باشعور مسلمان کی ذمہ داری ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں مجھے بار بار یہ خیال آیا کہ انگریزوں کی غلامی کے زمانے میں ہمارے عظیم ترین رہنماؤں سرسید، اقبال، قائد اعظم اور محمد علی جوہر وغیرہ میں سے ہر ایک کو یورپ میں قیام کے مواقع ملے۔ شہری مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ اگر ذاتی سکون، مادی آسائشوں اور آسان زندگی کو اپنا مقصد بنا کر یورپ ہی میں مقیم ہوجاتے تو ملت اسلامیہ پاک و ہند کا کیا حشر ہوتا؟ ہندو اکثریت اور انگریزوں کی حاکمیت کے سامنے سیاسی اور ذہنی شکست سے دوچار اور معاشی طور پر مفلوج قوم شائد ہمیشہ کے لیے جمود اور غلامی کا شکار ہوجاتی۔
اس خیال کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے احباب میں بہت سے لوگ مجھ سے یہ بات بااصرار کہہ رہے ہیں کہ مجھے ملک چھوڑ کر چلا جانا چاہیے۔ ہر طرف چھائی بے یقینی، بدحالی، بدامنی اور مایوسی کی اس لہر میں لوگوں کو یہ بات احمقانہ لگتی ہے کہ کوئی شخص قوم کی اصلاح اور تربیت کا مشن لے کر کھڑا ہو۔ اور خاص طور پر یہ کام کوئی ایسا شخص کرے جسے ملک سے باہر جینے اور رہنے کے اعلیٰ ترین مواقع حاصل تھے۔ ایک ایسے ماحول میں جب ہر نوجوان اپنے لیے اور والدین اپنے بچوں کے لیے صرف یہی راستہ دیکھتے ہوں کہ کسی طرح ملک سے باہر نکل جائیں، یہ سوچ تعجب کی بات نہیں۔ حالات سے پریشان ہوکر بہت سے احباب خود اپنے متعلق یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ وہ مجھ سے اس عمل کی شرعی اور اخلاقی حیثیت دریافت کرتے ہیں۔
میرے نزدیک ایک انسان کو یہ حق ہے کہ وہ چاہے تو اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے ملک سے باہر جا کر رہ سکتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی انسان کو ایک مسلمان کے گھر میں پیدا کرتے ہیں تو ایک طرف یہ ان کا خصوصی فضل ہوتا ہے، مگر دوسری طرف یہ ایک اضافی ذمہ داری بھی ہوتی ہے جو کسی غیرمسلم پر عائد نہیں ہوتی۔ یہ اضافی ذمہ داری اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان اب اپنے ماحول، ملک اور قوم کے خیر و شر سے بے نیاز ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ ایک عام آدمی سے دین کا مطالبہ ہے وہ کہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ وہ اپنے قریبی لوگوں کو اچھے کاموں کی تلقین اور برائی سے رکنے کی تاکید کرتا رہے۔ زیادہ باشعور اور باصلاحیت لوگوں سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ دین کی نصرت کریں اور اپنی قوم، مسلم ہو یا غیرمسلم، اس کی خیر خواہی کریں۔
اگر آپ ملک میں رہتے ہیں تو قوم کی اصلاح، اس کی تعلیم و تربیت اور دین کے صحیح تصورات کی ترویج کے ہر اس کام میں عملاً معاونت کریں جس پر آپ کا اطمینان ہو۔ اپنی زبان، اپنے عمل اور اپنے پیسے سے اس کام میں حصہ ڈالیں۔ اگر آپ ملک سے باہر غیرمسلم قوم میں رہتے ہیں تو آپ کے اندر ہر لمحہ یہ احساس زندہ رہنا چاہیے کہ لوگ آپ کو مسلمان سمجھتے اور آپ کے ذریعے سے اسلام سے متعارف ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کا قو ل اور فعل ایک اعلیٰ اخلاقی سطح پر ہونا چاہیے۔ شرک و الحاد کے درمیان رہتے ہوئے ہر لمحہ آپ کو یہ فکر ہونی چاہیے کہ توحید کا پیغام کس طرح لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اس کے ساتھ حق کے ابلاغ، اس کی دعوت کے فروغ اور دین کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کے جواب فراہم کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
آپ کی قوم مسلم ہو یا غیرمسلم، اگر آپ کا رویہ یہ نہیں تو سمجھ لیجیے کہ دنیا کی آسانیاں تو آپ نے سمیٹ لیں، لیکن جنت کے اعلیٰ مقامات سے آپ محروم ہوچکے ہیں۔ انسان کے پیدا کردہ مسائل سے تو شائد آپ نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے، مگر جہنم کا ختم نہ ہونے والے مسئلہ اب آپ کے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ قوم کے خیر و شر سے بے نیاز ہوکر فیملی اور کیریئر کی سطح پر تو آپ نے آسائشیں اور کامیابیاں حاصل کرلیں، مگر جنت کی حسین بستی میں ایک چھوٹا سا گھر بھی نہ بنا سکے۔
باشعور مسلمان کے سامنے سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس نے زندگی کہاں گزاری۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ اس نے ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اپنی قوم کی فلاح کے لیے کوئی جدوجہد کی یا نہیں کی۔