وہ اجنبی ۔ ابویحییٰ
انسان کی ایک جملے میں مکمل تعریف بیان کی جائے تو یہ وہ ہستی ہے جو سراپا احساس اور سراپا احتیاج ہے۔ پہلی بات کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف ایک جیتی جاگتی حیوانی شخصیت ہی نہیں رکھتا بلکہ رنگ و بو، حسن وادا، لذت و جمال، لطافت وسرور، صوت و آہنگ سے حظ اٹھانے کے وہ احساسات اپنے اندر رکھتا ہے جو اسے دیگر تمام موجودات سے مختلف بناتے ہیں۔ مثلاً ایک چوپائے لیے گلاب کا حسین پھول بس چرنے اور پیٹ بھرنے کی ایک چیز ہے۔ پانی و غذا کا مطلب گلے کی خشکی اور پیٹ کی اینٹھن کو دور کرنا ہے۔ اسے شام کی شفق، گلوں کی مہک، سبزے کے رنگ سے کوئی سرور نہیں آتا۔ مگر انسان کے لیے یہ رنگ و خوشبو اور حسن و لطافت کے وہ مظاہر ہیں جو اس کی روح کو سرشار کر دیتے ہیں۔
مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت ہے کہ انسان سراپا عجز ہے۔ وہ محتاج مطلق ہے۔ وہ اپنی غذا، ہوا اور پانی جیسی ضروریات کو بھی خود پورا کرنے پر قادر نہیں۔ اگر آسمان نہ برسے، فضا ہوا سے خالی اور زمین بنجر ہو جائے تو انسان بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجائے۔ انسان نہ صرف محتاج مطلق ہے بلکہ اسے اپنی اس احتیاج کا بخوبی احساس بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے اس کے خالق و مالک کی عطا ہے۔ مگر افسوس کہ حسن کی ہر قسم کا ادراک اور اپنے عجز کی ہر شکل کا احساس رکھنے والا یہ انسان اپنے مالک سے بے پروا ہوکر جیتا ہے۔
کتنے ہیں جن کے لیے خدا بس ایک نام ہے جو بس مشکل میں پکارا جاتا ہے ورنہ کبھی اس نام کا زندگی میں گزر بھی نہیں ہوتا۔ کتنے ہیں جن کے لیے اپنا مالک اور محسن ایک اجنبی اور غیر مانوس سا وجود ہے۔ کتنے ہیں جو اُس ’’اجنبی‘‘ کو رسمی طور پر پانچ دفعہ یاد کر لیتے ہیں۔ مگر وہ ’’اجنبی‘‘ نماز کے باہر بھی اجنبی رہتا ہے اور نماز کے اندر بھی۔ کچھ اور ہیں جن کے لیے یہ ’’اجنبی‘‘ اپنے تعصبات اور قومی جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ ایک دوسری انتہا وہ ہے جو ان لوگوں کے ردعمل میں اس ’’اجنبی‘‘ کے تصور کو بھی دل ودماغ سے کھرچ کر پھینک چکی ہے اور انکار خدا کی احمقانہ نفسیات میں جی رہی ہے۔
پیغمبر ہر دور میں آتے رہے ہیں اور اس ’’اجنبی‘‘ کو زمانے کے لیے مانوس بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر افسوس کہ ہر دور میں لوگ اس کو بھولے رہے۔ اپنے کو اجنبی اور اجنبی کو اپنا سمجھتے رہے۔ اس کے بجائے غیروں کی محبت میں جیتے رہے۔ اس کی قربت کے بجائے دنیا کے عارضی مزوں میں مگن رہے۔ یہ نادان ایک ایسی دنیا میں جیتے ہیں جہاں ہر ذرہ اس اجنبی کو پوجتا ہے۔ ہر درخت اس کی محبت میں جھومتا ہے۔ ہر پرندہ اس کی حمد میں گنگناتا ہے۔ ہر وجود اس کی بے کراں عنایات کی یاد دلاتا ہے۔ اس ذاکر و شاکر کائنات میں یہی انسان وہ محروم و بدبخت ہستی ہے جو ہر رنگ کو دیکھنے کے باوجود خدا کو دیکھنے کے لیے اندھا ہے۔ وہ ہر آواز کو سننے کے باوجود اس کی پکار سننے کے لیے بہرا ہے۔ وہ ایک قلب حساس رکھنے کے باوجود عنایات رب پر شکرگزار نہیں۔ وہ خواہش کی لامحدود پیاس رکھنے کے باوجود اس کی ابدی جنت کے دریاؤں کا مشتاق نہیں۔ وہ حسن کی لازوال طلب رکھنے کے باوجود اس کی فردوس کے حسن کا طلبگار نہیں۔
یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس لیے اس دنیا میں ہر معاملے میں احساس انسان کی یہ غفلت اور سرکشی برداشت کی جارہی ہے۔ مگر عنقریب جزا و سزا کی وہ دنیا قائم ہونے والی ہے جس میں وہ اجنبی رخ زیبا سے نقاب اجنبیت اتارے گا اور حسن توحید کی تجلی کائنات کے ہر ذرے کو جگمگا دے گی۔ ہاں مگر اس روز کچھ بدبخت ہوں گے جن کی تقدیر ان کے نامہ اعمال کی طرح سیاہ ہی رہے گی۔ حسن ازل کی تجلی سے ان کا وجود منور نہیں ہوگا۔ یہ وہی محروم ہوں گے جن کے لیے ان کا ان داتا اجنبی رہا۔ جن کے لیے ان کا محسن اجنبی رہا۔