Take a fresh look at your lifestyle.

ایکسٹرا شیٹ ۔ سحر شاہ

زمانہ طالبعلمی میں دوران امتحان ہر ایک کو کبھی نہ کبھی ایکسٹرا شیٹ کا تقاضا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ مطالبہ یا تو ضروری سوالات کے جواب طویل ہونے کی بنا پر کیا جاتا ہے یا پھر بعض طلبا اپنی دانست میں کچھ ایکسٹرا سوالات مرتب کرنے کے لیے کرتے ہیں تاکہ نمبرز میں کوئی کمی رہ جائے تو یہاں سے پوری ہوجائے۔ ایکسٹرا شیٹس وصول کرنے والے طلبا کو عموماً بہت لائق فائق اور پڑھاکو ٹائپ مخلوق تصور کرکے ساتھی طلبا اس کے کامیاب ہونے کی پیش گوئی بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ممتحن غیر ضروری سوالات کے حل کو نظرانداز کر کے پیپر کے شروع میں حل شدہ ضروری سوالات کی حد تک ہی خود کو محدود رکھتا ہے، نتیجتاً رزلٹ ہمیشہ پیش گوئی یا توقعات کے برعکس سامنے آتا ہے۔ دوران امتحان جب تک پرچہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اپنی کامیابی یا ناکامی آپ پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ ہاتھ سے نکل جائے تو پھر بعد میں کفِ افسوس ملنے پر بھی رزلٹ کارڈ پر۔۔ "Fail” کو "Pass” میں بدلنا ممکن نہیں رہتا۔ تب صرف ایک احساس باقی رہ جاتا ہے کہ کاش صرف ضروری سوالات کو ہی صحیح طریقے سے حل کر لیا ہوتا۔

اب ذرا اس حقیقی دارالامتحان میں خود کو رکھ کر سوچیے۔ یہ واحد امتحان ہے جس کے تمام ضروری سوالات کا حل ہم تک مصدقہ ذریعے سے پہنچا دیا گیا ہے لیکن ہم ضروری سوالات کو چھوڑ کر’’ایکسٹرا شیٹس‘‘ کو بھرنے میں مصروف ہیں۔ ’’فرائض‘‘ کو چھوڑ کر ’’نوافل‘‘ کے ذریعے آخرت کی کامیابی کو ممکن بنانا چاہتے ہیں۔

کلمہ ایمان کے بعد نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بنیادی فرائض ہیں۔ سب سے پہلے تو نماز ہی کا سوال کیا جائے گا۔ جس کی نماز صحیح نکل آئی، اس کے لیے پھر باقی معاملات شاید آسان کر دیے جائیں۔ ہم پانچ وقت کی ’’فرض‘‘ عبادت کو نظرانداز کر کے چند مخصوص راتوں کی ’’نفلی‘‘ عبادت کو نجات کا ذریعہ مان بیٹھے ہیں۔ ہمارے پرچہ کا وہ ضروری سوال جس کو لازمی حل کرنا ہے وہ فرض نماز کو صحیح طریقے سے مکمل آداب کے ساتھ ’’قائم‘‘ کرنا ہے۔ ’’نفلی عبادات‘‘ آپ کے درجات کی بلندی کا باعث ہیں، جبکہ ’’فرض عبادات‘‘ پر ہماری نجات منحصر ہے۔ جب ہمارے پاس جنت کی کنجی ہی نہ ہوگی تو درجات کی بلندی کا کیا سوال ہے۔

آج نمازی بھی ہمیں کثرت سے نظر آتے ہیں لیکن سورہ واقعہ میں ارشاد ربانی ہے کہ پچھلوں میں سے بہت کم لوگ جنت کے اعلیٰ درجات میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ہماری نمازوں میں جو کمی ہے وہ قبول ہو بھی گئی تو بلندی درجات کا باعث نہیں بنے گی۔ قرآن میں نماز کو ’’ادا۔۔‘‘ کرنے کے بجائے ’’قائم‘‘ کرنے کا حکم ملا ہے وہ بھی بغیر سُستی کے مقررہ وقت پر۔ ۔ ۔ جبکہ ہماری اکثریت تو نماز کو بس ’’پڑھنے‘‘ کی عادی ہے۔

