احمدی حضرات اور مسلمان : حرف آخر ۔ ابویحییٰ
کچھ ابتدائی گزارشات
احمدی حضرات کے حوالے سے حالیہ دنوں میں اٹھنے والی بحث کے تناظر میں میرا یہ تیسرا اور آخری آرٹیکل ہے۔ اس میں نہ صرف پچھلے دونوں آرٹیکلز کا خلاصہ آجائے گا بلکہ میرا پورا استدلال بھی قارئین مکمل تفصیل کے ساتھ جان سکیں گے۔ تاہم قبل اِس کے کہ میں اصل مدعا کی طرف آؤں چند گزارشات پیش کرنا ضروری ہیں۔
پہلی گزارش اُن قارئین کی خدمت میں ہے جو احمدی حضرات کے حوالے سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ جب بھی ان کا ذکر کیا جائے تو تہذیب اور شائستگی کو کونے میں رکھ دینا ایک لازمی دینی ذمہ داری ہے۔ میں ایسے لوگوں سے صرف یہی عرض کروں گا کہ میں جس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پیرو ہوں، اس کریم ہستی نے مجھے تہذیب اور شائستگی کا درس دیا ہے۔ مزید یہ کہ میں ایک داعی ہوں اور احمدی حضرات میرے مدعو ہیں۔ یعنی بداخلاقی اور بدتمیزی کا رویہ جس طرح ہماری دینی تعلیمات کے خلاف ہے، اِسی طرح احمدی حضرات کو حق کی دعوت پہنچانے کی راہ میں بھی یہ لازماً رکاوٹ بنتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں اپنی بات میں اُن تک پہنچانے کا موقع کھو دوں گا۔ اس لیے جو لوگ بدتمیزی کو دین سمجھتے ہیں، میں ان سے معذرت چاہتا ہوں کہ میں اُن کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا۔
دوسری گزارش احمدی حضرات کے پیشِ خدمت ہے۔ وہ یہ کہ میں اُن کا مسئلہ سمجھتا ہوں کہ وہ اگر کسی کو نبی مانتے ہیں تو پھر اُن کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اُس نبی کے، میرے جیسے تمام منکرین کو کافر قرار دیں۔ یہ کرنا اُن کی دینی مجبوری ہے کہ خود قران مجید یہ کہتا ہے کہ جس نے اللہ کے کسی نبی کا انکار کیا، وہ پکا کافر اور جہنمی ہے(النسا150-151:4)۔ میری یہ درخواست ہے کہ تمام احمدی حضرات روزِ قیامت میرے خلاف یہ گواہی دیں کہ میں نے مرزا صاحب کو نبی نہیں مانا، تاکہ میں اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید سے اُن کے اپنے الفاظ پڑھ کر سناؤں اور عرض کروں کہ آپ نے اپنی کتاب میں کسی نئے نبی کو مانے بغیر محمد رسول اللہ اور اُن سے پچھلے نبیوں پر ایمان ہی پر جنت کی گارنٹی دے رکھی تھی۔ اُس وقت اللہ کا فیصلہ، بالبداہت واضح ہے کہ اپنی کتاب ہی کے مطابق ہوگا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، وہ ایسے ہر مسلمان کو جنت میں بھیجیں گے جو مذکورہ بالا قرآنی معیار پر پورا اترے گا۔ مگر اِس کے بعد یہ احمدی حضرات کا کام ہوگا کہ وہ میدان حشر میں کھڑے ہوکر اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ سورہ نساء کی وعید کے باوجود یہ لوگ ان کے نبی کا انکار کرکے جنت میں کیسے چلے گئے؟ اِس میں اُن لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
تیسری گزارش اِس پس منظر میں ہے کہ میں عام طور پر علمی مباحث سے دور رہتا ہوں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر علمی مباحث اصولی نوعیت کے نہیں ہوتے اور اُن میں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے اور ہونی چاہیے، مگر بحث و مباحثہ کے نتیجے میں اکثر کسی فریق کی دل شکنی کی نوبت آجاتی ہے جس کے اخلاقی نتائج برے ہوتے ہیں۔ تاہم اِس کے بعد باوجود میں اِس بحث میں اترا ہوں تو اِس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ اصولی سوال ہے کہ کیا اسلام مسلمانوں کو یہ حق دیتا ہے کہ قانون و ریاست کی سطح پر وہ کسی ایسے شخص کو غیرمسلم قرار دیں جو خود کو مسلمان کہتا اور سمجھتا ہو۔ میرے نزدیک قرآن مجید کی روشنی میں اِس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ اُس نے دنیا و آخرت دونوں کے پہلو سے واضح کیا ہے کہ ایک مسلمان کون ہوتا اور کون نہیں۔ خاص کر زیر بحث مسئلے میں جہاں قانون و ریاست کی سطح پر کسی فرد یا گروہ کو مسلمان یا غیرمسلم قرار دیے جانے کا معاملہ زیر بحث ہے، قرآن مجید نے وہ متعین شرائط بیان کی ہیں جن کو پورا کرنے والے کسی شخص ہی کو مسلمان سمجھا جائے گا۔ وہ شرائط اگر پوری نہیں کی جائیں گی تو پھر ریاست اِس بات کی پابند نہیں ہے کہ ایسے کسی شخص کے دعواے اسلام کو لازماً قبول کرے۔ چونکہ بالعموم اِس مسئلے میں مسلمانوں میں ابہام پایا جاتا ہے، اِس لیے قرآن کا موقف سامنے لانے کی ضرورت نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔
اِس بحث میں دخل اندازی کی دوسری وجہ یہ بنی کہ بعض احباب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعواے نبوت اور احمدی حضرات کے اُن کو نبی ماننے کے عقیدے کو محض تاویل کی غلطی سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ اپروچ خود قرآن مجید پر سوالات اٹھا دیتی ہے کہ خدا اپنی آخری کتاب میں ایمانیات کو بیان کرنے کے معاملے میں اتنا غیر واضح ہے کہ لوگ بنیادی ایمانیات میں بھی تاویل کی غلطی میں پڑ جائیں۔ ’لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ‘ کا دعویٰ اتنا ہی بودا ہے کہ کوئی بھی شخص معصومیت کے ساتھ کسی غلطی کا شکار ہوجائے۔ میرے نزدیک ایسا ہرگز نہیں ہے۔
ہماری پچھلی بات کا خلاصہ
یہ وہ پس منظر ہے جس میں یہ طالب علم اِس بحث میں اترا ہے۔ اِن ابتدائی گزارشات کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ گفتگو کے آغاز میں ہم احمدی حضرات کے حوالے سے لکھے گئے پچھلے دو آرٹیکلز کا خلاصہ کریں گے اور پھر وہیں سے بات کو آگے بڑھائیں گے۔
