Take a fresh look at your lifestyle.

دوسروں کا فیصلہ کرنا ۔ ابویحییٰ

سوال:السلام علیکم۔
امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ ایک سوال عرض تھا آپ کی خدمت میں۔
ٍآج سوشل میڈیا پر ایک خبر پڑھی جس میں کراچی کی ایک محترمہ نے خود کشی کرلی، مرحومہ کسی گدی نشین کی بیٹی جبکہ پیشے سے ڈاکٹر تھی، خود کشی کی خبر پوسٹ کرنے والے نے مرحومہ کی دو تصاویر بھی لگائی ہوئی تھیں جس میں مرحومہ نے ماڈرن ملبوسات پہنے ہوئے تھے، جیسے بغیر آستین شدہ اور کھلے بال میک اپ کے ساتھ وغیرہ۔ کمینٹس دیکھے تو کئی لوگوں نے غصے سے بھرے کمینٹس کیے ہوئے تھے جیسے، کپڑوں سے اندازہ ہو رہا ہے طرز زندگی کیسی ہوگی، جہنم میں جائے گی، ایکٹریسز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، خود کشی کرنے والوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے تاکہ اور لوگ سیکھیں، طنزیہ لہجے میں کہ ’یہ گدی نشین کی بیٹی ہے‘ اور اسی طرح کے دیگر کلمات۔

آپ سے سوال ہے کہ جب ایک مسلمان خود کشی کرتا ہے تو اس کے متعلق دوسرے مسلمانوں کا رویہ کیسا ہونا چاہیے اور خاص کر جب خود کشی کرنے والا ظاہری طور پر کچھ حد تک مغربی کلچر اپنی زندگی میں ایڈاپٹ کیے ہوئے ہو تو؟
جواب:
محترم بھائی ارسلان شیخ صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ہمارے معاشرے کا یہ عظیم المیہ ہے کہ ہم کسی خرابی یا غلطی تک خود کو محدود کرنے کے بجائے انسانوں کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں۔ میرے بھائی! انسانوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ظاہر و باطن، حاضر و غائب کی اور پیش منظر و پس منظر کی اتنی زیادہ چیزوں کا علم ہونا ضروری ہے جو سوائے خدائے عالم الغیب کے کسی کو نہیں ہوسکتا۔ ایک شخص نے ایک کام کیا تو کیوں کیا؟ اس کے حالات کیا تھے؟ وہ کس صورتحال سے گزر رہا تھا؟ اس کی باڈی کیمسٹری کیا تھی؟ اس کی تربیت اور وراثت کیا تھی؟ اس کا علم اور فہم کیا تھا؟ اس کی نیت اور ارادہ کیا تھا؟ ان جیسی ہزار چیزیں ہوتی ہیں جو کسی فرد کے عمل، رویے، خیالات اور عادات کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں۔ قیامت کے دن جب ہر شخص اللہ کے سامنے پیش ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی عادل اور کریم ہستی ان میں سے ایک ایک چیز کی رعایت اور لحاظ کرکے ہر فرد کے ساتھ جدا معاملہ کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس روز بہت نیک نظر آنے والے لوگ خدا کی میزان عدل میں مجرم ثابت ہوں اور بہت سے لوگ جنھیں ہم گناہ گار سمجھتے ہیں، اس روز سرخرو ہوجائیں۔

اس لیے میری درخواست یہ ہے کہ لوگوں کا فیصلہ کرنے کے بجائے ہمیں اِس معاملے کو اُس علیم و خبیر ہستی کے حوالے کر دینا چاہیے جو ظاہر و باطن کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ہمیں کوئی تنقید کرنی بھی ہے تو خود کو برائی تک محدود رکھیں۔ ہم خود کشی کو ہر حال میں برا کہیں گے اور اس کو گناہ قرار دیں گے۔ لیکن کسی نے یہ کام کرلیا تو اس کا فیصلہ ہم نہیں بلکہ خدا کرے گا۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا۔ اگر کوئی خاتون یا مرد ہمارے لحاظ سے اسلام کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتا تو ہمیں اس شخص کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ ہمیں اس کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اگر وہ ہم سے قریب ہو تو اسے سمجھانا چاہیے۔ اس سے آگے بڑھ کر خدائی فوجدار بننے کی کوشش کرنا خود ہمیں جوابد ہی کے مقام پر لے آئے گا۔ یہ بات ہر شخص اور خاص کر آج کے مذہبی لوگوں کو سب سے بڑھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بندہ عاجز
ابویحییٰ