ایک دن کا روزہ ۔ ابویحییٰ
رمضان کا ہماری پوری زندگی سے کیا تعلق ہے، اس حقیقت کو ایک عارف نے کمال خوبصورتی سے اس طرح بیان کیا ہے: ہم اس دنیا میں ایک دن کے لیے آئے ہیں۔ ۔ ۔ اور اس دن ہم نے روزہ رکھ لیا ہے۔
انسان اس دنیا میں جب آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو نعمتوں کے سمندر میں گھرا ہوا پاتا ہے۔ اسے بھوک میں کھانا، پیاس میں پانی، نیند کے لیے پُرسکون رات، کام کے لیے روشن دن، جینے کے لیے رشتوں کا تعلق اور رہنے کے لیے کرہ ارض جیسا آرام دہ گھر ہی نہیں دیا گیا، بلکہ اس کی زبان کے لیے لذید ترین ذائقے، سماعت کے لیے نرم و شیریں آہنگ، بصارت کے لیے ان گنت رنگوں کی برسات اور قوت شامہ کو معطر کر کے روح تک اتر جانے والی خوشبوؤں کی مہک بھی عطا کی گئی ہیں۔
نعمتوں کی یہ حسین دنیا اسے بتاتی ہے کہ اس کا ایک خالق اور مالک ہے جس کی مہربانیوں کے اعتراف میں اسے سراپا شکر اور سراپا اطاعت بن جانا چاہیے۔ اسے رب کی نافرمانی کے ہر راستے سے رک جانا چاہیے۔ مگر اس کی خواہشات، ضروریات، انسانی کمزوریاں اور حیوانی جذبات اکثر اسے اطاعت کے سیدھے راستے سے ہٹا کر نافرمانی کی پگڈنڈیوں پر لے جاتے ہیں جن پر چلنے سے صرف جہنم کی منزل سامنے آتی ہے۔
ایسے میں رمضان کا روزہ اسے یاد دلاتا ہے کہ اسے کیسی اعلیٰ نعمتیں دی گئی ہیں اور ان کے جواب میں اسے نافرمانی کے ہر کام سے رک کر، عمرِ رواں کے بس ایک ہی دن کا تو روزہ رکھنا ہے۔ جس دن کے بعد حیاتِ جاوداں کا وہ دور آئے گا جب ہر پابندی اٹھالی جائے گی اور ہر سختی آسان کر دی جائے گی۔ یہی رمضان کی مشقت کا حاصل ہے۔