ہماری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ قانون و ریاست کی سطح پر ایک فرد کن شرائط کو پورا کرنے کے بعد مسلمان شہری کہلانے کا مستحق ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے قرآن نے موضوع بحث نہ بنایا ہو۔ قرآن مجید نے سورۂ توبہ میں اِس حوالے سے اپنا نقطہ نظر بالکل کھول کر رکھ دیا ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت (۱۱) میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ جب کوئی فرد ایمانیات کے باب میں اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ معیارات کی خلاف ورزی سے باز آجائے اور اعمال میں نماز اور زکوۃ کے فرائض کو ادا کر دے تو وہ دینی طور پر باقی مسلمانوں کا بھائی تصور کیا جائے گا اور قانون و ریاست کی سطح پر اُسے وہ سارے حقوق دیے جائیں گے جو باقی مسلمانوں کے ہیں۔ اِس میں ظاہر ہے کہ مسلمان ہونے کی شناخت کا حق اوّلین طور پر شامل ہے۔
پھر ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ احمدی حضرات ایمانیات کے معاملے میں نبوت پر ایمان کے اُس معیار پر پورے نہیں اترتے جو قرآن نے بیان کیا ہے۔ جب تک وہ اِس خلاف ورزی سے باز نہیں آتے، ریاست پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اُنھیں مسلمان تسلیم کرے، چنانچہ وہ اُنھیں غیرمسلم قرار غیر دے سکتی ہے۔ کوئی مسلمان ریاست ایسا کرتی ہے تو یہ ایک ریاستی اور قانونی حکم ہے، تاکہ معاشرے میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کی شناخت اور تعارف واضح رہے۔ ریاست کے اِس فیصلے کا لوگوں کے اخروی انجام کو طے کرنے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اِس پر بعض سوالات اٹھائے گئے ہیں، مگر ہم اُن سوالات کو بعد میں دیکھیں گے۔ پہلے ہم ایک دوسرے مسئلے کو زیر بحث لائیں گے۔
وہ یہ کہ احمدی حضرات مرزا غلام احمد صاحب قادیانی پر بحیثیت نبی جو ایمان رکھتے ہیں، اُن کا یہ ایمان کیا کسی آیت کی غلط تاویل کا نتیجہ ہے جس کی رعایت اُنھیں دی جاسکتی ہے؟ ہمارا جواب اِس حوالے سے یہ ہے کہ مرزا صاحب کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ محض نبوت کے تسلسل کے قائل ہیں اور اِس پس منظر میں ختم نبوت کی آیت کی تاویل و توجیہ کرکے نبوت جاری رہنے کا ایک عمومی نقطۂ نظر پیش کر رہے ہیں۔ بلکہ اُن کا معاملہ اِس سے ایک قدم آگے کا ہے۔ وہ اپنے لیے دعواے نبوت کر رہے ہیں۔ اِس دعواے نبوت کے لیے وہ قرآن سے کوئی دلیل نہیں لاتے، بلکہ اِس کا ماخذ سرتاسرتر اُن پر اپنے تئیں اترنے والی وحی ہے۔
دعواے نبوت کا اصل ماخذ
ہماری یہ وہ بات ہے جس کی وضاحت ابھی تک نہیں ہوسکی ہے، اِس لیے بعض ذہنوں میں اِس حوالے سے اشکالات پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہوگیا ہے کہ اب ہم یہ بتائیں کہ ہم نے یہ رائے کہاں سے قائم کی ہے۔ ہماری اِس رائے کا ماخذ مرزا صاحب کی فکر اور ان کی تصانیف ہیں۔ مرزا صاحب نے بہت زیادہ لکھا ہے اور ہماری رائے کے حق میں یوں تو اُن کی تصانیف کے کئی مقامات کے حوالے دیے جاسکتے ہیں، مگر ایک مقام ایسا ہے جہاں مرزا صاحب نے ایک سوال کے جواب میں ایک مسلمان سے ایک نبی بننے تک کے اپنے سفر کی پوری روداد خود بیان کر دی ہے۔ یہ ایک مکمل بات ہے، جسے ہم نے اِس کے سیاق و سباق سے کاٹے بغیر من و عن نقل کیا ہے۔ یہ اقتباس خود وہ زاویہ بالکل کھول کر رکھ دے گا، جس سے مرزا صاحب اپنی حیثیت کو دیکھ رہے ہیں اور دوسروں کے سامنے اُسے بیان کر رہے ہیں۔ اِس کے ساتھ اُن کی اِس حیثیت کو نہ ماننے کے جو نتائج نکلتے ہیں، وہ اس اقتباس میں اُنھیں خود ہی بیان بھی کر دیتے ہیں۔ اِس اقتباس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی و نبوت کے کسی عمومی تسلسل کی بات نہیں کر رہے، بلکہ اپنی نبوت کا مستقل بالذات دعویٰ کر رہے ہیں۔
مرزا صاحب کے اپنے اِس بیان سے یہ حقیقت بھی بالکل واضح ہوجائے گی وہ قرآن و حدیث کی کسی توجیہ و تاویل کے عمل سے گزر کر اِن نتائج فکر تک نہیں پہنچے۔ بلکہ یہ اپنے زعم کے مطابق اُن پر بارش کی طرح اترنے والی وحی تھی، جس نے اُنھیں یقین دلا دیا کہ وہ اِس امت کے ایک ایسے مسیح ہیں، جو ایک نبی بھی ہے۔ یہ نبی گرچہ خود کو نبی امتی کہتا ہے، مگر چونکہ نبی ہے، اِس لیے اِس کا انکار کرنے والے دائرۂ اسلام سے نکل کر مرتد ہوجاتے ہیں۔
ذیل میں ہم مرزا صاحب کی اپنی عبارت (بحوالہ روحانی خزائن کمپیوٹرائزڈ جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 152 تا 154) کو نقل کر رہے ہیں۔ ہم سلسلۂ کلام کو درمیان میں روک کر بعض اہم پہلؤوں کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے جائیں گے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اب ہم اُن چند وساوس کا جواب دیتے ہیں جن کا جواب بعض حق کے طالبوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے اور اکثر اِن میں وہ وساوس ہیں کہ جو عبد الحکیم خان اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے تحریراً یا تقریراً لوگوں کے دلوں میں ڈالے اور اپنے مرتد ہونے پر ایسی مُہر لگا دی کہ اب غالباً اُس کا خاتمہ اِسی پر ہوگا۔ میں نے اِن چند وساوس کا جواب منشی برہان الحق صاحب شاہجہانپور کے اصرار سے لکھا ہے جو اُنہوں نے نہایت انکسار سے اپنے خط میں ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ میں ذیل میں منشی برہان الحق کے خط کی اصل عبارت ہر ایک سوال میں لکھ کر اُس کا جواب دیتا ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق‘‘۔
