اللہ کے نام پہ دے دے بابا ۔ فرح رضوان
کیا آپ نے اپنے اس گناہ جاریہ کے بارے میں کبھی غور کیا ہے کہ پیشہ وربھکاری کو بھیک دے کر آپ ان کے ہر ایک جرم میں برابر کے شریک ہو رہے ہیں۔
وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ۔ ’’اور سائل کو نہ جھڑکو‘‘
اس آیت کا جتنا غلط مفہوم ہم پاکستانی مسلمانوں نے سمجھا ہے اتنا ہی شدید ناجائز فائدہ اس غلط فہمی سے جاہل، کاہل ضمیر فروش پیشہ ور بھکاریوں نے اٹھایا ہے۔
آئے دن اس انڈسٹری کو مزید پروان چڑھانے کے لیے بچے اغوا ہوتے ہیں، ان بچوں کے ساتھ جتنا ظلم ہوتا ہے، ان کے والدین پر جو غم کا پہاڑ ٹوٹتا ہے، اس تمام کارگزاری کے پیچھے کسی مافیا کا نہیں بلکہ ہر اس انسان کا ہاتھ ہے جو سڑک چھاپ پیشہ ور فقیروں کو بھیک دے کر ان کی معاونت فرماتا ہے۔
ذرا سوچیں تو سہی کہ گزشتہ چند ہی سالوں میں آپ کی اس ایک غلط فہمی اور خوف کے سبب آپ کے دست مبارک سے ملک کے ہر چوراہے پر کیا فصل تیار ہوئی ہے۔
لوگ ماں کی بد دعا سے نہیں ڈرتے، کمزور کا حق دباتے نہیں ڈرتے، صبح شام جھوٹ بولتے نہیں ڈرتے، جان بوجھ کر نماز قضا کرنے سے نہیں ڈرتے، سکرین کے نشے میں دھت، اپنے دل دماغ، کانوں اور آنکھوں کی جواب دہی سے نہیں ڈرتے لیکن!!! سڑک پر ایک مانگنے والے کی بد دعا سے ڈرتے ہیں۔ یہ بات مذہب کی کس کتاب میں درج ہے کہ ایسے پیشہ ور کردار کی بد دعا سے ڈرو؟
آپ کا یہی خوف دولّے شاہ کے چوہے (جن بچوں کو جبراً ذہنی معذور بنا دیا جاتا ہے) ایک اور کریہہ انڈسٹری سالوں سے چلا رہا ہے۔ آپ جو سخی داتا بن کر جیب سے سکے نکال کر انکے حوالے فرما دیتے ہیں، در اصل سانپ کو دودھ پلا رہے ہوتے ہیں ایک آدم خور جنگل کی آبیاری فرما رہے ہوتے ہیں۔ انتہائی بنیادی ضرورت انسان کی خوراک اور پھر لباس ہے جو جگہ جگہ ایدھی چھیپا وغیرہ کے یونٹس پر ہر دم دستیاب ہے، آپ بس اتنا کریں کہ ان کو جھڑکیں نہیں اور ایسے یونٹس کا رستہ بتا دیں تاکہ واقعی کوئی بھوکا ہے تو اس کی ضرورت پوری ہو جائے اور آپ کے اسے دیے ہوئے پیسے کسی بھی گناہ جاریہ کا سبب نہ بن جائیں۔ اس لیے براہ کرم پوری قوم پر اور خود پر ہر طرح سے رحم کیجیے- پہلی بات ان پیشہ وروں کے نشے اور عیاشی کا سامان مہیا کرنے سے خود کو روک کر، دوسرا اس بات پر غور فرما کر کہ مدد تو خواہ گھر والوں میں سے ہی کسی کی ہو، وہ اللہ کے نام پر ہی تو ہوتی ہے۔ اب کوئی ماں یا ساس، بہو یا بیٹی کو یہ صدا تو نہیں لگا سکتی ناں کہ اللہ کہ واسطے گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹا دے بابا، یا باپ اپنے بیٹوں اور دامادوں کو کہ آپس میں درگزر کا رویہ اپنا لے بابا، ٹی وی پر مصنوعی انسانوں سے جی بہلاتے تھک چکے ہیں تمہارے بزرگ ان کو اپنا کچھ وقت دے دے بابا، سائل تو یہ بھی ہیں ناں، اور سائل تو وہ بھی ہوتا ہے جو کسی تنازع کے بعد آپ کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اس سے رعونت برتتے اس کی نیت پر شک کر کے اس کی تذلیل اس کی غیبت کرتے اس پر بہتان لگاتے، اس کی بد دعا سے خوف نہیں آتا؟
