Take a fresh look at your lifestyle.

صبر: دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راستہ ۔ ابویحییٰ

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ اس کتاب کے نزول کے ساتھ انبیا کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ اسی بات سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب خدا کا پیغام پہنچانے کے معاملے میں کتنی واضح ہے کہ اب کسی نبی کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ دین کا اصل پیغام یعنی ایمان و اخلاق کو انسانوں تک پہنچائیں۔ یہ پیغام نہ صرف اس کتاب میں پوری شرح و وضاحت کے ساتھ بار بار دہرایا گیا ہے بلکہ مطلوب اعمال کی قدر و قیمت بھی اس طرح واضح کی گئی ہے کہ تدبر کی نگاہ سے قرآن پڑھنے والا کوئی شخص اس قدر و قیمت سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔

ان مطلوب اعمال و اوصاف میں سے ایک صبر کا وصف بھی ہے۔ آج اسی پر تفصیل سے گفتگو ہوگی اور اس مضمون کے مطالعے کے بعد اس طالب علم کا یہ یقین ہے کہ انشاء اللہ صبر سے متعلق قارئین کا نقطہ نظر بالکل بدل جائے گا۔

صبر سے متعلق غلط فہمیاں
یہ جو آخری بات کہی گئی ہے کہ صبر سے متعلق قارئین کا نقطہ نظر بالکل بدل جائے گا، اس کی ایک وجہ ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے ہاں عام طور پر صبر کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اہمیت اسے قرآن مجید نے دی ہے۔ صبر ہمارے ہاں عام طور پر ایک سلبی چیز سمجھا جاتا ہے جو مجبوری اور بے بسی کے عالم میں کیا جاتا ہے۔ اس کا دائرہ غم و مشکلات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اسے ہمارے ہاں عام طور پر کم ہمتی اور بزدلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے معنی اور مفہوم کے حوالے سے بھی بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

ان سب وجوہات کی بنا پر صبر نہ صرف ہمارے مذہبی فکر میں اپنی اصل جگہ نہیں پاسکا بلکہ اس کی عدم موجودگی کی بناء پر ہمارے پورے تربیتی نظام میں بڑی کمزوری پیدا ہوگئی ہے۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے مسائل کے پیچھے یہ حقیقت کار فرما ہے کہ صبر ہماری تربیت کا حصہ نہیں ہے یا ہم صبر کے مفہوم ہی سے واقف نہیں ہیں۔ جبکہ درحقیقت صبر انسانی شخصیت کا سب سے اہم اور بنیادی وصف ہے۔ صبر نہ ہو تو کوئی شخص دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید اسے دنیا و آخرت میں فلاح کا راستہ قرار دیتا ہے۔ آج کی اس گفتگو میں انشاء اللہ انھی چیزوں کی تفصیلی وضاحت قرآن مجید کی روشنی میں کی جائے گی۔

صبر: فلاح ِآخرت کا راستہ
گفتگو کے آغاز میں یہ طالب علم قرآن مجید کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح کرے گا کہ آخرت کے پہلو سے اللہ تعالیٰ صبر کو کس مقام پر رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ جنت کی فوز و فلاح کو بیان کرتے ہیں تو عام طور پر اسے کچھ متعین اعمال کی جزا کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ وہ پورے دین کا خلاصہ ایمان و عمل صالح کی شکل میں بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کو اختیار کرتے ہیں ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔

تاہم قرآن مجید کے کئی مقامات پر انھوں نے تمام اعمال، عبادات، اخلاقیات اور سب سے بڑھ کر ایمانیات کو چھوڑ کر صرف صبر ہی کو جنت میں داخلے کی وجہ بتایا ہے۔ تنہا اسی بات سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک صبر کی قدر و قیمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چند مقامات درج ذیل ہیں۔
إِنِّیْ جَزَیْْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّہُمْ ہُمُ الْفَاءِزُونَ۔ المومنون 111:23
”آج ان کے صبر کا میں نے ان کو صلہ دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں۔“

وَجَزَاہُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّۃً وَحَرِیْرا. الدھرً 12:76
”اور ان کے صبر کے بدلے میں انھیں (رہنے کے لیے) باغ اور (پہننے کے لیے) ریشمی پوشاک عطا فرمائی“

أُوْلَءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَسَلَاماً۔ خَالِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرّاً وَمُقَاماً۔ الفرقان 25:75-76
”یہی ہیں جن کو ان کی ثابت قدمی کے صلے میں بہشت کے بالا خانے ملیں گے اور وہاں آداب و تسلیمات کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔“

أُوْلَءِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَہَا…… وَالمَلاَءِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ۔ سَلاَمٌ عَلَیْْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار۔ الرعد13:22-24
”اگلے گھر کا انجام انھی کے لیے ہے۔ ابد کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے…… فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔ اور کہیں گے: تم لوگوں پر سلامتی ہو، اس کے لیے کہ تم ثابت قدم رہے۔ سو کیا ہی خوب ہے یہ اگلے گھر کا اچھا انجام!“

ان مقامات کو پڑھیے اور بار بار پڑھیے۔ آپ پر صبر کی اہمیت واضح ہوگی کہ کس طرح جنت کی کامیابی، اس کے باغات، اس کا ریشمی لباس، اس کے بلند و بالا گھر، اس میں فرشتوں کے سلام غرض ہر نعمت کو صبر کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پہلو سے قرآن مجید میں کوئی دوسرا وصف ڈھونڈنا مشکل ہے جس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اس طرح گفتگو کی ہو۔

صبر: دنیا میں فلاح کا راستہ
معاملہ صرف آخرت ہی کا نہیں بلکہ دنیا میں بھی فلاح و کامرانی کا دروازہ جس شاہ کلید سے کھلتا ہے، قرآن مجید اسے بھی صبر قرار دیتا ہے۔اس حوالے سے قرآن مجید نے جن چند اہمپہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کو ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں۔

اس ضمن کی پہلی چیز دشمن پر غلبہ اور جنگ میں کامیابی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہوگی کہ جنگ جیسے موقع پر جہاں بہادری و جوان مردی کو کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ جنگی حکمت عملی کو فتح کا راز سمجھا جاتا ہے۔ یا پھر مذہبی پہلو سے دیکھیں تو خیال ہوتا ہے کہ ایمان کو مطلوب صفت کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے۔ مگر ان سب کے برعکس قرآن مجید جب جنگ میں کامیابی اور دشمن پر غلبے کا راستہ بتا رہا ہے تو اس وقت سارے اوصاف چھوڑ کر صبر کا وصف بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْن (الانفال 8:65)
”اگر تمھارے لوگوں میں بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے۔“

یہ جنگ بدر کا موقع تھا جب صحابہ کرام کی وہ جماعت میدان میں تھی جنھیں بلاشبہ قدسیوں کی جماعت کہا جاسکتا ہے اور جن سے بہتر لوگ انسانیت نے کبھی نہیں دیکھے۔ مگر ان کا بھی جو وصف قرآن نے بیان کیا ہے وہ صبر ہی ہے۔ اس کے بعد مزید لوگ ایمان لائے جن کی بنا پر مومنین کی جماعت میں ایک نوعیت کا ضعف پیدا ہوگیا۔ چنانچہ ایک اور دس کا تناسب بدل کر ایک اور دو کا کر دیا گیا۔ مگر مطلوب وصف نہیں بدلا گیا بلکہ وہی رہا۔ یعنی دو سو کے مقابلے میں سو صبر کرنے والے ہونے چاہئیں تب ان کو دشمن پر غلبہ ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ (الانفال 8:66)
”سو تمھارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے۔“

یہی صبر ہے جس کی درخواست جالوت کے خلاف لڑنے والے ان اہل ایمان نے کی تھی جن کی قیادت طالوت کر رہے تھے۔ حضرت دادؤ نے اس جنگ میں جالوت کو قتل کیا تھا اور بادشاہ طالوت نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی تھی۔ بعد ازاں حضرت داؤد بنی اسرائیل کے حکمران بن گئے۔ اس جنگ کے حوالے سے اہل ایمان کی جو دعا قرآن نے نقل کی وہ درج ذیل ہے۔
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْْنَا صَبْراً وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (البقرہ 2:250)
”اے ہمارے رب ہم پرصبر انڈھیل دے اور ہمارے قدموں کو جمادے اور ان منکروں کے مقابلے میں ہماری مدد
فرما۔“