گفتگو کے آغاز ہی میں مرزا صاحب نے وہ مسئلہ واضح کر دیا ہے جو اُن کے دعواے نبوت سے پیدا ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک نبی جب آجاتا ہے تو وہ اپنی قوم کے لیے کفر و ایمان کا مسئلہ پیدا کر دیتا ہے۔ ایک شخص جس نے اُن کی نبوت پر سوالات اٹھائے، اُنھوں نے اُس کو مرتد قرار دے کر یہ بتا دیا کہ اُن پر ایمان کا دائرہ ہی دائرہ ایمان ہے اور اِس دائرے سے نکلنے کا مطلب ارتدار ہے۔ یہ کسی صوفی کے حلقہ ارادت سے نکل جانے کا معاملہ نہیں ہے، جو کسی محض کسی وحی کے نزول کا دعویدار ہو۔ یہ دعویٰ ایک نبی کا دعویٰ ہے اور یہ کلام ایک نبی کا کلام ہے، جو دوسروں کے کفر و ایمان کے فیصلے کر رہا ہے۔
ہمارے نزدیک مرزا صاحب کے دعوے کی یہی وہ نوعیت ہے جس نے اُنھیں اُن صوفیا سے مختلف بنا دیا ہے جو مختلف دعوے کرتے ہیں۔ وہ لوگ دعوے تو کرتے ہیں، مگر دوسروں کے فیصلے نہیں کرتے۔ لیکن مرزا صاحب اپنی نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ساتھ ہی دوسروں کے ایمان کا فیصلہ بھی کر دیتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اُن کے اپنی دانست میں نبی ہونے کا تقاضا ہے۔ نبی کا انکار کفر ہے، اِس لیے اُن کے اس دعوے کے ساتھ ہی معاشرے میں کفر و ایمان کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اِس مسئلے کے ظہور کے بعد معاشرے کو یہ جواز مل گیا کہ وہ مرزا صاحب اور اُن کے پیروؤں کے بارے میں ایک سخت موقف اختیار کرے۔ دوسری طرف قرآن مجید بھی مسلمانوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کے بارے میں کچھ شرائط کے پورا ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر ان کی قانونی حیثیت طے کریں۔ چنانچہ کوئی ریاست یہ قدم اٹھا لیتی ہے تو یہ اُس کا حق ہے جو اس نے استعمال کرلیا۔ اِس میں دینی و شرعی لحاظ سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ چنانچہ اِسے قطعاً نہ اخلاقی طور پر غلط سمجھا جاسکتا ہے، نہ مذہبی طور پر۔ تاہم جیسا کہ پیچھے بیان ہوا کہ اِس پر احباب کے بعض اشکالات ہیں، جن کا جواب ہم بعد میں دیں گے۔
اس کے بعد مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’یاد رہے کہ اِس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے اِن باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے، نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں۔ خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اِس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے، جیسا کہ وہ فرماتا ہے: قُلْ اُجَرّدُ نفسی من ضروب الخطاب۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا، یعنی میرا مقصد اور میری مُراد اِن خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے۔ میرا اِس میں دخل نہیں ہے‘‘۔
دیکھ لیجیے کہ یہاں صراحت کے ساتھ وہ خود پر وحی اترنے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں اور اُس وحی کو نقل بھی کر رہے ہیں جو اُن پر اتری ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں:
’’رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا ہے اور کلام میں یہ تناقض کیوں پیدا ہوگیا۔ سو اِس بات کو توجہ کرکے سمجھ لو کہ یہ اِسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ اِس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگر چہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی۔ مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اِس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے۔ اِس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا، بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اُسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا‘‘۔
اس پیرا گراف سے صاف ظاہر ہے کہ مرزا صاحب پہلے دن ہی سے وحی پر کھڑے تھے، مگر چونکہ مسلم روایت کے پس منظر میں اُن کا اعتقاد یہ تھا کہ احادیث میں جس مسیح کا ذکر ہے وہ عیسیٰ ابن مریم ہیں جو آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور وہیں سے نازل ہوں گے، اِس لیے اُنھیں اِس میں تامل تھا کہ خود کو اِن روایات کا مصداق سمجھیں۔ چنانچہ اُنھوں نے اِس وحی کے باوجود جو اُنھیں اپنے مسیح ہونے کا یقین دلا رہی تھی، مسیح سے متعلق احادیث کی تاویل و توجیہ نہیں کی، بلکہ وہ اپنے اوپر ہونے والی وحی کی تاویل کرتے رہے۔ جی ہاں، تاویل وہ اُس وحی کی کر رہے ہیں جو اُن کی دانست میں اُن پر ہو رہی تھی نہ کہ قرآن و حدیث کی۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد مرزا صاحب اب واضح کرتے ہیں کہ یہ بارش کی طرح اُن پر نازل ہونے والی وحی ہی تھی جس نے اُنھیں مجبور کیا کہ وہ اپنے پیدائشی اعتقاد کو چھوڑیں اور وہ دعوے کریں جو انھوں نے بعد میں کیے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’لیکن بعد اِس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا، تُو ہی ہے اور ساتھ اِس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہوگئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کرکے مجھے اِس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں، ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا‘‘۔
