Take a fresh look at your lifestyle.

I am a Playboy – Abu Yahya

پچھلے دنوں میں اپنے دوست اور ادارے کے رفیق سلمان علی کے ہمراہ جا رہا تھا کہ راستے میں ایک گاڑی تیزی سے ہمارے آگے سے گزری۔ اس گاڑی کے عقبی شیشوں پر بہت نمایاں اور واضح انداز میں دو جملے لکھے ہوئے تھے جو کچھ اس طرح تھے۔
I am a Playboy
Girls are my toy

یہ دو سطریں پڑھ کر ہم دونوں دنگ رہ گئے۔ ہماری حیرت ان جملوں کے مفہوم سے زیادہ لکھنے والے کے حوصلے پر تھی کہ اس نے اپنی گاڑی پر یہ جملہ ایک چلتے پھرتے اشتہار کی شکل میں لکھ رکھا تھا۔ ہمارے معاشرے میں بدکردار ہونا شائد کوئی بہت بڑی بات نہ ہو مگر اس کا اس طرح علانیہ اظہار کرنے کا رواج ابھی تک نہیں پڑا ۔مگر یہ پڑھ کر لگتا تھا کہ اب اس رواج کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں سانحہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اپنی حد کو عبور کر کے دوسروں پر زبردستی دین نافذ کرنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ وہ دوسرے لوگوں کو بالجبر برائیوں سے روکنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ نہ دین کا مطالبہ ہے اور نہ معاشرہ اسے قبول کرسکتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اجتماعی خیر و شر سے بے نیاز ہوکر صرف اپنے کام سے کام رکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دینداری کی آخری حد نماز روزہ کی پابندی ہوتی ہے اور ان کے اردگرد جو کچھ ہورہا ہوتا ہے وہ اس سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے قریبی لوگوں کے ایسے رویوں کی بھی اصلاح نہیں کرتے جن کے اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی طور پر برا ہونے میں کوئی دو آرا نہیں پائی جاتیں۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو پھر لوگ حیا اور اخلاق کے ہر جذبے سے عاری ہوکر اپنی بے لگام حیوانی خواہشات کا اسی طرح اعلان کرنے لگتے ہیں۔ یہ اعلانات کسی فرد کی آزادی کا نام نہیں بلکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر پر ایک طمانچہ ہیں۔ جو قوم ایسے طمانچے کھانے پر تیار ہوجائے وہ ایک ایک کر کے ساری اخلاقی خصوصیات سے محروم ہوجاتی ہے۔