Take a fresh look at your lifestyle.

غلطی کس کی؟ ۔ عدیلہ کوکب

وہ کافی دیر صحن میں  ٹہل رہی تھی۔ بار بار اس کی نگاہیں گیٹ کی جانب اٹھتیں مگر ناکام لوٹ آتیں یوں لگتا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔ گزرنے والا ہر لمحہ اس کی بے چینی کو بڑھا رہا تھا مگر انتظار کی گھڑیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اسی اثنا میں کوئی گیٹ سے اندر آتا دکھائی دیا۔ وہ بے تابی سے گیٹ کی طرف بڑھی مگر جوں ہی آنے والے پہ نظر پڑی اس کا چہرہ مایوسی سے لٹک سا گیا، گیٹ سے ایک عورت داخل ہو رہی تھی۔ ایک اکتائی ہوئی نظر آنے والی پر ڈالی جو کہ اس کی پرانی نوکرانی تھی اور جا کر لان میں رکھی کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔

عورت نے اندر آتے ہی سلام کیا۔ آمنہ نے سلام کا جواب دینے کی بجائے سوالیہ انداز میں کافی غصیلی نظروں سے آنے والی کو دیکھا۔
آمنہ باجی میں۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔۔”۔ آنے والی شاید اس کی نظروں سے خائف ہوگئی تھی جب ھی بولتے ہوئے اٹک گئی۔ اس انداز نے آمنہ کے ماتھے پر بلوں میں تھوڑا اور اضافہ کر دیا۔ وہ ایک دم چِلّا کر بولی، "اب بول بھی چکو، کیا بات ہے کیوں آئی ہو”؟ آنے والی جو اب اس کے سامنے کھڑی تھی ایک دم پریشان ہوگئی۔ وہ کسی کشمکش میں تھی۔ یوں جیسے کچھ بتانے کی کوشش کر رہی مگر بتا نہیں پا رہی۔

اتنے میں آمنہ کا غصہ اور بڑھ گیا وہ جھٹکے سے اٹھی عورت کو بازو سے دبوچا اور بولی، "اب کونسی شکایت لے کر آئی ہو”؟
آنے والی نے بے بسی سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی اور ڈرتے ڈرتےکہا "باجی آپ کا بیٹا پھر سے میری بیٹی کو موبائل پہ تنگ کرتا ہے، میں پہلے بھی آپ کو بتا چکی، مگر آپ۔۔۔ آپ اسے منع کیوں نہیں کرتی اس طرح کسی کی بیٹی کو تنگ کرنا صحیح ہے کیا؟”

یہ سنتے ہی آمنہ نے آنے والی  کا بازو جھٹکے سے چھوڑا اور کہا:
زبان سنبھال کر بات کرو۔ کھانے کو ملتا نہیں اور بیٹی کو موبائل لے کر دے رکھا ہے۔ سب سمجھتی ہوں امیروں کے بیٹوں کو پھنسانے کے حربے ہیں۔ اور اب میرے بیٹے پر الزام تراشی کر رہی ہو۔
باجی جی۔۔ غریب ہیں پر عزت دار ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ میری بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے۔ آئے دن شہر کے حالات خراب رہتے ہیں اسی لیے میں نے اس کی  سہولت کے لیے لے کر دیا ہے۔ یہ تو آپ کا بیٹا ہی۔۔۔۔

ایک  زور دار تھپڑ کی گونج  پورے لان میں  سنائی دی۔ آمنہ کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا اس نے آنے والی کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عورت کو تھپڑ مار دیا تھا۔ عورت کچھ دیر گال پہ ہاتھ رکھے بے یقینی سے اپنی مالکن کو دیکھتی رہی پھر ایک دم بولی: "یاد رکھنا باجی ایک دن تم پچھتاؤ گی”۔ پھر چادر اچھی طرح چہرے کے گرد لپیٹی اور گیٹ پار کر گئی۔

آمنہ اپنا پھولا ہوا تنفس بحال کرتے ہوئے پھر سے اپنی جگہ پر بیٹھی ہی تھی کہ ایک لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ اس کو دیکھتے ہی آمنہ کے چہرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کی بلائیں لیں اور نرمی سےپوچھا، "رات بھر کہاں تھے شمریز؟ میں رات سے تمہارا انتظار کرتی رہی، تمہارے باپ کا تو تمہیں پتا ہے، پھر بھی بنا بتائے باہر رہے”۔

"واٹ نان سینس مام، میری اپنی لائف ہے میں پاپا کا غلام تو نہیں جو سانس بھی ان سے پوچھ کر لوں” شمریز ماں کے نرم لہجے پہ بھڑک کر بولا۔ اچھا، اچھا، اب غصہ تھوکو، آؤ مل کے کھانا کھاتے ہیں میں نے تمہاری پسند کی بھنڈیاں پکائیں ہیں”۔ لاڈ سے کہتی وہ گھر کے اندرونی حصے کی طرف مڑ گئی۔

