Take a fresh look at your lifestyle.

بیمار بچے کا پروٹوکول ۔ پروفیسر عقیل

مجھے یاد ہے جب میں بچپن میں بیمار پڑتا تھا تو اسپیشل ٹریٹمنٹ ملتی تھی۔ امی آگے پیچھے ہوتیں، دادی پہلے سے زیادہ پیار کرتیں، دادا پیٹھ پر لئے بہلانے کی کوشش کرتے اور ابو کی دبی ہوئی شفقت و نرمی عیاں ہو جاتی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ان دنوں میں نت نئے اور مہنگے کھلونے دلائے جاتے اور ہر قسم کی فرمائش پوری کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ منہ کی کڑواہٹ، جسم میں درد کی شدت، اعصاب کی کمزوری اور زود حسی چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اس بے چینی میں ماں کا پیار برا لگتا، دادا دادی کا لاڈ بے وقعت محسوس ہوتا اور ابو کی شفقت بے معنی محسوس ہوتی تھی۔ ان تکالیف کے سبب اس اسپیشل پروٹوکول کا احساس و ادراک ہی نہ ہوتا تھا۔ لیکن جونہی صحت نصیب ہوتی تو ساری باتیں یاد آجاتی اور دوبارہ بیمار پڑنے کو جی چاہتا تھا۔

آج جب کوئی شخص معذور ہوتا ہے تو وہ خود کو تکلیف میں گھرا محسوس کرتا ہے۔ جب وہ کسی غم میں مبتلا ہوتا ہے تو رنج و الم کو اوڑھنا بچھونا بناتا ہے، کسی صبر آزما مرض کا شکار ہوتا ہے تو مایوسی کا دامن تھام لیتا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ وہ اسپیشل ہے، بہت اسپیشل، بہت ہی خاص۔ اس کے گرد خدا کے فرشتے کھڑے ہیں جو اپنے رب کے حکم پر اس کے لاڈ اٹھانے کے لئے تیار ہیں، جو اس کے لئے نعمتوں کے کھلونے لئے حاضرہیں، جو اس کی بلائیں لے رہے، جو اس پر واری ہو رہے، اس پر خدا کی جانب سے شفقت و رحمت نچھاور کر رہے، اس کے ہر درد پر گناہ جھاڑ رہے اور ہر آہ کونیکیوں میں بدل رہے ہیں۔ لیکن اس بیمار شخص کو یہ فرشتے نظر نہیں آتے، اسے خدا کی شفقت محسوس نہیں ہوتی، اسے ان دیکھی رحمتیں سمجھ نہیں آتیں، اسے نعمتوں کے وعدے برے لگتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی بیماری، رنج، الم اور پریشانی سے اٹھ کر دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔

جب آخرت میں اس شخص پر یہ حقیقت واشگاف ہوگی تو وہ حیران رہ جائے گا۔ اسے نظر آجائے گا کہ اس کے ہر آنسو کے بدلے جنت کی نہریں تھیں، اس کی ہر آہ کا نتیجہ جنت کی باد صبا تھی، اس کی ہر بے چینی کا اجر فردوس کی بے خوف زندگی تھی، اس کے ہر صبر کی جزا رب کی محبت بھری نگاہ تھی۔ وہ یہ سب جان کر اس بچے کی طرح خواہش کرے گا کہ کاش وہ دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے اور دوبارہ انہیں مصیبتوں میں گرفتا ر ہو کر صبر کرے تاکہ پھر فرشتے اس کے گرد طواف کریں، پھر خدا کی شفقت کا نادیدہ ہاتھ اسے اپنے سر پر محسوس ہو اور پھر سے وہ خدا کی جانب سے دئیے گئے کھلونوں سے بہلایا جائے۔