اسی طرح معاملہ باقی فرائض کا ہے، ہم جیسے تیسے انہیں بس پورا کرتے ہیں۔ روزے رکھے لیکن بغیر اس کی روح کو پائے۔ جس تقویٰ کے حصول کے لیے اللہ نے یہ عبادت فرض کی، وہ تو بس وقتی کیفیت تھی جو عید کا اعلان سنتے ہی بھاپ بن کر اُڑ گئی۔ حج اور زکوٰۃ کا حال بھی نماز روزے سے مختلف نہیں۔

امتحانِ دنیا میں فرض عبادات کے علاوہ اخلاقی اقدار کا سوال بھی ازحد اہمیت کا حامل ہے جو کہ ہم پر فرض ہیں۔ اس اہمیت کو اگر سمجھنا ہو تو وہ حدیث سامنے رکھ لیجیے جس کے مفہوم کے مطابق روزِ قیامت نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج جیسی عبادات کا ڈھیر ساتھ لانے والے شخص کو صرف اس بنا پر جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا کہ مذکورہ شخص نے اخلاقی معاملات میں لاپرواہی برتی ہوگی، کسی کا جائز حق مارا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی غیبت کی ہوگی، چغلی، فساد برپا کیا ہوگا، کسی کی دل آزاری کی ہوگی۔ ۔ ۔ الغرض اپنے پرچے کا حصہ عبادات تو پرُ کیا ہوگا لیکن حصہ اخلاقیات میں اپنی مرضی سے غلط جوابات درج کیے ہوں گے۔ انصاف کے تقاضے نبھاتے ہوئے اس شخص کی عبادات حقداروں میں تقسیم نیز ان کے گناہوں کا بوجھ اس پر لاد دیا جائے گا۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہی شخص ان کی امت میں سب سے بڑا مفلس ہوگا۔

قرآن کا مطلوب انسان بننا ہی ہمارے امتحان کا درست جواب ہے۔ اس کا عملی نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور قرآن پاک میں ہمارے لیے تاقیامت محفوظ کر دیا گیا ہے۔ جنت اتنی سستی اور معمولی چیز تو ہرگز نہیں ہے کہ اللہ صرف ہماری خوش گمانیوں کی بنا پر ہمیں بخش دے گا۔ پرچہ ایک ہی ہے، اس کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ ایمانیات و عبادات، دوسرا حصہ اخلاقیات۔ صحیح اور مکمل حل کریں گے تو ہی نجات پائیں گے ورنہ کوئی صورت نہیں۔

یہ تو بیان ہے ضروری سوالات کا۔۔۔ ان کو ٹھیک سے حل کریں، خود کو پاسنگ مارکس لینے کے قابل تو بنائیں۔ اس کے بعد جتنی چاہیں، چھوٹی بڑی لاتعداد نیکیاں کرتے جائیں، اپنے درجات بلند کرنے یا دوسرے لفظوں میں اپنا گریڈ اے پلس میں شامل کروانے کے لیے اپنی ’’ایکسٹرا شیٹس‘‘ کو بھرتے جائیں۔ کیونکہ اللہ تو بے حد و حساب اجر دینے والا ہے۔ اس کے ہاں تو انسان کا معمولی سا رائی کے دانہ کے برابر عمل بھی رائیگاں نہیں جاتا۔

پرچہ ابھی ہاتھ میں ہے، مہلتِ زندگی کب تک میسر ہے، اس کا علم نہیں۔ سو جو فرض ہے اس کی مکمل طریقے سے ادائیگی کو ممکن بنائیے تاکہ کل کو ’’کاش! صرف ایکسٹرا پر انحصار کے بجائے ضروری سوالات ہی صحیح طریقے سے حل کرلیے ہوتے‘‘ جیسی حسرت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور حسرت بھی وہ جو ابدی ہوگی۔