یہ دعا صرف صبر کی دعا نہیں بلکہ نصرت الٰہی کی ایک درخواست بھی ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر واضح کر دیا کہ نصرت الٰہی کے لیے بھی صبر ہی بنیادی وصف ہے جو مطلوب ہے۔ اس حوالے سے جنگ احد کے موقع پر نازل ہونے والی درج ذیل آیت ملاحظہ کیجیے جس میں فرشتوں کے نزول کو صبر پر موقوف کیا جارہا ہے۔ یہاں گرچہ تقویٰ کا بھی ذکر ہے اور آگے بھی صبر کے ساتھ دوسرے اوصاف بیان ہوں گے مگر نوٹ کیجیے کہ ہر جگہ صبر کو مقدم کرکے اس کی بنیادی حیثیت کو نمایاں کر دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
بَلَی إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَیَأْتُوکُم مِّن فَوْرِہِمْ ہَ ذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُم بِخَمْسَۃِ آلافٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ(آل عمران 3:125)

”ہاں کیوں نہیں، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے رہو اور تمھارے دشمن اسی وقت تم پر آپڑیں تو تمھارا پروردگار پانچ ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا جو خاص نشان لگائے ہوئے ہوں گے۔“

موجودہ دور میں مسلمانوں کو اکثر و بیشتر یہود و نصاریٰ، روس و امریکہ، بھار ت اور اسرائیل کی سازشوں کی فکر رہتی ہے۔ قرآن نے دشمنوں کی چالوں اور سازشوں کو بھی موضوع بحث بناکر ان سے بچنے کا نسخہ بتایا ہے۔ اس نسخے کا جز اول ایک دفعہ پھر صبر ہی ہے۔
وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْْدُہُمْ شَیْْئاً(آل عمران 3:120)
”اور(یاد رکھو کہ) اگر تم صبر کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اِن کی کوئی تدبیر تمھیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔“

موجودہ دور میں مسلمان غیرمسلموں سے ہر اعتبار سے بہت کمزور ہیں۔ یہی معاملہ بنی اسرائیل کا تھا جن کا دشمن فرعون ان سے بہت طاقتور تھا۔ حال یہ تھا کہ وہ ان کے نومولود بچوں کو قتل کر دیا کرتا اور وہ اس بدترین ظلم کے خلاف کچھ نہیں بول سکتے تھے۔ وہ قومی طور پر فرعون اور اس کی قوم کے غلام تھے۔ مگر قرآن بتاتا ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو ان کے درمیان مبعوث کرکے جو وعدے بھی ان کے ساتھ کیے تھے وہ پورے کیے اور ان کے دشمن فرعون کو ہلاک کیا، مگر یہ اس وقت ہوا جب انھوں نے صبر سے کام لیا۔
وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُواْ یَعْرِشُونَ (الا عراف7:137)
”بنی اسرائیل پر تیرے پروردگار کا وعدہئ خیر اس طرح پورا ہوا، کیونکہ وہ ثابت قدم رہے اور ہم نے فرعون اور اُس کی قوم کا سب کچھ برباد کر دیا جو وہ (اپنے شہروں میں) بناتے اور جو کچھ (دیہات کے باغوں اور کھیتوں میں ٹٹیوں پر) چڑھاتے“

ہمارے ہاں ایک اور اہم مسئلہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ صحیح لیڈرشپ نہیں پیدا ہوتی۔ قرآن مجید نے اس مسئلے کا جو حل بنی اسرائیل کے حوالے سے بیان کیا ہے، اس میں بھی صبر کو مطلوب وصف کے طور پر بیان کیا ہے۔ بلکہ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ یقین یعنی ایمان کا ذکر صبر کے بعد کیا ہے۔ مقدم یہاں بھی صبر ہی کو رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَءِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ۔
”اور جب اُنھوں نے ثابت قدمی دکھائی اور وہ ہماری آیتوں پر یقین بھی رکھتے تھے تو اُنکے اندر ایسے پیشوا اٹھائے جو ہمارے حکم سے اُن کی رہنمائی کرتے تھے۔“،(السجدہ24:32)

صبر سے متعلق غلط تصورات کی تصحیح
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی روشنی ہی میں صبر سے متعلق ہمارے معاشرے میں رائج تصورات کی تصحیح کر دی جائے۔ مثلاً جو ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ صبر عجز و تذلل، بے بسی، مجبوری و لاچاری میں کیا جانے والا کام ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں ہرگز ایسا نہیں۔ یہاں تو یہ اس قوت و عزم کی اساس ہے جس سے مدد چاہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صحابہ کرام کو شہادت حق کے منصب پر فائز کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس جدوجہد کا حکم دیا، اس میں انھیں صبر سے مدد چاہنے کی تلقین کی گئی تھی۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ،(البقرہ153:2)
”ایمان والو ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں۔“

