Take a fresh look at your lifestyle.

کیا عقل قرآن کو سمجھنے سے قاصر ہے؟ ۔ ابویحییٰ

سوال: السلام علیکم۔ سر آپ سے ایک مدد چاہیے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ہماری عقل قرآن کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ فلسفے نے بھی بات کو تسلیم کرلیا کہ انتہائی کوشش کے باوجود بھی ایک مقام پر عقل بھی ساتھ دینا چھوڑ دیتی ہے۔ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں کیوں نہیں جلے۔ اس کی چند مزید مثالیں یہ ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔حضرت موسی علیہ السلام کے عصا کا اژدہا بن جانا۔ دریائے نیل کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانا۔ خضر علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کا سفر۔ وغیرہ وغیرہ۔ سر اس ضمن میں آپ مجھے کیا سجیسٹ کریں گے؟، فراز لاشاری۔

جواب: محترم فراز لاشاری صاحب!
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔ برادر محترم دو چیزوں کا فرق سمجھ لیں۔ ایک یہ کہ کسی بات کا سمجھ میں آنا اور ایک ہے کسی چیز کی حقیقت سے واقف ہوجانا۔ پہلی چیز کے لیے ہماری عام سمجھ بوجھ کافی ہے۔ البتہ دوسری چیز ضروری نہیں کہ ہر کسی کی عقل میں آسکے۔ مگر زندگی گزارنے اور حقائق کو ماننے کے لیے پہلی چیز ہی کافی ہے، دوسرے کی ضرورت نہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔ مرد و عورت کے ملاپ سے ایک نیا انسان جنم لیتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ مشاہدات پر مبنی ہے۔ مگر اس کی حقیقت کا گرفت میں آنا ہر شخص کے لیے جدا ہوگا۔ ایک عامی یہی کہے گا کہ انسان نطفے سے جنم لیتا ہے۔ دوسری طرف ایک سائنسدان وہ پورا پروسس بتا دے گا جو آج کی سائنس نے دریافت کرلیا ہے، مگر روح کیسے آتی ہے یہ وہ بھی نہیں بتاسکے گا۔

اس روشنی میں جب قرآن کے ان جیسے تمام بیانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حوالے سے پہلی بات یعنی سمجھ میں آنے میں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مسئلہ دوسری بات میں ہے کہ اس کی حقیقت یا دوسرے الفاظ میں اس کی سائنس یا پروسیجر ہمارے ادراک سے بلند ہے۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اہمیت سمجھ میں آجانے کی ہے۔ رہی دوسری بات یعنی حقیقت کا گرفت میں آجانا تو اس میں قرآن کے حقائق ہی نہیں زندگی کے دیگر بیشتر حقائق کی نوعیت بھی ہم پر مکمل طور پر واضح نہیں ہوتی۔ جیسے یہ ای میل آپ پڑھ لیں گے۔ مگر اس کو آپ تک پہنچانے میں جو سائنس اور ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے وہ آپ نہیں جانتے، مگر کیا آپ اس حقیقت کا انکار کر دیں گے کہ میں نے یہ ای میل آپ کو دیا ہے یا آپ میرے جواب کو چھوڑ کر اس پر بحث شروع کر دیں گے کہ پہلے انٹرنیٹ کے کام کرنے کا طریقہ بتاؤ پھر تمھاری بات مانوں گا۔ ظاہر ہے کہ آپ یہ نہیں کریں گے۔ چنانچہ یہ معاملہ قرآن تک ہی محدود نہیں زندگی کے ہر معاملے میں ہم حقائق کو سمجھ میں آنے کی بنیاد پر مانتے ہیں نہ کہ اسے چھوڑ کر ہر واقعے کی حقیقت، نوعیت، سائنس اور طریقہ کار کی جزئیات کی بحث میں لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک علمی غلطی ہے۔ امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔

والسلام علیکم
بندہ عاجز
ابویحییٰ