آخری فیصلہ ۔ ابویحییٰ
محمد عامر خاکوانی کا شمار ان گنے چنے اہل صحافت میں ہوتا ہے جو اہل دانش میں سے بھی ہیں اور توازن، مثبت انداز فکر، رجائیت پسندی جن کی شناخت ہیں۔ ان کے مضامین ان کی انہی خصوصیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان کا ایسا ہی ایک مضمون ’’تصویر کا چھوٹا سا ٹکڑا‘‘ ان کی اجازت سے ہم اس ماہ کے رسالے میں شائع کر رہے ہیں۔ یہ مضمون ایک چینی کہانی کو بنیاد بنا کر یہ پیغام دیتا ہے کہ کسی ایک اچھے برے واقعے کی بنیاد پر زندگی کا حتمی فیصلہ نہیں ہوتا۔ ایک واقعہ بظاہر اچھا ہوتا ہے، مگر اس کے ساتھ شر جڑا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح بظاہر ایک برا واقعہ بھی ایک خیر عظیم کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔
اس چینی کہانی کو جب میں نے پڑھا تو محسوس ہوا کہ یہ قاری کے ذہن میں ایک سوال چھوڑ گئی ہے۔ وہ یہ کہ آخر کو وہ کیا واقعہ ہوگا جس کی بنیاد پر زندگی کی حتمی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا فیصلہ کیا جاسکے۔ چینی تہذیب بڑی غیر معمولی سہی مگر وحی کی روایت سے محرومی کی بنا پر اس سوال کا جواب نہیں رکھتی۔ اس سوال کا جواب صرف نبی عربی علیہ السلام کے پاس ہے۔ وہ جواب یہ ہے کہ کسی انسان کی خوش نصیبی اور بدنصیبی کا حتمی اور آخری فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ جو اس روز محروم رہا وہ اصل بدبخت ہے اور جو اس روز جنت کی کامیابی پا گیا وہ ہی کامیاب ہے۔
یہی وہ پیمانہ ہے جس پر ہمیں زندگی کے ہر اچھے برے واقعے کو پرکھنا چاہیے۔ ہمیں اگر بہت دولت، شہرت اور کامیابی مل گئی اور اس نے ہمیں اخلاقی طور پر ایک پست انسان بنا دیا تو جان لینا چاہیے کہ یہ ہماری خوش نصیبی نہیں بدنصیبی ہے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ جہنم ہے۔ اور اگر اپنے پریشان کن حالات کے باوجود ہم صبر، ایمان اور اخلاق کے راستے پر رہے تو آخرکار وہ اجر پائیں گے کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ یہی کسوٹی زندگی کے ہر واقعے کے خیر و شر کو پرکھنے کا اصل معیار ہے۔