غور کیجیے کہ مرزا صاحب تو کوئی تاویل و توجیہ کرنے پر آمادہ نہ تھے، مگر بارش کی طرح اترنے والی وحی، صدہا نشانات اور زمین و آسمان کی طرف سے تصدیق نے اُن کو مجبور کر دیا کہ وہ خود کو مسیح قرار دیں۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوگیا کہ پھر اُن احادیث کا کیا کیا جائے جو مسیح ابن مریم کی بات کر رہی ہیں؟ ان سے کیسے نمٹا جائے؟ چنانچہ اب وہ اِس مسئلے کا حل قرآن کی روشنی میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اور پھر میں نے اِس پر کفایت نہ کرکے اِس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہوگیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسی اُمّت میں سے آئے گا۔ اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتا ہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی، اِسی طرح صدہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اِس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں‘‘۔
یہاں وہ سورہ آل عمران کی آیت ’إنی متوفیك‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ آیت کے مطابق مسیح ابن مریم کی تو وفات ہوچکی ہے۔ چنانچہ جس آنے والے کی خبر احادیث میں ہے، وہ مسیح ابن مریم تو ہو نہیں سکتے۔ چنانچہ انھیں مسیح ہونے کی جو خبر دی جارہی ہے، اِس میں نزول مسیح کی روایات کسی طور پر حارج نہیں ہوسکتیں۔ بعد میں مسیح ابن مریم سے متعلق اِن روایات کو مرزا صاحب نے اپنے دعویٰ کی تصدیق میں پیش کر دیا۔ چنانچہ مرزا صاحب کا یہ تھاٹ پروسس واضح رہنا چاہیے کہ وہ قرآن وحدیث پر غور کرتے کرتے کوئی دعوی نہیں کر بیٹھے۔ بلکہ قرآن و حدیث اصلاً اُن کے شخصی دعووں کی راہ میں حائل تھے۔ یہ اُن پر اترنے والی وحی، اُنھیں ملنے والی صدہا نشانیاں اور آسمانی شہادتیں ہی ہیں، جو اُنھیں اِس مقام تک لائی ہیں۔ توجیہ و تاویل اگر کچھ ہوئی تو یہ بعد کا معاملہ ہے۔
ابھی تک اُن کے اِس سفر میں وہ مسیح ہی بنے تھے۔ بات مسیح تک رہتی تو بہت غنیمت تھی۔ مگر اب وہ حریم نبوت میں نقب لگانے کی تیاری کرتے ہیں۔ تاہم اِس کی ذمہ داری بھی خود لینے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ اِس کا الزام بھی اللہ تعالیٰ ہی پر ڈالتے ہیں:
’’میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو۔ مجھے اِس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی۔ میں پوشیدگی کے حُجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں، مگر اُس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ شہرت دوں گا۔ پس یہ اُس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا؟ میرا اِس میں کیا قصور ہے‘‘۔
اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کے بعد وہ بارش کی طرح نازل ہونے والی وحی کی روشنی میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اُن کو صریح طور پر نبی کا خطاب مل چکا ہے۔
’’اِسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے، وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے۔ اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اُس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی، اُس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا‘‘۔
یہاں خیال رہے کہ وہ مسیح ابن مریم اور ان کی نبوت کا حوالہ دے رہے ہیں، مگر اوپر بیان ہوچکا ہے کہ قرآن سے وہ یہ اخذ کرچکے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم تو فوت ہوچکے ہیں۔ چنانچہ یہ مسیح، ایک نیا مسیح ہے اور یہ نبی ایک نیا نبی ہے۔ اپنی ذات کے حق میں اِس دعواے مسیحیت اور دعواے نبوت کا ماخذ سرتاسر اُن پر بارش کی طرح اترنے والی وحی ہے۔ وہ قرآن و حدیث سے ایسی کسی غلط فہمی میں نہیں پڑے۔
ہم نے مرزا صاحب کی بات کو بیچ میں روکا تھا، کیونکہ وہ اگلے جملے میں اعلان نبوت کی اِس سنگینی کو کچھ کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس پر الگ سے تبصرہ درکار تھا۔ چنانچہ ہم اُن کی بات وہیں سے نقل کرہے ہیں، جہاں اوپر چھوڑی تھی:
’’اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا، مگر اِس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ اور جیسا کہ میں نے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالیٰ کی وحی کی اِس رسالہ میں بھی لکھی ہیں، اُن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر خدا تعالیٰ میری نسبت کیا فرماتا ہے‘‘۔
وہ خود کو نبی کہنے کے ساتھ امتی یا امتی نبی بھی کہتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی بعض دیگر تعبیرات اختیار کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو کمتر بیان کرکے اپنے دعوے کی سنگینی کو کچھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جیسا کہ اُن کے اقتباس کے آغاز میں اُن کے ایک شخص کو مرتد قرار دینے کے پس منظر میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ نبوت تو نبوت ہوتی ہے۔ اِس کا انکار کفر ہی ہوگا اور اِس کو مان کر چھوڑ دینا ارتدار کہلائے گا۔ مرزا صاحب بھی اپنی اِس نبوت کو ایسے ہی دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی اِس وحی کو ایمانیات کا ایسا ہی حصہ سمجھتے ہیں جیسے پچھلے انبیا پر اترنے والی وحی کو۔ چنانچہ وہ آگے لکھتے ہیں:
