان کے بعد ہمیں زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے لوگ بھی نظر آتے ہیں اور خاندانی بادشاہتیں بھی نظر آتی ہیں۔
اسی پس منظر میں ہم جمہوریت کے مخالفین سے یہ سوال دریافت کریں گے کہ وہ اپنے لیے اقتدر میں آنے کا کیا راستہ تجویز کرتے ہیں۔ وہ یقینا عوام کی تائید سے اقتدار میں آنے کی بات تو کر نہیں سکتے۔ کیونکہ یہی جمہوریت ہے اور یہ ان کے نزدیک کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں وحی اتاریں اس کا بھی کوئی امکان اب باقی نہیں رہا ہے۔ اس لیے یہ دروازہ بھی بند ہوچکا ہے۔ اب لے دے کر ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ یہ کہ طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کر لیا جائے اور پھر بزور قوت لوگوں پر اپنا خود ساختہ فہمِ اسلام نافذ کر دیا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جسے خلافت کے سارے موئدین پیش کرتے ہیں۔ یہ کرنا ہے تو ضرور کیجیے۔ مگر اس حقیقت کو جان لیجیے کہ اسے آمریت کہتے ہیں۔ اسے استبداد کہتے ہیں۔ اسے ظلم کہتے ہیں۔
اس موقع پر ہم قرآن مجید کی آیات اس لیے نقل نہیں کریں گے کہ تیرہ سو برس آمریت کے سائے میں پلنے کے بعد ہم ان آیات کے مدعا کو ماننے پر اب شاید تیار نہیں۔ لیکن یہ بتانا ہماری ذمہ داری ہے کہ یہ نظریاتی آمریت وہ طریقہ ہے جسے اختیار کر کے کمیونسٹوں نے تمام وسط ایشیا کے مسلمانوں کو زبردستی کمیونزم کے شکنجے میں جکڑ دیا تھا۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر کمال اتاترک نے ترکی کے مسلمانوں پر زبردستی سیکولرازم کو مسلط کیا تھا۔ کیا اس کے بعد ہمیں اس راستے کی شناعت اور غلط ہونے پر مزید کوئی تقریر کرنے کی ضرورت ہے؟
جو لوگ اس راستے کو درست سمجھتے ہیں وہ دراصل پاکستان کی ہر اقلیت کو یہ اخلاقی جواز دے رہے ہیں کہ جس کو وہ حق سمجھتے ہیں، کسی بھی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے اسے نافذ کر دیں۔ آپ نے اگر اپنے آپ کو یہ حق دے دیا ہے تو دوسرے لوگوں کو یہ حق خود بخود مل چکا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں مختلف فرقوں کے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ایسے کسی راستے کے جواز کی باتیں کرنا ایک خوفناک قسم کے فساد کو جنم دینے کے مترادف ہے۔
جمہوریت کا نظام کفر ہونا
ایک دوسری غلط فہمی جس کا تعلق دین کے غلط فہم سے ہے اور جس کی بنا پر جمہوریت کو بے دریغ کفر کہا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت میں قانون سازی کی آخری اور فیصلہ کن اتھارٹی چونکہ عوام کو حاصل ہے، اس لیے یہ نظام سرتاسر کفر و شرک پر مبنی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ غلط فہمی قرآن مجید، اس کی دعوت اور اس کے پیغام کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں آخری درجے میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا انسانوں کے امتحان کے لیے پیدا کی ہے۔ اس امتحان میں اللہ تعالیٰ نے یہ حق انسانوں کو مکمل طور پر دے رکھا ہے کہ وہ چاہیں تو ایمان لائیں چاہیں تو کفر کریں ۔ چاہیں تو عمل صالح کی زندگی گزاریں اور چاہیں تو فسق و فجور کو اپنا معمول بنائیں۔
یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بات، اپنی مرضی اور اپنی منشا پوری طرح واضح کرتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ نہ ماننے کہ نتائج کیا نکلیں گے۔ یہ بتاتے ہیں کہ ماننے والوں پر خدا کی رحمت کیسے برسے گی۔ مگر لوگوں کو زبردستی مسلمان بنایا جائے، لوگوں سے اچھے کام زبردستی کرائے جائیں یہ اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا سرے سے حصہ ہی نہیں۔ جس جنت کا وعدہ وہ لوگوں سے کرتے ہیں اس کی ساری قدر و قیمت ہی یہی ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے اللہ کے سامنے سر جھکائیں اور جس جہنم کی وعیدیں سنائی گئی ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ جانتے بوجھتے اور سمجھائے جانے کے باوجود ظلم و عصیان کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جبر کسی پہلو سے اس اسکیم کا حصہ نہیں۔
یہ بات اگر واضح ہے تو اس کے بعد جمہوریت کے کفر والی بات کے غبارے سے ساری ہوا نکل جاتی ہے۔ جمہوریت انسانوں کو وہی اختیار دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اچھے یا برے حکمرانوں کو منتخب کرنے کا اختیار۔ شریعت کے مقدس قانون کو قبول کرنے یا اسے جان بوجھ کر رد کرنے کا اختیار۔ اسلام کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حصہ بنانے کا اختیار یا اسے رد کرنے کا اختیار۔ لوگوں کو یہ حق ملنا چاہیے۔ اگر یہ حق نہیں دیا جائے گا تو ایک منافق قوم وجود میں آجائے گی جس کے آئین پر اللہ کی حاکمیت کی بات درج ہوگی مگر جس کے حکمرانوں سے لے کر عوام اور جس کے دانشوروں سے لے کر مذہبی لیڈروں کی اکثریت اپنے اپنے مفادات، خواہشات اور تعصبات کے پیروہوں گے۔ قارئین اگر برا نہ محسوس کریں تو دنیا کے نقشے پر نگاہ ڈالیں۔ انھیں ایسی قوم کو تلاش کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔
دین کے اجتماعی احکام
یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم دین کے اجتماعی احکام کی نفی کر رہے ہیں۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ جس طرح افراد کے لیے دین نے احکام دیے ہیں، ٹھیک ویسے ہی اس نے سیاست اور سماج کے پہلو سے بھی بہت سے احکام دیے ہیں۔ جہاد، حدود، نماز، زکوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ریاستی سطح پر ترویج اور ان جیسے اور بہت سے احکام ہیں جن کا تعلق ریاست سے ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ دین کے اجتماعی احکام اللہ تعالیٰ نے کیا حکمرانوں کو مخاطب کر کے دیے ہیں یا وہ اس لیے دیے گئے ہیں کہ کچھ لوگ زبردستی اقتدار پر قبضہ کر کے ان احکام کو اپنے فہم کے مطابق لوگوں پر زبردستی ٹھونس دیں؟ حقیقت یہ ہے کہ احکام اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیے ہی اس وقت تھے جب وہ حکمران بن چکے تھے۔ پھر اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ احکام ان لوگوں کے لیے دیے گئے ہیں جنہوں نے پوری طرح ایمان کو سمجھ کر قبول کیا اور جو اپنی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزارنے کے لیے تیار ہیں۔ اسلام کے اجتماعی احکام ایسی رعایا کے حکمرانوں کو مخاطب کر کے دیے گئے ہیں۔ ان احکام کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں کہ ایک اقلیتی گروہ اقتدار پر قبضہ کرے اور اپنے تصورات کو جنھیں وہ حق سمجھتا ہو اسے اکثریت پر نافذ کر دے۔
لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کو اجتماعی زندگی سے بالکل نکال کر پھینک دیا جائے اور ہم اپنے اجتماعی معاملات اللہ کو چھوڑ کر انسانوں کی مرضی کے مطابق چلائیں۔ ہمارا ہرگز یہ مدعا نہیں ہے۔ ہمارا یہ یقین ہے کہ اسلام کی شریعت جس طرح آخرت میں فلاح کی ضامن ہے وہ دنیا میں بھی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح افراد کے بارے میں اس کی رہنمائی بہترین نتائج دیتی ہے اسی طرح اجتماعی زندگی میں بھی اسلام کے قوانین ہی بے مثل ہیں۔ تاہم ان کو زندگی کا حصہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اہل علم سماجی علوم اور دین میں گہرا تفقہ پیدا کر دیں۔ دین میں تفقہ تو خود قرآن مجید کا تقاضہ ہے اور سماجی علوم میں اس لیے کہ جدید سماج اپنے ارتقا کے بعد انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے۔ کم از کم اس کی مبادیات سے واقف ہونا لازمی ہے۔
اہل علم اور علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام اور خواص دونوں کو دین کی تعلیم دیں، ان کے شبہات و سوالات کا جواب دیں، انھیں خدا کے حضور پیشی سے ڈرائیں اور ان کو بتائیں کہ انہوں نے اللہ کی مرضی کے مطابق خود کو نہیں ڈھالا تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔ یہی اہل علم کے کرنے کا اصل کام ہے۔ علماء میں سے کچھ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں نظام حکومت کو چلانے کی بہتر صلاحیت ہے۔ اور یہ کہ وہ دوسروں سے زیادہ بہتر انداز میں سیاست کے ذریعے سے دین کی خدمت کرسکتے ہیں تو ان کا حق ہے کہ خود کو عوام کے سامنے پیش کریں۔ جمہوری طریقے سے عوامی تائید سے منتخب ہوکر اقتدار حاصل کریں اور جو تبدیلیاں وہ لانا چاہتے ہیں وہ لائیں۔ تاہم اگر عوام کی اکثریت ہی اسلام کی اجتماعی سطح پر نفاذ کے قائل نہیں ہے تو ان پر بالجبر اسلام مسلط کرنے کے بجائے انہیں اس پر قائل کرنے کی کوشش کریں۔ یہی درست راستہ ہے۔
تاہم اس سب کے باجود اگر کسی کی یہ رائے ہے کہ عوامی خواہشات کے برخلاف کوئی چیز اپنی دانست میں حق سمجھ کر دوسروں پر اس کا مسلط کرنا درست ہے تو پھر ہمیں یہ سمجھا دیں کہ اگر آج پاکستان کی کوئی اقلیت زبردستی اقتدار پر قبضہ کر کے اپنا نقطہ نظر سب پر نافذ کر دے تو یہ کیسے غلط ہوگا۔ کیونکہ وہ تو اپنی بات کو حق ہی سمجھتے ہیں۔
بہرحال یہ سب بھی ہمارا نقطہ نظر ہے جسے ہم نے دلیل کے ساتھ پیش کر دیا۔ ماننا نہ ماننا لوگوں کا کام ہے۔ ہمارے نزدیک ختم نبوت کے بعد اب ایک ہی راستہ باقی ہے۔ دعوت اور انذار اور اپنا نقطہ نظر دلیل سے پیش کرنا۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہا۔
جہاں رہیے بندگان خدا کے لیے رحمت بن کر رہیں، باعث زحمت نہ بنیے۔