Take a fresh look at your lifestyle.

اسلامی روحانیت ۔ ابویحییٰ

اسلام ایک ایسے دور میں آیا جب دنیا میں روحانیت کا مطلب ترک دنیا، عبادت کے نام پر مشقت اٹھانے اور رشتے ناطوں سے قطع تعلق کا نام تھا۔ مگر ایسے میں اسلام نے روحانیت کا ایک بالکل جدا اور منفرد تصور دیا جو کسی کے سان و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس روحانیت کی پہلی اساس ایک اللہ سے سچی محبت تھی۔ مگر اس محبت کا مطلب دنیا چھوڑنا نہیں بلکہ اس کی یاد میں رہ کر دنیا میں جینا تھا۔ اس روحانیت میں تہجد پڑھنے سے زیادہ اہمیت مسجد میں نماز پڑھنے پر تھی تاکہ دوسروں کے حال احوال سے باخبر رہا جا سکے۔ اس روحانیت میں انسان کا مال کمانا عبادت اور اسے بندوں پر خرچ کرنا عبادت کی معراج تھی۔ اس روحانیت میں روزہ رب کے لیے رکھا جاتا تھا، مگر احساس دوسروں کی بھوک کا پیدا کیا جاتا تھا۔

یہ روحانیت عدل کرنے کا نام تھی۔ چاہے دشمن کا معاملہ ہو یا اپنے ماں، باپ اور بھائی، بہن جیسے قریبی رشتوں کا۔ اس روحانیت کا اصول تھا کہ نبی کی بیٹی بھی اگر کسی جرم میں گرفتار ہوئی تو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔

یہ روحانیت احسان کا نام تھی، کمزوروں کے ساتھ، ضعیفوں کے ساتھ، معذوروں کے ساتھ۔ یہ روحانیت ایثار سے عبارت تھی، اپنا مال دوسروں پر خرچ کرکے، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلا کر، اپنا حصہ بھی دوسروں کی جھولی میں ڈال کر۔ یہ روحانیت انفاق کا مطالبہ کرتی تھی، رشتہ داروں پر، غریبوں پر، مسکینوں پر اور سفید پوشوں پر۔

یہ روحانیت لوگوں سے مسکرا کر ملنے، انھیں معاف کرنے، دوسروں کی ایذا پر صبر کرنے کا نام تھی۔ یہی وہ روحانیت تھی جس نے ایک دنیا کو فتح کر لیا تھا۔ آہ! مگر آج اسلام کے نام پر سارے تماشے ہو رہے ہیں۔ یہ ایمان، احسان اور عدل والی روحانیت کہیں نہیں۔