اس آیت میں نہ صرف صبر نماز سے مقدم ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ غور کیجیے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہیں۔ حالانکہ نماز کی اہمیت اور عظمت سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس وصف یعنی صبر سے مدد مانگی جارہی ہے اور جس کے ساتھ خدا کی معیت کا وعدہ ہے، وہ عجز وبے بسی کی علامت کیسے ہوسکتا ہے؟

صبر سے متعلق ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ یہ غم کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ صبر کے موقع پر غم نہ کرنے کا تصور اپنی ذات میں ایک غلط تصور ہے۔ غم تو ایک فطری چیز ہے جو محرومی اور نقصان کے ہر موقع پر انسان محسوس کرتا ہے۔محرومی میں کسی کا غم محسوس کرنا غیرفطری نہیں بلکہ اسے یہ تلقین کرنا غیر فطری ہے کہ وہ غم محسوس نہ کرے۔

صبر کا اصل مفہوم
صبر کے حوالے سے یہ ساری غلط فہمیاں اس بنا پر پیدا ہو رہی ہیں کہ ہم لوگ صبر کے درست تصور سے واقف ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ صبر کا صحیح تصور قرآن مجید کی روشنی میں لوگوں پر واضح کیا جائے۔

صبر اصلاً ایک مذہبی وصف نہیں بلکہ ایک انسانی وصف ہے۔ قرآن مجید نے اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ ایک موقع پر جب کفار کے سرداروں نے حضور کی دعوت حق کی نفی کی تو اس موقع پر انھوں نے اپنے بتوں سے وابستہ رہنے، ان کی عبادت پر جمے رہنے اور ان کی حقانیت پر مطمئن ہونے کے لیے یہی صبر کا لفظ بولا جسے قرآن نے نقل کر دیا۔ ارشادی باری تعالیٰ ہے:
وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْہُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَی آلِہَتِکُمْ إِنَّ ہَذَا لَشَیْْء ٌ یُرَادُ (ص 38:6)
”ان کے سردار اٹھ کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ یہی چیز مطلوب ہے۔“

اس آیت میں بالکل واضح ہے کہ صبر ایک انسانی وصف ہے۔ یہ لفظی طور پر رکے رہنے اور روکنے کے معنی میں آتا ہے۔ آگے بڑھ کر یہی اپنے موقف، نظریے، عمل، رویے اور سوچ پر رکے رہنے اور اپنے آپ کو اس پر روکے رکھنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک اصولی فیصلہ ہے راہ راست پر رہنے کا اور پھر اس سے نہ ہٹنے کا۔

اس کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق انسان کے ذہن و فکر سے ہے۔ یعنی انسان کسی نقطہ نظر کو درست سمجھے اور پھر ہر طرح کے حالات پر اس نقطہ نظر پر قائم رہے۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق انسان کے عملی رویے سے ہے۔ یعنی اس نقطہ نظر پر ثابت قدم رہنے میں جو کچھ اچھے برے حالات پیش آئیں، ان میں انسان اس نقطہ نظر سے جنم لینے والے عملی تقاضوں کو نبھانے میں کوئی کوتاہی نہ برتے۔

دین میں صبر کا مفہوم
دین میں صبر کا یہی مفہوم ہے۔ البتہ جس موقف پر ثابت قدم رہنے کے لیے کہا گیا ہے وہ صرف حق ہے۔ حق وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ماننے یا کرنے کے لیے کہا ہو۔ اس بات کو سورہ عصر میں بیان کردہ دینی مطالبات کی رو سے سمجھا جاسکتا ہے۔
وَالْعَصْرِ۔ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْر۔ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ،(العصر1-3:103)
”زمانہ گواہی دیتا ہے، یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی۔“

دیکھ لیجیے کہ یہاں اصل مطالبہ ایمان اور عمل صالح ہے جو خدا کی طرف سے پیش کردہ دو بنیادی نظری اور عملی مطالبات ہیں۔ پھر انھی کو سمیٹ کر ایک لفظ حق سے آگے بیان کر دیا کہ ایمان و عمل صالح کے جس حق کو اہل ایمان خود اختیار کرتے ہیں، اسی کی دوسروں کو تلقین کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ کسی کے قدم اس حق سے ڈگمگا رہے ہیں تو اسے اس حق پر ثابت قدمی یا صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

