Take a fresh look at your lifestyle.

حرم پاک اور مسلمانوں کا تفرقہ ۔ ابویحییٰ

(پانچویں تحریر)
[’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کی تصنیف کے بعد اللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت عطا فرمائی۔ اس سفر کی روداد میں نے قلمبند کی تھی۔ مکہ کے قیام کے دوران کا ایک حصہ جس کا تعلق مسلمانوں کے فرقہ وارانہ اختلافات سے ہے قارئین کی نذر ہے۔ اس وقت میری کتاب پر کوئی تنقید سامنے نہیں آئی تھی لیکن اصل مسئلہ یعنی مسلمانوں کا تفرقہ چونکہ میرے دل کا درد ہے اس لیے اس کی عکاسی اس تحریر میں مکمل طور پر نظر آئے گی۔]

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
مسجد الحرام میں حرم پاک کے علاوہ جو سب سے زیادہ خوبصورت منظر ہوتا ہے وہ مسلمانوں کا مل کر اپنے رب کی عبادت کرنا ہے۔ حرم کا طواف کرتے، احرام میں ملبوس سعی کرتے اور نماز باجماعت کے وقت ہر رنگ و نسل، ہر زبان و جغرافیہ کے مر د و عورت اپنا ہر فرق بھلا کر یک جان ہو جاتے ہیں اور زبان حال سے دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارا رب ایک ہے اور ہم ایک ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ وحدت رب اور وحدت آدم کا یہ پیغام دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں ہے۔

مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کے اندر موجود عدم برداشت نے ان کے فرقہ وارانہ اختلافات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ خاص کر برصغیر پاک و ہند میں یہ اختلافات، فتووں اور مناظروں سے گزر کر اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو قتل کرنے، ان کی مساجد پر حملہ کرنے انھیں بدنام کرنے کی باقاعدہ مہموں تک جاپہنچے ہیں۔

مجھے اس المیے کا احساس اس لیے بھی بہت زیادہ ہوا کہ اسی سفر کے دوران ایک روز جدہ میں میں نے اپنی ای میل چیک کی تو مجھے ہندوستان کے ایک معروف عالم ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف ایک خاص مکتبہ فکر سے متعلق لوگوں کی ایک ای میل وصول ہوئی۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ کسی عالم سے اختلاف کیا جائے۔ اختلاف صرف پیغمبر سے نہیں ہوسکتا باقی سب عام انسان ہوتے ہیں۔ مگر یہ اختلاف عناد تک پہنچ جائے۔ کسی شخص کو مجموعہ شر سمجھ کر اس کو بدنام کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی جائے، جس کے نتیجے میں مذہبی دہشت گردی کے اس دور میں اس کی جان کو خطرہ ہو جائے، ایک ایسا رویہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کبھی مقبول نہیں ہوسکتا۔

برصغیر میں فرقہ وارانہ تنازعے کی تاریخ
المیہ یہ ہے کہ آج کل فتویٰ سازی اور دوسروں کو بدنام کرنے کی یہ فیکٹریاں زیادہ تر ان لوگوں نے لگا رکھی ہیں جو سب سے پہلے خود اس زیادتی کا شکار ہوئے تھے۔ میری یہ بات تھوڑی تفصیل چاہتی ہے جو قارئین کے لیے دلچسپ نہ سہی عبرت ناک ضرور ہوگی۔

