بچہ اور ماں ۔ ابویحییٰ
موٹر سائیکل ایک بڑی خطرناک سواری ہے۔ یہ گاڑی کی طرح تیز رفتار ہوتی ہے مگر صرف دو پہیوں کی بنا پر اس کا توازن برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ موٹر سائیکل چلانے والے سے زیادہ اس کے پیچھے بیٹھی خواتین خطرے کی زد میں ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ موٹر سائیکل پر ایک طرف رخ کر کے بیٹھتی ہیں اور ہیلمٹ بھی نہیں پہنتیں۔ بعض اوقات خاتون کی گود میں کوئی شیرخوار بچہ بھی ہوتا ہے۔ خاتون ایک ہاتھ سے خود کو اور دوسرے ہاتھ سے اپنے معصوم بچے کو سنبھالتی ہے۔
سڑک پر جاتے ہوئے مجھے یہ منظر ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ ان تینوں میں سب سے زیادہ غیرمحفوظ یہی بچہ ہوتا ہے۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہی غیرمحفوظ بچہ سب سے زیادہ بے فکر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے باپ نے موٹر سائیکل کا اور اس کی ماں نے اس کا سارا بوجھ اپنے اوپر لے کر اسے ہر فکر سے آزاد کر رکھا ہوتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ جب یہ بچہ بڑا ہوگا تو اسے اپنے ماں باپ کی مہربانیوں کا احساس ہوگا اور وہ اپنی بساط کی حد تک ان کے احسانات کا جواب دینے کی کوشش کرے گا۔
اس منظر کو دیکھ کر ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ تمام انسان ایک دوسری سواری پر بھی سوار ہیں۔ یہ زمین ہے جو بغیر پہیوں کے خلا میں معلق ہے اور موٹر سائیکل کی رفتار سے ہزاروں گنا زیادہ تیزی سے حرکت کر رہی ہے۔ مگر ایک تھامنے والا اس پر سوار انسانوں کو تھامے ہوئے ہے۔ لاکھوں برس سے یہ سواری اس طرح ہموار چلی جا رہی ہے کہ وہ نہ سواریوں کو جھٹکے دیتا اور نہ انہیں گرنے ہی دیتا ہے۔
مگر یہ انسان جو اخلاقی حس رکھتا ہے، ماں باپ کا حق پہچانتا ہے، اُس مہربان کی دیگر تمام نعمتوں کی طرح اِس نعمت سے بھی منہ پھیر لیتا ہے۔ وہ زمین کی اس سواری کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اسے یہ کوئی احسان محسوس نہیں ہوتا۔ اسے بتا بھی دیا جائے کہ وہ ستر ماؤں سے بڑھ کر تمھیں چاہتا ہے۔ اس لیے تم پر لازم ہے کہ تم بھی ماں سے ستر گناہ زیادہ اس سے محبت کرو۔ اس کا شکر کرو۔ مگر انسان اس کے لیے صبح و شام شکریے کے دو لفظ کہنا گوارا نہیں کرتا۔ حالانکہ اس کا شکریہ تو جان دے کر بھی ادا نہیں ہوسکتا۔
کتنا عجیب ہے وہ مہربان اور کتنا عجیب ہے یہ انسان۔