عجیب محرومی ۔ ابویحییٰ
میرے خاندان میں ایک لڑکی پہلی دفعہ ماں بننے والی ہے۔ اس عرصہ میں وہ کافی تکالیف کا شکار رہی۔ مگر ماں بننے کی خوشی میں وہ ساری تکلیفیں جھیل گئی۔ اب سارے خاندان والے خوش ہیں۔ اس نئے آنے والے کے لیے ہر ممکنہ تیاری کی جا رہی ہے۔ اس کی ہر ضرورت کا اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ نئی دنیا کا یہ نیا مہمان اچھے طریقے سے اپنی زندگی کا آغاز کرے۔
یہ کم و بیش ہر انسان کی کہانی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان آنے والے کل کا شعوری تصور رکھتا ہے۔ وہ اس کے لیے تیاری کرتا ہے۔ اس میں پوشیدہ مسائل سے بچنے کی کوشش کرتا اور اس میں چھپی خوشیوں کو محسوس کرکے لطف اندوز ہوتا ہے۔ انسان کا یہی ’تصور کل‘ اس کی انفرادیت اور دنیا میں اس کی بقا و کامیابی کا ضامن ہے۔
مگر میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہی ’تصور کل‘ قیامت کے دن انسان کی پکڑ کا سب سے بڑا سبب بن جائے گا۔ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے سوال کریں گے کہ میں نے اپنے پیغامبروں کی معرفت تمھیں جنت میں ملنے والی ہر خوشی اور جہنم کی ہر اذیت سے مطلع کر دیا تھا۔ میرا پیغام زبانی ہی نہیں تحریری طور پر قرآن کی شکل میں تمھارے پاس موجود تھا۔ اس میں میرے پیغام کے ساتھ ہر فکری اور عقلی سوال کا جواب بھی تھا۔ ان سب کے ساتھ تم آنے والے کل کی تیاری کے اصول پر زندگی گزارتے تھے۔ پھر یہ بتاؤ کہ آخرت کی اس نئی دنیا کی اپنے اس نئے جنم کی تیاری کیوں نہیں کی۔
خدا پوچھے گا میں نے تمھیں زندگی دی، رزق دیا، تم نے میری کتنی عبادت اور اطاعت کی۔ تم مشکلوں میں مجھے پکارتے تھے، مجھ سے دعا کرتے تھے، میں نے تمھاری مدد کی۔ تمھیں مشکلات سے نکالا، مگر جب میرا دین مشکل میں تھا، اس وقت بے پرواہ ہوکر اپنی دنیا میں مگن رہے۔ تمھاری راتوں کی نیند اور دن کا چین متاثر نہیں ہوا۔ جاؤ آج تمھارے لیے میرے پاس سوائے محرومی کے اور کچھ نہیں۔
کتنا عجیب ہے یہ تصور کل رکھنے والا انسان اور کتنی عجیب ہوگی اس کی وہ ابدی محرومی جو اسے روز قیامت ملے گی۔