’’میں خدا تعالیٰ کی تیئیس ۲۳ برس کی متواتر وحی کو کیونکر ردّ کرسکتا ہوں۔ میں اُس کی اِس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ اُن تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں‘‘۔
اپنی وحی کو ایمانیات میں شامل کرنے کے اُن کے اِس دعوے کے ساتھ ہم اِس اقتباس کو ختم کرتے ہیں۔ اِس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرزا صاحب اوّل تا آخر اپنے اوپر اترنے والی وحی کی روشنی میں کھڑے ہیں۔ نہ اُنھیں قرآن کی کسی آیت سے یہ تائید ملی ہے کہ وہ خدا کے نبی ہیں، نہ نزول مسیح کی روایات سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ مسیح ہیں۔ یہ اُن پر اترنے والی وحی ہے جس نے اُنھیں اپنے اِن مناصب کو ماننے پر مجبور کر دیا، ورنہ وہ تو اعتقاداً عام مسلمانوں کی جگہ پر کھڑے تھے۔ اِس کے بعد اگر اُنھوں نے کچھ کیا ہے تو یہ کیا کہ قرآن و حدیث میں جو کچھ چیزیں اُن کی راہ میں رکاوٹ تھیں، اُن کی تاویل و توجیہ کی۔ چنانچہ یہ بات کہ مرزا صاحب کو قرآن کی کسی آیت سے اپنے نبی ہونے کی غلط فہمی ہوئی یا نزول مسیح کی احادیث اُنھیں اِس جگہ تک لے جانے کا باعث بنی ہیں، اِس رائے کو خود مرزا صاحب قبول نہیں کرتے۔
سورہ توبہ کی آیت اور احمدی حضرات
اب ہم اِس اشکال کا جواب دیں گے کہ سورہ توبہ کی آیت (۱۱) کا اطلاق احمدیوں پر کیسے ہوتا ہے؟
سورہ توبہ کی آیت (۱۱) میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’وہ اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِس دین میں وہ تمھارے بھائی ہیں‘‘۔
یہ آیت کفار عرب پر رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کو فیصلہ کن سزا سنانے کے ضمن میں نازل ہوئی، جس میں کفار کے لیے موت کا فیصلہ سنا دیا گیا، سوائے اِس کے کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ ایسے میں یہ ضروری تھا کہ اُن شرائط کو واضح کیا جائے جو قانونی سطح پر کسی شخص کے اسلام کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ چنانچہ اِس آیت میں عملی طور پر نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی اور عقیدے کی سطح پر اپنے کفر سے باز آکر اسلام کے ایمانیات کو بعینہٖ اختیار کرلینے کو بطور شرائط کے بیان کر دیا گیا ہے۔ اِن شرائط کو پورا کرنا بعد کے زمانوں میں بھی کسی فرد یا گروہ کے قانونی سطح پر اسلام پر ہونے کے لیے معیار ہیں۔ احمدی حضرات اِن میں سے پہلی شرط پر بالبداہت پورے نہیں اترتے، یعنی اُنھوں نے نبیوں پر ایمان کے قرآنی ضابطے کو قبول کرنے کے بجائے اِس بات کو قبول کرلیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزا صاحب پر بھی اللہ کی طرف وحی اتری ہے اور وہ ایک نبی ہیں۔ اُنھوں نے یہ بات نہ قرآن سے اخذ کی ہے اور نہ کی جاسکتی ہے۔ اُن کے اِس عقیدے کا ماخذ وہ وحی ہے جو اُن کے نزدیک مرزا صاحب پر نازل ہوئی ہے۔
قرآن مجید نےاِس کے بالکل برعکس اور ایک سے زیادہ طریقوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر طرح کی وحی اور نبوت کی تردید کی ہے۔ اِس باب میں سب سے واضح بیان قرآن مجید کے آغاز ہی میں سورۂ بقرہ کی آیت 4 میں دیکھ لیا جاسکتا ہے، جو اِس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ آپ کے بعد وحی و نبوت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ وحی اور نبوت پر ایمان کے معاملے میں دو ہی رویے مطلوب ہیں۔ ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لاکر اُنھیں نبی مانا جائے اور دوسرے آپ سے پہلے انبیاے کرام پر جو وحی نازل ہوئی ہے، اُس پر ایمان لایا جائے۔ نبوت کے باب میں یہی ایمان مطلوب ہے۔ چنانچہ اِس آیت نے حضور کے بعد کسی نئی نبوت کے راستے میں دہری رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف یہ حضور اور پچھلے نبیوں پر ایمان کو نجات کے لیے کافی قرار دے رہی اور بعد میں آنے والے کسی نبی پر ایمان کے بغیر جنت کی فلاح کی یقین دہانی کرا رہی ہے اور دوسری طرف یہ بھی بتا رہی ہے کہ نبیوں پر ایمان کے باب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی پر ایمان کا کوئی تصور قرآن میں نہیں ہے۔ جس کے بعد اِس باب میں خارج کی کوئی وحی، کسی فرد کا کوئی دعویٰ، قرآن و حدیث کی کوئی توجیہ، کوئی تاویل، کوئی فہم؛ قرآن مجید کے اِس صریح بیان کے مقابلے میں ناقابل قبول ہے۔
ایمانیات میں اضافہ کفر ہے
یہ ایمانیات کا معاملہ ہے جس میں کسی استنباط، تاویل اور توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایمانیات میں اضافے کے لیے جو واحد چیز قابل قبول ہوسکتی تھی، وہ کسی دوسرے مقام پر خود قرآن مجید ہی کا اپنا کوئی صریح بیان ہوسکتا تھا، جو یہ بتاتا کہ آپ کے بعد کسی وحی یا نبی کو ماننا ایمانیات کا ایک جزو ہے یا آپ کے بعد کسی وحی یا نبی پر ایمان لانا مسلمان ہونے کی لازمی شرط ہے۔ قرآن مجید ایسے کسی صریح اور واضح بیان سے قطعاً خالی ہے۔ بلکہ اِس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمانیات میں تاویل و توجیہ پر مبنی ایسے اضافوں کو کفر قرار دیا ہے۔
