ہیرو کی تلاش ۔ ابویحییٰ
ہر انسان فطرتاً ساری زندگی اپنا ایک ہیرو تراش کر اس کی تحسین کرتا رہتا ہے۔ بعض لوگ کسی دوسرے کے بجائے ہیرو کے اس منصب پر اپنی ذات کو فائز کر دیتے ہیں اور ساری زندگی نرگس کے پھول کی طرح اپنے عشق کا آپ شکار ہو کر پانی میں اپنا ہی عکس دیکھتے رہتے ہیں۔
باقی لوگ اپنا ہیرو خارج میں تلاش کرتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں چونکہ سپرمین نہیں پائے جاتے، اس لیے جو بھی برا بھلا ہیرو مل جائے لوگ اسی میں سپرمین کی خصوصیات جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے اپنے ذوق اور حالات کے لحاظ سے لوگ کسی مذہبی یا قومی لیڈر، کھلاڑی یا فنکار یا اپنے قریبی حلقے میں موجود کسی شخص میں اپنا یہ شوق پورا کر لیتے ہیں۔ اس عمل میں یہ لوگ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ہر ہیرو کے پیچھے درجنوں عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں، جن کی غیر موجودگی میں ہر ہیرو ایک زیرو بن جاتا ہے۔ مگر اس حقیقت سے بے نیاز ہم سب اپنے اپنے ہیرو کی تحسین، تعریف اور تکبیر میں زندگی گزار دیتے ہیں۔
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ یہ صرف اللہ جل جلالہ کی ہستی ہے جو اپنی ذات میں کامل اور غنی ہے۔ جو صاحب کمال ہے، مگر کمال کو ظہور میں لانے کے لیے کسی کا محتاج نہیں۔ جو صاحب جمال ہے۔ مگر حسن کی انتہا کو تخلیق کر کے بھی بے پروا رہتا ہے کہ اس کو سراہا جائے۔ جو الحی القیوم ہے۔ مگر اپنی زندگی اور بقا کے لیے کسی کا احسان مند نہیں۔ جو ہر لمحے صناعی کے معجزے تخلیق کرتا ہے۔ مگر اپنی قدرت کاملہ کے ظہور کے لیے ہر فانی مخلوق کی مدد سے بے نیاز ہے۔
آہ! لوگ صنم تراشتے ہیں۔ ہیرو تراشتے ہیں۔ مگر محبوب حقیقی، معبود برحق اور اس صاحب کمال کو بھول جاتے ہیں جو کائنات میں اصل اور واحد ہیرو ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ خدا جس طرح نہ ماننے والوں کو نظر نہیں آتا، ماننے والوں کو بھی نظر نہیں آتا۔ ورنہ ہیرو کی تلاش ختم ہو جائے۔