کچھ دیر بعد شمریز بھی آگیا اور دونوں کھانا کھانے لگے کہ شمریز بولا، "مام یہ ملازمہ کیوں آئی تھی؟ جب میں آیا تب اسے نکلتے دیکھا گھر سے”۔ کچھ نہیں بیٹا اس کو عادت ہے، اسے برداشت نہیں ہوتا کہ میں تم سے اتنا پیار کرتی، اپنے بیٹوں کو تو اس نے زندگی جینے نہیں دی، اور آئے روز آتی رہتی کہ ہم ماں بیٹے میں پھوٹ ڈالوا دے، پہلے بھی دو دفعہ آئی ہے کہ میں تمہیں روکوں حمنیٰ (نوکرانی کی بیٹی) کو تنگ کرنے سے” آمنہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔

شمریز کا ہاتھ کھانا کھاتے ہوئے رکا، رنگ تھوڑا سا اڑا، وہ آہستگی سے بولا، "پھر آپ نے کیا کہا انہیں”۔
آمنہ نے بیٹے کی طرف دیکھا اور فخر سے بولی:
"ایسا سبق چکھایا ہے کہ دوبارہ ادھر کا منہ نہیں کرے گی، اس کی بیٹی کہاں کی حور پری ہے اگر میرے بیٹے نے کچھ دن میسج کر دیئے تو کیا برا کیا۔ اس جیسی عام شکل کو تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالے کجا میرا شہزادہ بیٹا۔ اونہوں۔ ایسا تھپڑ مارا ہے کہ یاد رکھے گی ساری عمر”۔
اچھاااا۔ لو یو مام۔ شمریز کا رکا ہوا سانس بحال ہوا۔ کھانا کھاتے ہی وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ آمنہ بھی سکون سے اپنے کمرے میں گئی رات بھر کی بیٹے کے انتظار میں جاگی ہوئی آمنہ چند منٹوں میں سو گئی۔

اچانک کسی آواز سے اس کی آنکھ کھلی وہ اپنا وہم سمجھ کر پھر سے سونے ہی والی تھی کہ دوبارہ وہی آواز آئی۔ وہ چونک کہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "کسی کے چیخنے کی آواز” شمریز کے کمرے سے”؟ وہ  تیزی سے بھاگی، گرتی پڑتی شمریز کے کمرے تک پہنچی۔ سامنے شمریز خون میں لت پت زمین پہ پڑا تھا اور اویس شمریز کا دوست محلے کے کچھ آوارہ لڑکوں کے ساتھ اسے مارتا جا رہا تھا۔ اس کے منہ سے گالیوں کا سیلاب نکل رہا تھا۔

آمنہ جہاں تھی وہیں کھڑی رہ گئی۔ اسکا دل جیسے بند سا ہو رہا تھا کہ اچانک کسی نے اسے دیکھ کر اویس کو آواز دی۔ اویس نے آمنہ کو دیکھتے ہی اپنا پاؤں روکا اور سب کو واپسی کا اشارہ کرتا آمنہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور آہستہ مگر سخت آواز میں بولا:
"آج میں نے اسے وہ سبق سمجھا دیا ہے جو آپ نا سمجھا سکیں یہ میرا دوست ہو کر میری بہن کو میسج کرتا ہے اسکی تو۔۔۔۔۔ آج تو بس لات توڑی ہے مگر اگر اس نے دوبارہ ایسے کیا تو یہ موبائل پکڑنے کے لیے زندہ نہیں رہے گا”۔

یہ بولتے ہی وہ باہر نکل گیا مگر آمنہ اب تک کمرے کے باہر کھڑی تھی۔ اس نے شمریز کو بڑھ کر سہارا دیا نا ہی اس کے پاس گئی۔ بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے شمریز کو دیکھ رہی تھی اور اس کے دماغ میں وہ وقت گھوم رہا تھا جب اس نے پہلی بار شمریز کا موبائل افیئر پکڑا تھا۔ اس دن شمریز کتنا ڈرا ہوا تھا بار بار اسے منا رہا تھا کہ پاپا کو مت بتائیے گا وہ مجھے مار دیں گے۔ اور آمنہ نے یہ کہتے ہوئے حامی بھر لی تھی، "اوکے چاند! نہیں بتاؤں گی مجھے اپنا بیٹا سب سے پیارا ہے میرا جگر! میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں”۔ اور بعد میں شکایت آنے پہ کہہ دیتی: "میرے بیٹے کی کیا غلطی، تم نہ لے کر دیتی موبائل اپنی حور پری کو، بھلا لڑکیوں نے کرنا کیا ہوتا موبائل کا، غلطی خود کی ہے اور آجاتیں مجھے میرے چاند کے خلاف کرنے۔ اگر اس نے ایک دو میسج یا کال کر بھی دی تو کیا غلط کیا؟”

آج وہ سوچ رہی تھی کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ پہلی بار ہی شمریز کو خود سختی سے روک دیتی یا اس کے پاپا کو بتا دیتی کہ وہ اسے سمجھا لیں۔ اور آج اس کے پیار نے یہ دن دکھایا تھا کہ اس کا پیارا بیٹا خون میں لت پت ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ زمین پہ پڑا تھا۔ اور وہ سوچ رہی تھی غلطی ان لڑکیوں کی ہوتی ہے جن کے پاس موبائل ہوتا یا میری جیسی ماؤں بہنوں کی جو پیار میں سب چھپا لیتیں ہیں۔