غصہ اور آگ ۔ ریاض علی خٹک
غصہ آنا ہماری فطرت میں ہوتا ہے۔ مسئلہ غصہ آنا نہیں، اسے بے قابو رکھنے میں ہے۔ جب ہم اسے غیر فطری طریقے سے چھپاتے ہیں تو یہ بغض بن جاتا ہے۔ جب ہم اسے غیر فطری طریقے سے نکالتے ہیں تو یہ نفرت بن جاتا ہے۔
غصہ کی مینجمنٹ کا طریقہ اس کی توانائی کو درست استعمال کرنا ہے۔ انسان بھی دو قسم کی توانائی بناتا ہے۔ ایک kinetic یعنی حرکت کی توانائی یا کام کرتی توانائی، دوسری potential یعنی ممکنہ توانائی یا سٹور کی ہوئی توانائی۔
انسان کا آگ کے بغیر بھی گزارہ نہیں اور یہی آگ ہمیں جلا بھی سکتی ہے۔ ہم نے صدیوں میں بتدریج اس آگ کی منیجمنٹ سیکھ لی۔ آج ہم بجلی، لکڑی، گیس، سولر ہر چیز سے ٹمپریچر لے رہے ہیں۔ آگ سے ٹمپریچر تک کے اس سفر میں ہم نے آگ کو ضرورت کے لیے سمیٹنا یعنی فوکسڈ کرنا اور آگ میں اپنے مطلب کی چیز یعنی ٹمپریچر کو سمجھ لیا۔
غصہ بھی ایک آگ ہے۔ غصے کی مینجمنٹ آپ کی وہ اپروچ، وہ طریقہ کار ہے جو اسے کڑوی دوائی کی طرح پینا سیکھ لیتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ آپ بیمار ہیں بلکہ اس لیے کہ آپ کو یہ سمجھ آجاتی ہے کہ اس توانائی کا بہتر استعمال کیا ہے۔ آپ غصے کو پی کر اسے potential energy میں سٹور کرلیا کریں۔ یہ بغض نہ بنے اس کے لیے افراد کو معاف کرنا سیکھیں۔ جب اس غصے کو نکلنے کے لیے کوئی چہرہ نہیں ملے گا تو آپ کے کام میں Kinetic energy بن کر نکلے گا۔ جو افراد یہ سیکھ لیتے ہیں ان کے لیے غصہ وہ بوسٹر بن جاتا ہے جو ان کی بساط کی سرحدیں اتنی وسیع کر دیتا ہے کہ ایسے افراد کسی بھی ناممکن کام کو ممکن بنا سکتے ہیں۔