برصغیر میں مذہبی اختلاف کی شدت اس وقت نمایاں ہوئی جب عالم عرب میں شیخ محمد بن عبد الوھاب کی اصلاحی تحریک کے اثرات ہندوستان تک پہنچنے شروع ہوئے۔ یہ تحریک بنیادی طور پر رد شرک و بدعات کی تحریک تھی جس نے اپنے بہت سے نقائص اور افراط و تفریط کے باوجود مجموعی طور پر اس مقدس سرزمین کو توحید کے اس پیغام کا نمونہ بنا دیا جسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے۔ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کے خانوادے اور ان کے متعلقین خاص کر سید احمد شہید ؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ نے اس پیغام کو لے کر ہندوستان میں اصلاحی عمل شروع کیا۔ آہستہ آہستہ یہ فکر عام ہونا شروع ہوئی اور اس نے عوام و خواص کو متاثر کرنا شروع کیا۔ یہ اصلاحی عمل دو دھاروں میں بٹ گیا۔ ایک وہ جو مکمل طور پر عرب کا اثر قبول کرکے خود کو سلفی یا اہل حدیث کہلانے لگے اور ان کے مخالفین انھیں شیخ محمد بن عبد الوھاب کی نسبت سے وہابی کہنے لگے۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر وہ تھا جس نے فقہ اور تصوف کے معاملے میں ہندوستان کے مروجہ نقطہ نظر ہی کو اختیار کیا اور حنفی اور صوفی شناخت باقی رکھتے ہوئے اصلاح کو قبول کیا۔ یہ لوگ مدرسہ دیو بند کی نسبت سے دیوبندی کہلائے۔ اس اصلاحی عمل میں کچھ تو افراط و تفریط بھی ہوا اور فطری طور پر کچھ مخالفت مروجہ نقطہ نظر کے اہل علم کی طرف سے ہونی ہی تھی سو وہ شروع ہوئی۔ ایسے میں برصغیر میں مروجہ نقطہ نظر کو مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی جیسا جینئس اور جید عالم مل گیا۔ انھوں نے ایک طرف اصلاح کی اس تحریک میں اپنا حصہ ڈالا اور بہت سے صریح مشرکانہ اعمال جیسے قبروں کو سجدہ کرنے وغیرہ کے خلاف آواز اٹھائی، مگر اس کے ساتھ ہی انھوں نے نئے پیدا ہونے والے مکاتب فکر کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی زبردست کوششیں کیں۔ خاص کر بارگاہ رسالت کے ادب اور محبت کو موضوع بنا کر اکابرین دیوبند اور اہل حدیث حضرات پر زبردست تنقیدیں کیں۔ ان کی نسبت سے مروجہ نقطہ نظر کے حاملین بریلوی کہلائے جن کے ہاں دیوبندی اور اہل حدیث حضرات کے لیے گستاخ رسول اور منکردرود کی اصطلاحات آج بھی عام استعمال ہوتی ہیں۔ شیخ محمد بن عبد الوھاب کا تعلق چونکہ عرب کے علاقے نجد سے تھا اس پس منظر میں مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی کی ایک مشہور نعت کا شعر آج بھی محافل نعت میں زور و شور سے پڑھا جاتا ہے۔
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیوں کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

جبکہ بعض نعت خواں شعر کو زیادہ حسب حال بنانے کے لیے دوسرے مصرعے میں ترمیم کرکے شعر اس طرح پڑھتے ہیں:
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
’’منکرو‘‘ کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

یہاں منکر سے مراد’’ منکر درود‘‘ ہے۔ صحیح غلط کی بحث سے قطع نظر بریلوی حضرات کے ہاں یہ اصطلاح اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ خیر اسی عمل میں مولانا رضا نے دیوبندی حضرات کے بعض نمائندہ اور جلیل القدر علماء مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا خلیل احمد سہارن پوری کو نبوت کا دعویٰ کرنے والے مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا کرکے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا۔ بعد میں انھوں نے علمائے حجاز سے اپنے فتوے کی توثیق کروا لی۔ ان علما کے علاوہ اہل حدیث کے نمائندہ عالم شاہ اسماعیل پر ان کی کتاب ’تقویہ الیمان‘‘ کی بعض عبارتوں کی بنیاد پر پہلے ہی کفر کا فتویٰ آچکا تھا۔