اس بات کا پس منظر یہ ہے کہ ایمانیات کے باب میں یہ بات اصولی ہے کہ اُنھیں جس طرح پیش کیا جاتا ہے، بعینہٖ اُسی طرح قبول کرنا لازم ہے۔اِس لیے کہ یہ انبیا کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اِس باب میں انسانیت کی بالکل واضح اور صریح رہنمائی فرمائیں۔ اِس عمل میں وہ اپنے مخاطب معاشرے میں موجود کسی غلط رویے یا عقیدے کو وہ ضمنی طور پر بیان کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ اُن کا کام نہیں ہوتا کہ ہر ممکنہ گمراہی کی تردید کریں، کیونکہ گمراہی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ چنانچہ اِس باب میں اُن کا کام صرف صحیح بات بتانا ہوتا ہے۔ ایمانیات کے ضمن میں اِس صحیح بات میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی، کمی، اضافہ، یہ سب عین کفر ہے۔
قرآن بتاتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام توحید خالص کی دعوت دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔ بعد میں اُن کے پیروکاروں نے اُن توحید خالص کی دعوت میں یہ اضافہ کردیا کہ عیسیٰ ہی خدا ہیں، یعنی مسیح ابن مریم اللہ تعالیٰ کا جسدی ظہور ہیں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ تثلیث کے تکون میں تین میں سے تیسرا ہے۔ یہ دونوں، وہ اضافے تھے جو توحید سے متعلق ایمانیات کے ضمن میں عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیم میں بعد میں کیے گئے تھے۔ مگر اِن اضافوں کو قرآن نے صراحت کے ساتھ سورہ مائدہ آیت 72-73 میں کفر قرار دیا۔ چنانچہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایمانیات میں اضافہ کرنا کوئی علمی غلطی نہیں، بلکہ کفر ہے۔ چنانچہ نبوت کے باب میں قرآن مجید کی یہ تعلیم کہ اِس میں ایمان سرتاسر محمد رسول اللہ پر ایمان اور اُن سے پہلے کے اُن انبیا پرایمان ہے جن کو خود قرآن نے خدا کے پیغمبر بتایا ہے، لہٰذا اِس امر میں من گھڑت اضافہ کرنا، اُسے اسلامی ایمانیات میں شامل کرنا، بالبداہت واضح ہے کہ یہ کفر ہے۔
احمدی حضرات کی اِس گمراہی کی سنگینی کو یہ حقیقت مزید واضح کرتی ہے کہ صرف ایمانیات ہی نہیں، بلکہ اِس سے ہٹ کر بھی دین کے مشمولات میں کسی قسم کا اضافہ کرنا، اپنے اوپر وحی کا جھوٹا دعویٰ کرنا، اللہ پر جھوٹ گھڑنا، بغیر علم کے اللہ کے نام پر دین بیان کرنا قرآن کے نزدیک ایک نہایت سنگین اور بڑا جرم ہے۔ اِس پر ہم نے ایک الگ مضمون تحریر کرکے یہ بتایا ہے کہ قرآن اِس پر کتنے سخت تبصرے کرتا ہے اور یہاں تک کہ اِسے شرک کے درجے کا گناہ قرار دیتا ہے۔
کفر، کافر، غیرمسلم اور دعوت
یہاں البتہ یہ واضح رہے کہ ہم جس وقت کفر کا لفظ بول رہے ہیں تو اِس سے ہمارا مقصود کسی فرد یا گروہ پر کفر کا ایسا حکم لگانا قطعًا نہیں ہے، جس کا حق صرف اللہ اور اُس کے رسولوں ہی کو حاصل ہوتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے مخاطبین کے سامنے حق کو آخری درجے میں واضح کرکے اُن پر اتمام حجت کر دیتے اور اُن کے اخروی انجام کا فیصلہ اِسی دنیا میں سنا دیتے ہیں۔ محمد رسول اللہ کی آخری رسالت کے بعد یہ حق، ظاہر ہے کہ نہ کسی عالم کو حاصل ہے، نہ علما کے کسی گروہ کو اور نہ ہی کسی ریاست کو یہ حق حاصل ہوسکتا ہے۔ اِس کی جسارت اب کوئی کرے گا تو اُسے جان لینا چاہیے کہ اُس کا یہ عمل اللہ اور اُس کے رسول کی جگہ خود کو رکھنے کا عمل ہوگا، جس کا کسی کوئی حق نہیں ہے۔ کفر ایک رویہ ہے جو کہیں پایا جائے تو اُسے بیان کیا جائے گا، مگر مذکورہ بالا قرآنی اصطلاحی معنی میں کسی کو کافر قرار دینا ایک خدائی فیصلہ ہے، جس کا حق اب کسی فرد یا اجتماع کو حاصل نہیں ہے، اِس لیے کہ یہ درحقیقت کسی کی آخرت کا فیصلہ سنانا ہے، جو وحی و رسالت کے بغیر ناممکن ہے۔ اِس مضمون میں ہم تو احمدی حضرات کے نقطۂ نظر میں پائی جانے والی گمراہی کی نوعیت کو واضح کر رہے ہیں کہ یہ کس درجہ سنگین ہے۔ یہ کام بہرحال دین کے طالب علموں کو کرنا ہی ہوتا ہے اور یہ اُن کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ اِس بحث میں احمدی حضرات کا محض ریاستی و قانونی حیثیت میں غیرمسلم قرار دیا جانا زیر بحث ہے۔ یہ ایک قانونی بحث ہے، جس کا تعلق دنیا میں شناخت اور دیگر قانونی معاملات سے ہے۔ ریاست پاکستان نے بھی اُنھیں غیرمسلم قرار دیا ہے، نہ کہ اُس معنی میں اُن پر کافر ہونے کا حکم لگایا ہے، جس کا حق، جیسا اوپر بیان ہوا ہے، اِس دنیا میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔ ریاست نے اُنھیں غیرمسلم قرار دیا ہے اور ہمارے نزدیک سورۂ توبہ کی آیت ۱۱ کی رو سے یہی اِس معاملے میں درست قانونی اور دینی رویہ ہے۔ اِس کے بعد ہمارا اصل کام اُنھیں صحیح دین بتانا اور سمجھانا ہے۔ حق کی دعوت دینا ہے۔ ہمارے کسی کو کافر کہنے سے اللہ نے اب اِس دنیا میں کوئی فیصلہ نہیں سنانا۔ہاں البتہ، کوئی شخص خود اپنے آپ کو کسی بات کا منکر کہتا ہو تو اُسے اُس کافر یا منکر کہا جاسکتا ہے، جیسے ہم نے شروع میں اپنے متعلق کہا کہ ہم مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے تو ہمیں مرزا صاحب کا کافر کہا جاسکتا ہے۔ ہمیں اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
حضور اور صحابہ کا رویہ