صبر کے مواقع
قرآن مجید نے بالاجمال صبر کا ذکر کرنے کے ساتھ ان مواقع کی خاص طور پر نشاندہی بھی کی ہے جہاں انسان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور جہاں صبر کے بغیر انسان درست رویے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ ذیل میں ہم ان کو ایک ایک کرکے بیان کریں گے۔

مصائب پر صبر
مصائب زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ خدا نے یہ دنیا امتحان کی جس اسکیم کے تحت بنائی ہے اس میں انسان زیادہ تر نعمتوں میں جیتا ہے، لیکن وقفے وقفے سے انسان محرومی اور مشکلات کے تجربے سے گزرتا ہے جن کی اپنی حکمتیں ہیں۔ لیکن ان نامساعد حالات میں انسان صبر سے کام نہ لے تو پھر وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان کا عقیدہ اور عمل دونوں کی خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غیراللہ کے درسے لو لگانا، خدا سے مایوس ہوکر اس کے وجود سے انکار کر دینا، حالات کی سختیوں سے حرام میں مبتلا ہو جانا، سخت حالات میں جزع فزع کرنا اور کلمات کفر کو زبان سے نکالنا وہ چیزیں ہیں جو صبر نہ ہونے کی بنا پر ظاہر ہوتی ہیں۔ چنانچہ اہل ایمان کو ایسے سارے حالات میں صبر یعنی درست رویے پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد ہے۔
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ (البقرہ155:2)
”ہم (اس راہ میں) یقینا تمھیں کچھ خوف، کچھ بھوک اور کچھ جان و مال اور کچھ پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے۔ اور (اِس میں) جو لوگ ثابت قدم ہوں گے، (اے پیغمبر)، انھیں (دنیا اور آخرت، دونوں میں کامیابی کی) بشارت دو۔“

قرآن مجید نے ان مواقع پر صبر کی تلقین کرکے یہ خوشخبری دی ہے کہ اس صبر کا بدلہ خدا کی رحمت و برکت اور اس کی طرف سے ملنے والی خصوصی ہدایت ہے۔ اس کی تفصیل ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے۔ آپ نے ہر طرح کے مصائب پر جب صبر کیا تو آپ کو تمام نعمتیں بہتر کرکے لوٹا
دی گئیں۔
نیکی و دعوت کی راہ پر صبر
نیکی کی راہ اپنی ذات میں ایک مشکل راہ ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر انسان دوسروں کو نیکی کی طرف بلانا شروع کر دے تو یہ مزید ہمت طلب کام ہے۔ انسان یہ کام کر بھی لے تو وہ توقع کرتا ہے کہ دوسرے اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس کی درمندی کو محسوس کریں گے۔ مگر اس راہ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ کانٹوں بھری راہ ہے۔ تعریف تو درکنار یہاں اکثر تنقید سننے کو ملتی ہے۔

لیکن مومن اگر سچا مومن ہے تو اسے اس راہ میں گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ انبیا کا راستہ ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اسی بات کی نصیحت کی تھی۔
وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَکَ (لقمان17:31)
”اور(اِس راہ میں) جو مصیبت تمھیں پہنچے، اُس پر صبر کرو۔“

قرآن میں جگہ جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی بدکلامی، ظلم و زیادتی اور ان کے منفی رویے پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک مقام درج ذیل ہے۔
وَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْراً جَمِیْلاً،(المزمل10:73)
”یہ جو کچھ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو، اِن سے نہایت بھلے طریقے سے صرف نظر کرو۔“

برائی کے جواب میں صبر
صبرکا ایک اور اہم موقع دوسروں کی برائی کے جواب میں اچھا رویہ اختیار کرنا ہے۔ دین میں گرچہ بدلہ لینے کا حق ہے، مگر عزیمت کا راستہ یہی ہے کہ دوسروں کی زیادتی کے جواب میں انھیں معاف کر دیا جائے۔
وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ،(شوریٰ43:42)
”البتہ جو صبر کریں اور معاف کر دیں تو بے شک، یہی کام ہیں جن کی تاکید کی گئی ہے۔“