کل کے مظلوم آج کے ظالم
یہ وہ پس منظر ہے جس میں دیوبندی اور اہل حدیث حضرات کے خلاف ایک زبردست ردعمل پیدا ہوا۔ اس دور میں اس ردعمل کی شدت کا اندازہ کرنا ہے تو مولانا ابوالکلام کی حالات زندگی کے حوالے سے دستیاب مواد کا مطالعہ کیجیے۔۔۔ خیر اب مطالعہ کرنے کا وقت کس کے پاس ہوگا۔ میں بطور نمونہ ان کی سوانح حیات کا ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کر دیتا ہوں تاکہ اس ظلم کا کچھ اندازہ ہوسکے جو اُس دور کے اصلاح پسندوں کے ساتھ ہورہا تھا۔

ابوالکلام کے استاد ایک روایت پسند تھے۔ ان کے علاقے میں کوئی بے چارہ آگیا جو یہ کہتا پھر رہا تھا کہ شب برات کا حلوہ کھانا ناجائز ہے۔ انہوں نے ملازموں سے اسے پکڑ کر بلوا لیا اور صحن میں مرغا بنوا کر اس کے جوتے لگوانا شروع کر دیے۔ ہر جوتے پر وہ غالباً اپنا ہی تخلیق کردہ یہ شعر پڑھتے جاتے۔
وہابی بے حیا جھوٹے ہیں یارو
تڑاتڑ جوتیاں تم ان کو مارو

بہرحال اس طرح کے ظلم سے افکار اور تحریکیں نہیں رکا کرتے۔ چنانچہ آج اہل حدیث اور دیوبندی حضرت اپنی جگہ موجود ہیں۔ تاہم اصل سانحہ یہ ہے کہ خود انھوں نے نئے اہل علم کے خلاف کم و بیش یہی رویہ اختیار کرلیا۔ اس کی ایک مثال مولانا مودودی ہیں جنھیں بڑے پیمانے پر بدنام کرنے کی مہم چلائی گئی اور ان کی بعض تحریروں اور ان کی شخصیت کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اس پروپیگنڈے کی تفصیل اب تاریخ کا حصہ ہے یا پھر ان انٹر نیٹ ویب سائٹ کا جو آج بھی ’’فتنہ مودودیت ‘‘کے خلاف کام کر رہی ہیں، مگر میں قارئین کی دلچسپی کے لیے صرف ایک واقعہ نقل کر رہا ہوں۔ ایک دفعہ ایک عالم نے کسی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مودودی کو ڈالروں سے بھری ہوئی بوریاں امریکہ سے ملتی ہیں۔ مولانا کے سامنے اس بات کو بیان کیا گیا تو کمال شگفتگی سے بولے: امریکی ڈالر مجھے دیتے ہیں اور وصولی کی رسید ان صاحب کو بھجوا دیتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ مولانا کے اپنے نام لیواؤں کی ایک بڑی تعداد کا رویہ نئے اہل علم کے متعلق کچھ زیادہ مختلف نہ ہوسکا۔ معلوم نہیں لوگ تاریخ سے کیوں نہیں سیکھتے۔ امام ابوحنیفہ کو ان کے زمانے میں کس بے رحمی کے ساتھ طعن و تنشیع کا نشانہ بنایا گیا، مگر آج ہر گردن امام اعظم کے سامنے جھکی ہوئی ہے۔ امام ابن تیمیہ کو گستاخ رسول قرار دیا گیا اور کمال یہ ہے کہ پاکستان میں گستاخی رسول کے خلاف جو قانون بنایا گیا اس میں فقہ حنفی کے پیروکاروں نے اپنے امام اعظم کے نقطہ نظر کو چھوڑ کر امام ابن تیمیہ کے نقطہ نظر کو اختیار کرلیا۔ مولانا مودودی کو ان کی زندگی میں کیا کچھ نہیں کہا گیا، مگر آج دیکھیے کہ ان کے مخالفین بھی کئی معاملات میں اپنا کلاسیکل نقطہ نظر چھوڑ کر ان کی بولی بولتے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ جب کسی کے مرنے کے بعد یہ سب کچھ کرنا ہی ہے تو اُس کی زندگی میں اسے برداشت بھی کرلیا کریں۔