یہ بھی واضح رہے کہ نبوت کے معاملے میں تو زیر بحث مسئلہ ویسے بھی محض کوئی نظری مسئلہ نہیں ہے۔ اِس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے دعوے کرنے والے خود آپ کے زمانے ہی میں اور اُس کے فوراً بعد نمودار ہوگئے تھے۔ چنانچہ یہ معاملہ اُسی وقت طے ہوگیا تھا کہ نبوت میں یہ اضافہ کرنا اصلاً ارتدار، یعنی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجانا ہے۔ مسیلمہ کذاب کے سفیر جب بارگارہ رسالت میں اُس کے خط کے ساتھ حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے اُن کا اپنا موقف پوچھا۔ اُنھوں نے مسیلمہ کی تائید کی تو آپ نے فرمایا کہ سفیروں کے قتل کی ممانعت نہ ہوتی تو تم دونوں کی گردنیں مار دی جاتیں (سنن ابی داؤد، رقم2761)۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ حضور نے اُن کی طرف سے مسیلمہ کی تصدیق کو اُن کے اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجانے پر محمول کیا اور وہ سزا بیان کر دی جو منکرین رسالت کے لیے قرآن نے بیان کی تھی۔آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا ایمانیات میں ایسا اضافہ کرنا ایک اجتہادی خطا ہے۔
چنانچہ اِسی بنا پر جزیرہ نماے عرب میں صحابہ ٔ کرام نے سارے مدعین نبوت کے خلاف جنگ کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد آپ کے مخاطب بنی اسماعیل پر لازم تھا کہ وہ دین اسلام کے ایمانیات کو بعینہٖ قبول کریں ورنہ ان کے کفر کی پاداش میں ان سے جنگ کرکے قتل کر دینے کا حکم تھا۔ مگر منکرین رسالت کو یہ سزا فرشتوں نے نہیں، بلکہ صحابہ کرام نے دینی تھی۔ یہ ضروری تھا کہ ان کو بتایا جائے کہ کون سی شرائط پوری کرنے کے بعد کسی شخص کو قانونی طور پر مسلمان سمجھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ تین شرائط بیان کر دی گئیں کہ کسی شخص کا اپنے کفر سے توبہ کرلینا، نماز قائم کرنا اور زکٰوۃ دینا، اس کے دعواے اسلام کو قانون و ریاست کی سطح پر قابل قبول بنا دے گا۔ یہ سزا رسول کے اتمام حجت کے بعد ان کے مخاطبین کے لیے خاص تھی، مگر کسی کے دعواے اسلام کی قانونی سطح پر قبولیت کے لیے یہ شرائط ایک ابدی معیار بن گئیں۔
بہرحال صحابہ کرام کا ان سے جنگ کرنا صاف بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک مدعین نبوت نے یہ دعویٰ کرکے اور اُن کے پیروؤں نے اِس دعوے کو قبول کرکے کفر کا ارتکاب کیا تھا ور وہ قانونی طور پر دائرہ اسلام سے باہر ہوچکے تھے۔ چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ نئی نبوت کا ہر دعویدار اور اس کا ماننے والا اتنے سنگین جرم کا ارتکاب کرتا ہے کہ اس کا دعویٰ اسلام قانون و ریاست کی سطح پر رد کیا جاسکتا ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے پیچھے کہیں عرض کیا تھا کہ قانون و ریاست کی سطح پر کسی گروہ کے دعواے اسلام کو قبول کرنے کے لیے مطلوبہ شرائط (یعنی کفر سے باز آنا، نماز اور زکوٰٰ ۃ کا اہتمام ) پر اصرار کرنا یا نہ کرنا ریاست کی اپنی صوابدید ہے۔ حضور کا اُسوہ اِس معاملے میں یہ تھا کہ اِس طرح کی چیزوں کی شناعت میں تو کوئی شک نہیں، مگر سمجھانے کا رویہ اختیار کیا جائے۔ لوگوں کو مہلت اور رعایت دی جائے۔ دعوت و تلقین کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ حضور کا ردعمل مسیلمہ کے سفیروں کے معاملے میں کیا تھا، مگر آپ نے اِس کے خلاف کوئی لشکر بھیجنے کے بجائے ایک ناصحانہ خط بھیجنے پر اکتفا کیا۔ اسی طرح قبیلۂ ثقیف کے قبول اسلام کے وقت اُن کی یہ شرط قبول کرلی تھی کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیں گے(سنن ابی داؤد، رقم3025)۔ جبکہ دوسری خلافت راشدہ میں صحابہ کرام نے مدعین نبوت اور ان کے پیروؤں کے علاوہ منکرین زکٰوۃ کو بھی کوئی رعایت دینے سے قطعاً انکار کر دیا تھا۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شرائط پر کچھ رعایت دینا یا نہ دینا ریاست کی صوابدید ہے۔ مسلمان ریاستوں نے اِس معاملے میں ایک سخت موقف اختیار کرکے احمدی حضرات کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے۔ اِس بارے میں سماجی اور دعوتی پہلو سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔ مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اِس فیصلے کو کرنے کا کوئی حق اُنھیں حاصل نہیں تھا یا یہ کہ احمدی حضرات کا معاملہ کوئی ہلکا ہے۔ اُن کی گمراہی بہت سنگین نوعیت کی ہے اور اُن کا دعویٰ چونکہ مرزا صاحب کی نبوت کا دعویٰ ہے، اِس لیے عقلی اور ایمانی طور پر وہ بھی مجبور ہیں کہ اُن کے نہ ماننے والوں کو کافر قرار دیں اور اُن کے خلاف سخت رویہ اختیار کریں۔ یہیں سے وہ سماجی مسئلہ پیدا ہوا جس نے باقی مسلمانوں کو اُن کے خلاف ایک سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ اِس لیے اِس معاملے میں صرف مسلمانوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اُنھوں نے بلاوجہ ایک سخت موقف اختیار کرلیا یا یہ کہ وہ یہ سخت موقف بعض دوسرے گروہوں کے خلاف کیوں اختیار نہیں کرتے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری اور خلاصہ بحث
تاہم اِس حوالے سے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ احمدی حضرات کو غیرمسلم قرار دیے جانے کے بعد اُنھیں کسی طور اُن حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا جو ہمارا دین غیرمسلموں کو اور دور جدید کی قومی ریاست اپنے شہریوں کو دیتی ہے۔ اِسی طرح مسلمانوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی گمراہی اگر معاشرے میں پھیل رہی ہے تو خود اُن کے علم اور عمل میں اُس کی کیا اساسات ہیں جو اِس گمراہی کا سبب بنی ہیں۔ خاص کر ایمان و اخلاق میں اپنی پستی اور دعوت کے میدان میں اپنی غفلت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو اِس طرح کی صورتحال کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ وگرنہ روز قیامت دوسروں کی گمراہی کا وبال اُن کے سر بھی آئے گا۔ کیونکہ نہ وہ اپنے علم و عمل میں اچھے مسلمان بنے، نہ دین کی اصل دعوت دوسروں تک پہنچاتے رہے۔