سائل تو وہ طالب علم بھی ہوتے ہیں جو سرکاری اور دیہی سکول کے اخلاق سے نابلد اساتذہ سے کوئی سوال دو سے تین بار پوچھ لیں تو صرف جھڑکی ہی نہیں مار کے بھی مستحق ہو جاتے ہیں۔ اور سائل تو لڑکی والوں سے جہیز کا سوال کرنے والے بھی ہوتے ہیں، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان کو بھکاری کی لسٹ میں ڈالتے ہیں یا بھتہ خوروں کی، میری لغت میں تو ان کا شمار دہشتگردوں میں ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف غیر مسلم ہی ہیں جو آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کرتے ہیں ہم نہیں؟ جن کے ذہنوں میں مانگنے والوں کی بددعاؤں کے شرف قبولیت کے خوف بٹھا دیے گئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ ایسے سفید پوش لوگوں کو پہچان کر ان کی ضرورتیں پوری کر دو جو تم سے لپٹ کر خودداری اور حیا کے سبب ہاتھ پھیلا کر مدد طلب نہیں کرتے۔ اور اگر واقعی آپ کو لگتا ہے کہ نہیں یہ ٹوٹی پھوٹی ہاتھ گاڑی پر بیٹھا فقیر واقعی مستحق ہے تو پھر اسے سکے دے کر مطمئن نہ ہوں کہ آپ نے نیکی کر لی ہے کیونکہ آپ نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیز اس کے حوالے نہ کر دیں۔ ارے واہ کیا بات ہے، تو کیا آپ دے رہے ہیں اسے اپنی ایئر کنڈیشنڈ کار! نہیں! تحقیق کریں گے، اتنی بڑی خیرات کرنے سے قبل؟ تو بھائی یہی تو چھوٹی خیرات دینے سے پہلے سوچنا ہے ناں کہ آپ کا ذرا سا مال کروڑوں کے ذرا ذرا سے مل کر کیا کمال دکھا رہا ہے، اور کیسا وبال مچا رہا ہے۔
نیت!!! یہ درست سوال اٹھایا ہے آپ نے لیکن ساتھ ہی دوسرا سوال بھی تو نچلا نہیں بیٹھ رہا ناں کہ بدعت میں مبتلا فرد بھی تو انتہائی عقیدت اور نیک نیتی سے ایک خود ساختہ کام کو نیکی سمجھ کر کرتا اور پھیلاتا ہے، اس کا حشر یوم حشر کیا ہو گا اگر وہ تائب نہ ہوا تو؟ اور کیا وہ تائب ہوگا جب تک کہ اپنے اس عمل کو اپنی نیت کی بنا پر درست سمجھ کر اڑا رہے گا؟
سواپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ گھر والوں پر کریں۔ والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں اور رشتہ داروں پر کریں۔ غریبوں اور مسکینوں پر کریں۔ مگر پیشہ ور لوگوں پر نہ کریں۔ ان پر نہ کریں جو معاشرے میں مانگنے والوں کی ایک پوری انڈسٹری چلا رہے ہیں۔ جو معصوم بچوں کو اغوا کر کے، انھیں معذور کر کے آپ کے جذبہ ترحم کا استحصال کرتے ہیں۔