ایک نئی دیوار چین ۔ ریاض علی خٹک
چین کے شمال میں صحرائے گوبی ہے۔ اس عظیم صحرا کے پڑوسی ہونے کی قیمت چین زمین دے کر ادا کر رہا تھا۔ صحرا کی گرم تیز خشک ہوائیں جب اپنی سرحدوں سے نکلتیں تو چین کے سرسبز میدانوں پر دھاوا بول دیتیں۔ ہر سال 36 سو مربع کلومیٹر قابل کاشت زمین چین کے کسانوں سے چھین لیتی۔ ریت وہاں کی پہچان بنتی اور شدید گرم ہوا سبزہ جلا دیتی۔
چین نے ماضی میں شمال جنوب کے گھڑ سواروں سے بچاؤ کے لیے عظیم دیوار چین بنائی تھی۔ شمال کے اس نئے حملہ آور کے خلاف بھی اس نے 1978 میں ایک دیوار کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ عظیم سبز دیوار یعنی جنگل اُگانے کا فیصلہ تھا۔ چین جو بڑی بڑی عمارات دنوں ہفتوں میں بناتا ہے، اس نے اس بظاہر ناممکن کام کیلئے ٹارگٹ 2050 سیٹ کیا۔ آج دُنیا میں انسان کا لگایا سب سے بڑا جنگل چین میں ہے۔
سال 2007 میں 5 لاکھ مربع کلومیٹر زمین یعنی پراجیکٹ کی 18 فیصد زمین کو چین درختوں سے بھر چکا ہے۔ کہتے ہیں تاریخ ہمارے آج پر کل کے لیے گواہ بنتی ہے۔ آپ کسی بزرگ سے بیس پچیس سال پہلے کے کراچی کا موسم پوچھیں۔ یہ ایک ایسا شہر تھا جس میں نہ سردی شدید تھی نہ گرمی۔ آج لیکن مارچ سے لے کر نومبر تک کراچی ایک ایسے حبس زدہ گرم تندور کا منظر پیش کرتا ہے جس کی آگ بجھ چکی ہو لیکن راکھ کے نیچے کوئلے دہک رہے ہوں۔
ایک طرف سے صحرا شہر میں گھس رہا ہے دوسری طرف سے کنکریٹ کا سمندر پھیل رہا ہے۔ ساحل پر سمندر سے مینگروز کے جنگلات صاف ہوگئے اور سمندر سے نالے کے پانی کی بدبو آرہی ہوتی ہے۔ ہمیں تو چین کے منصوبے کا پانچ فیصد بھی بہت ہے۔ کیا آج ہم اپنے کل کے لیے شہر کے مضافات اور خالی میدان سرسبز کرسکتے ہیں؟