برائی کا جواب بھلائی سے دینے کا یہی وہ رویہ ہے جس کو بڑے نصیب والوں کا مقام قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍ،(حم السجدہ34-35: 41)
”حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اور برائی، دونوں یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کے جواب میں وہ کرو جو اُس سے بہتر ہے تو دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے، وہ گویا ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔ اور (یاد رکھو کہ) یہ دانش انھیں کو ملتی ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں اور یہ حکمت اُنھی کو عطا کی جاتی ہے جن کے بڑے نصیب ہیں۔“

حالت نعمت میں راہ راست پر رہنے کے لیے صبر
ایک آخری مقام اس حوالے سے وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ یہ بات بیان کرتے ہیں کہ نعمتوں کی حالت میں درست رویہ اختیار کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ انسان صبر کرے۔ یہ وہ چیز ہے جو عام حالات میں سوچی نہیں جاسکتی کہ اللہ تعالیٰ نعمتوں میں بھی صبر کی تلقین کریں گے۔ مگر صبر کا اصل مفہوم اگر واضح رہے تو یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ حق پر ثابت قدمی صرف برے حالات میں نہیں بلکہ اچھے حالات میں بھی مطلوب ہوتی ہے۔ چنانچہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ انسان نا مساعد حالات میں مایوسی اور ناشکرے پن سے بچے، اسی طرح یہ ضروری ہے کہ حالات اچھے ہوں تو انسان شیخی خورے پن اور اترانے سے باز رہے۔ اس بات کو سورہ ہود میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
وَلَءِنْ أَذَقْنَا الإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنَاہَا مِنْہُ إِنَّہُ لَیَؤُوسٌ کَفُور۔وَلَءِنْ أَذَقْنَاہُ نَعْمَاء بَعْدَ ضَرَّاء مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ذَہَبَ السَّیِّءَاتُ عَنِّیْ إِنَّہُ لَفَرِحٌ فَخُور۔ إِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَ ءِکَ لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ کَبِیْرٌ،(ہود9-11: 11)
”انسان کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اُس کو اگر اپنے کسی فضل سے نوازیں، پھر اُس سے اُسے محروم کر دیں تو لازماً شکایت کرے گا، اِس لیے کہ وہ جلد مایوس ہو جانے والا اور نہایت ناشکرا ہے۔ اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اُس کو پہنچی ہو، ہم اسے نعمت کا مزہ چکھائیں تو ضرور کہے گا کہ میری سب مصیبتیں مجھ سے دور ہوئیں (اور پھولا نہیں سمائے گا)، اس لیے کہ وہ بڑا اترانے والا اور شیخی بگھارنے والا ہے۔ اس سے وہی مستثنیٰ ہیں جو صبر کرتے اور اچھے عمل کرتے ہیں۔ انھی کے لیے مغفرت بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔“

خلاصہ گفتگو
خلاصہ کلام یہ ہے کہ صبر اچھے برے ہر طرح کے حالات میں حق پر قائم رہنے کا نام ہے۔ زندگی کے سرد و گرم میں حق کے بارے میں نہ انسان کا نظریہ بدلے نہ اس کا رویہ بدلے۔ حق پر یہ ثابت قدمی جس طرح مصائب میں مطلوب ہے، اسی طرح لوگوں کے برے رویے، دعوت حق اور نعمت کے حال میں بھی مطلوب ہے۔ جو لوگ اس حق پر اس طرح ثابت قدم رہتے ہیں انھیں دنیا میں غلبہ و تحفظ ملتا ہے، وہ نصرت الٰہی کے حقدار ہوتے ہیں، انھیں دشمنوں کی سازشوں سے بچایا جاتا ہے اور طاقتور دشمنوں کے مقابلے میں بھی ان کو فتح یاب کیا جاتا ہے۔ جبکہ آخرت میں یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی ابدی کامیابی اور اس کی نعمتیں حاصل کریں گے۔

اگر ہم نے انفرادی طور پر آخرت کی فلاح حاصل کرنی ہے اور اجتماعی طور پر دنیا میں اپنا غلبہ قائم کرنا ہے تو ہمیں صبر کی بنیا دپر اپنی قوم کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اس ادنیٰ طالب علم کی یہ تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فکری اور عملی تربیت کے اس سلسلے کو عام کردے۔ آمین۔

جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت بن کر رہیں، باعث آزار نہ بنیں۔