آخر میں اس بحث کا ایک خلاصہ ہم قارئین کی سہولت کے لیے پیش کرتے دیتے ہیں جو ہمارے نقطۂ نظر کا اجمالی بیان بھی ہے۔
۱۔ احمدی حضرات مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے جس دعواے نبوت کو تسلیم کرتے ہیں، وہ کوئی اجتہادی غلطی یا قرآن و حدیث کی غلط تاویل و توجیہ کا نتیجہ نہیں ہے۔ اُنھیں قرآن کی کسی آیت سے اپنے نبی ہونے کی غلط فہمی ہوئی، نہ نزول مسیح کی احادیث ہی اُنھیں اِس جگہ تک لے جانے کا باعث بنی ہیں۔ اِس نقطہ نظر کو خود مرزا صاحب قبول نہیں کرتے۔ اُن کا دعواے نبوت اُس وحی پر قائم ہے جو مرزا صاحب کی دانست میں اُن پر بارش کی طرح 23 سال تک نازل ہوتی رہی۔
۲۔ قرآن و حدیث کی توجیہ و تاویل انھوں نے جتنی کچھ کی، وہ اِس لیے کی کہ یہ دونوں اُن کے مسیح ہونے اور نبی ہونے کے دعووں میں رکاوٹ بن رہے تھے۔
۳۔ مرزا صاحب نے مسیح ہونے کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ اِس امت میں ایک نئی نبوت کا دعویٰ تھا، جسے گرچہ وہ امتی نبی کہہ کر اس کی شناعت کو کم کرتے رہے، مگر ساتھ ہی نہ ماننے والوں کو مرتد قرار دے کر یہ واضح کر دیا کہ اِس نبوت کے انکار کا مطلب کفر ہے۔
۴۔ مرزا صاحب کا دعواے نبوت قرآن میں بیان کردہ نبوت پر اُس ایمان میں ایک اضافہ ہے جس میں صاف طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی یا پچھلے انبیا پر نازل ہونے والی وحی ہی کو نجات کی واحد شکل قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں ایمانیات میں اضافہ بھی کفر ہے۔ احمدی حضرات چونکہ اِس دعویٰ نبوت کو قبول کرتے ہیں، اِس لیے اُن کی گمراہی کی نوعیت بھی اِسی لحاظ سے سنگین ہے۔
۵۔ سورہ توبہ آیت 11 میں اللہ تعالیٰ نے قانون و ریاست کی سطح پر کسی شخص کے اسلام کی جو شرائط بیان کی ہیں، احمدی حضرات اُن میں سے پہلی شرط، یعنی قرآن میں بیان کردہ ایمانیات پر پورا نہیں اترتے۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نئے نبی کو مان کر ایمانیات کے اُس دائرے سے باہر نکل گئے ہیں، جو قرآن مجید نے مقرر کیا ہے۔
۶۔ اہل علم جب کسی شخص کے کفر، شرک یا بدعت میں مبتلا ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں تو وہ اپنی دینی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، جس میں کسی قسم کی مداہنت نہیں کی جاسکتی۔ مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی کے ایمان کی حقیقت کی نفی کرسکتے، اُس کے بارے میں حتمی کفر کا فیصلہ صادر کرسکتے اور اُس کی جہنم کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ انسانوں کے بارے میں اِس طرح کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ کرتے اور اپنے رسولوں کے ذریعے ہی سے کرتے ہیں، جس کے بعد ایسے مجرمین کی سزا کا آغاز بھی اللہ تعالیٰ اِسی دنیا کی زندگی سے کر دیتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نبوت کے ساتھ یہ سلسلہ تاقیامت موقوف ہوچکا ہے۔ اب روز قیامت ہی وہ اپنے علم کی روشنی میں لوگوں کا فیصلہ سنائیں گے۔
۷۔ کسی گروہ کو غیرمسلم قرار دینے کا فیصلہ کسی فرد کا نہیں، بلکہ ریاست کا اختیار ہے۔ یہ سرتاسر ایک قانونی معاملہ ہے جو ریاست کی سطح پر کیا جاتا ہے۔ ریاست پاکستان نے قادیانی حضرات کے بارے میں یہ فیصلہ اگر کیا تو اسلام میں اِس کی اجازت ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کو بعض قانونی تقاضے نبھانے پڑتے ہیں یا قانون کو بعض اوقات سماجی اور مذہبی قضیوں کا فیصلہ کرنے کے لیے قانونی سطح پر یہ طے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی شخص کا مذہب کیا ہے۔
۸۔ اِس بحث میں کسی کو کافر قرار دیا جانا زیر بحث نہیں۔ یہ صرف اللہ اور اُس کے رسول کا حق ہے کہ کسی کو کافر قرار دیں۔ یہاں قانون و ریاست کی سطح پر ایک گروہ کا مسلمان قرار دیا جانا یا نہ دیا جانا زیر بحث ہے کہ معاشرے میں اُس کی شناخت ایک مسلمان گروہ کی ہوگی یا غیرمسلم گروہ کی۔
۹۔ یہ بات البتہ، ریاست پر لازم نہیں ہے کہ ہر موقع پر اور ہر گروہ یا فرد کے حوالے سے اپنے اِس اختیار کو استعمال کرے۔ اِس کا انحصار گمراہی کی سنگینی، سماجی عوامل، حکمت دین اور دعوت دین کے مصالح پر ہے۔
۱۰۔ ریاست اگر کسی گروہ کو غیرمسلم بھی قرار دے دے تو اُسے اُس کے اُن حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا جو اسلام نے غیرمسلموں کو دیے ہیں۔ چنانچہ اُنھیں تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ اِسی طرح اُن کو کسی سطح پر ایذا دینا اور ان کے حقوق پامال کرنا سنگین مذہبی اور اخلاقی جرم ہے۔
۱۱۔ مسلمانوں کو خود یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اُن کے علم و عمل میں وہ کیا چیزیں ہیں جو اِس طرح کی گمراہیوں کے فروغ کا سبب بنتی ہیں۔ اِسی طرح اُنھیں اپنی دعوتی غفلت سے بھی باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ روز قیامت اُن کی پرسش بھی ہوگی کہ وہ دوسروں کی گمراہی کے ذمہ دار بنے۔