Take a fresh look at your lifestyle.

حق کے اعتراف کا درست وقت ۔ ابویحییٰ

حال ہی میں دیوبندی مکتب فکر کی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے گستاخی رسول کے الزام میں مسجد میں سوتے ہوئے قتل کر دیا۔ بریلوی پس منظر کے چند لوگوں کو چھوڑ کر نہ کسی نے مقتولوں کی گستاخی کے جعلی ثبوت سوشل میڈیا پر عام کرنے کی کوشش کی نہ قاتل کو عاشق رسول قرار دے کر اس کی عظمت اور ولایت کا ڈھنڈورا پیٹا۔ نہ ’’سر تن سے جدا‘‘ کا مشہور عالم نعرہ بلند ہوا نہ یہ دھمکی سامنے آئی کہ قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا تو آسمان و زمین ایک کر دیا جائے گا۔ نہ قانون ہاتھ میں لینے کی توجیہہ و تاویل کرنے کی کوئی کوشش کی گئی نہ قاتل کی حمایت میں کوئی زوردار مہم چلائی گئی۔

یہ ایک بڑی مثبت صورتحال ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ تاہم اس صورتحال کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہماری قوم ایک ہی جست میں جذباتیت سے نکل کر معقولیت کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ لوگوں میں یک لخت خدا خوفی پیدا ہوگئی ہے۔ قانون شکنی پر تنقید کرنے والوں ، دین کا نقطہ قرآن مجید اور سیرت نبوی سے سمجھانے والوں پر اگر اس دفعہ الزام و دشنام کی بارش نہیں ہوئی تو اس کی وجہ بھی یہ نہیں کہ معاشرے میں برداشت پیدا ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کی جو وجہ ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بیان کرنے کی شاید ضرورت نہیں ہے۔

مگر یہ صورتحال دیکھ کر مجھے قیامت کے دن کے حوالے سے قرآن مجید کے کچھ بیانات یاد آ گئے۔ ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود اِس دنیا میں حق کو جھٹلاتے رہے ہیں ، وہ سب لوگ روزِ قیامت حق کے اعتراف میں سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔ دنیا میں اپنے غلط رویے کی جو جھوٹی تاویلیں وہ کرتے رہے تھے وہ آندھی کے دن اڑ جانے والی خس و خاشاک کی طرح غائب ہو چکی ہوں گی۔ مگراس روز ان کا اعتراف ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ حق کے اعتراف کی ساری قدروقیمت بس اسی وقت تک ہے جب تک وہ دلیل کی بنیاد پر کیا جائے۔ مجبوری میں کیا جانے والا اعتراف کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

جو شخص قرآن مجید کے ان بیانات کو سمجھ لے وہ تڑپ اٹھے گا۔ وہ ہر سچائی کا اعتراف صرف دلیل کی بنیاد پر کرنے کو اپنی عادت بنائے گا۔ وہ تعصبات سے اوپر اٹھ کر حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے کو اپنا معمول بنائے گا۔ وہ جذباتیت کے بجائے معقولیت کا راستہ اختیار کرے گا۔ وہ جھوٹ، الزام، بہتان اور شوروغوغا کے بجائے مکالمے ، گفتگو اور بات سمجھنے سمجھانے کی روش اختیار کرے گا۔ وہ ایک نتیجہ فکر پر پہنچنے کے باوجود بھی دوسروں کی بات کی سچائی کا امکان تسلیم کرے گا۔ وہ دوسروں کی بات کو غلط سمجھنے کے باوجود اپنی غلطی کے امکان کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ وہ خود کو انسان سمجھ کر اپنا فہم بیان کرے گا، نبی اور رسول سمجھ کر خدائی لہجے میں حق وباطل کے فیصلے نہیں دے گا۔

جب یہ رویہ عام ہوجائے گا تو ہمارے معاشرے سے ہر طرح کی انتہا پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تعصبات اور فرقہ واریت ختم ہوجائے گی۔ کفر، شرک، گستاخی کے فتووں کی گرم بازاری ماند پڑ جائے گی۔ نفرت، عدم برداشت اور اختلاف رائے کے حق سے انکار کی سوچ مدھم ہوجائے گی۔

رحمت اللعالمین کے امتیوں کے ہاتھوں دوسرے امتیوں کی جانیں گستاخی رسول کے الزام میں جائیں، اس سے بڑا سانحہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس سانحے کے نتیجے میں لوگوں پر اپنے انداز فکر کی غلطی واضح ہوجائے ، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ مگر جو لوگ اس کے باجود اپنی غلطی پر ڈھٹائی کے ساتھ قائم رہتے ہیں ، وہ اپنے بارے میں صرف ایک بات بتا رہے ہیں ، وہ یہ کہ ان کی ناؤ اب بھر کر ہی ڈوبے گی۔

یہ وہ دن ہو گا جس دن حق کسی دلیل کے ساتھ نہیں بلکہ فرمان رب کی شکل میں سامنے آئے گا۔ اس روز نہ کسی کی توبہ کام آئے گی، نہ اس کی ندامت ہی اس کو کچھ نفع دے گی۔