بہرحال میرے نزدیک ہمارے حالات کی خرابی، مذہبی دہشت گردی اور فرقہ بندی کی وجہ یہی عدم برداشت پر مبنی رویہ ہے۔ اس میں اصولی اور علمی اختلاف کے بجائے دوسروں کو بدنام کرنے پر زیادہ زور ہوتا ہے اور جس میں جھوٹ، الزام، بہتان، بات کو سیاق و سباق سے کاٹنے، بات کا مطلب کچھ سے کچھ نکالنے کی سوچ وغیرہ سب شامل ہیں۔ یہ کام بالعموم بڑے اہل علم نہیں بلکہ کچھ سطحی قسم کے لوگ کرتے ہیں، مگر باقی لوگ خاموش رہ کر اس رویے پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ مذہبی لوگوں کو سیرت طیبہ اور قرآن مجید کی اخلاقی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ انھیں معلوم ہوجائے گا کہ جن چیزوں پر وہ دوسروں کے کفر و گمراہی کے فتوے دے رہے ہیں، ان کا فیصلہ تو اللہ قیامت کے دن کریں گے، لیکن اس اخلاقی رویے کے بارے میں وہ اپنا فیصلہ آج ہی دے چکے ہیں۔۔۔ اس کی سزا جہنم کی ہلاکت ہے۔ ویل لکل ھمزہ لمزہ،(الھمزہ)۔ ان الذین فتنو المومنین والمومنات ثم لم یتوبو فلھم عذاب جہنم ولھم عذاب الحریق(البروج)۔

آپ فیصلہ کرلیجیے
قرآن کریم اس بات میں بالکل واضح ہے کہ جنت کی کامیابی پاکیزہ انسانوں کو ملے گی، (اعلیٰ14:87،شمس9:91،طہ76:20)۔ مگر نفرت اور تعصب کا زہر انسان کی پاکیزگی کو ختم کر دیتا ہے۔ یہ انسان کے ایمان اور اخلاق دونوں کو آلودہ کر دیتا ہے۔ یہ انسان کو سچائی کو سننے اور قبول کرنے سے روکتا ہے۔ یہ اپنوں کو بھی بےگانہ سمجھ کر ان سے کٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ یہ نبیوں کی تکذیب اور ان کے قتل جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرا دیتا ہے۔ یہ انسانی معاشروں میں نفرت، انتشار، فساد اور قتل و غارتگری کا باعث بنتا ہے۔

اس کے برعکس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی جو تمام انسانیت کے لیے ہدایت اوراللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہے، اس کا پیغام محبت اور رواداری ہے۔ یہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا سبق دیتی ہے۔ یہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تڑپنے سے عبارت ہے۔ یہ حسن اخلاق سے غیر کو بھی اپنا بنانا سکھاتی ہے۔ یہ صبر، تحمل اور دعا سے اللہ کی مدد طلب کرنے کا نام ہے۔

آج ہمارے سارے مسائل کا سبب سیرت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر نفرت، حسد اور تعصب کے شیطانی طریقے کو اختیار کرنا ہے۔ شیطان نے ہمارے باپ اور ماں سے حسد کی، نفرت میں مبتلا ہوا اور اس کا تعصب اتنا بڑھا کہ وہ عالم کے پروردگار کے سامنے سرکش ہوگیا۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں شیطان کی پیروی کرنی ہے یا محبوبِ رحمن علیہ السلام کی پیروی کرنی ہے۔ شیطان کی پیروی کی سزا باہمی انتشار، فساد اور ظالم حکمرانوں کا مسلط ہوجانا ہے۔ حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا بدلہ دنیا اور آخرت میں رحمت و برکت ہے۔
ہمیں اپنے حالات بدلنے ہیں تو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ اب آپ ایک فیصلہ کرلیجیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ ظاہر فرما دیں گے۔