قانونی اور روحانی ماڈل ۔ ابو یحییٰ
دنیا میں خدا کا قرب حاصل کرنے کے دو ماڈل ہمیشہ زیادہ ممتاز رہے ہیں۔ ایک زندگی کے ہر معاملے میں قانون سازی کر کے اپنی زندگی کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالنا۔ دوسرا ماڈل دنیا ہی کو چھوڑ کر رہبانیت کو اختیار کرلینا۔ پہلے ماڈل کا نمونہ یہودیت ہے اور دوسرے ماڈل کا نمونہ مسیحیت ہے۔ پہلے ماڈل کو دین کا قانونی ماڈل اور دوسرے کو روحانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
پہلے ماڈل میں شریعت کے اصل مطالبات قانونی مطالبات میں اس طرح دب جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ خدا نے کیا کہا ہے اور انسانوں نے کیا قانون سازی کی ہے۔ قرآن مجید نے اسی بے جا قانون سازی کو اصرار و اغلال قرار دے کر دنیا کو ان سے رہائی عطا کی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جیسی ضخیم کتاب میں قانونی احکام کی تعداد بہت کم ہے۔
دوسرے ماڈل میں ترک دنیا پارسائی کا معیار قرار پاتا ہے۔ چلے کاٹنا، وظائف پڑھنا، کشف و کرامات، خواب اور بشارتیں دین کا اصل نقطۂ کمال بن جاتی ہیں۔ گھر چھوڑ دینا، نفس پر بے جا مشقت ڈالنا، زینتوں اور خوبصورتی کو ترک کر دینا دینی مطالبات بن جاتے ہیں۔
قرآن مجید نے اس پورے تصور کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ قرآن مجید کی روحانیت صرف اور صرف اللہ سے زندہ تعلق کا نام ہے۔ یہ غیب میں پوشیدہ خدا کو ہمہ وقت علیم و خبیر سمجھ کر زندگی گزارنا ہے۔ یہ دل کے حال اور زندگی کے ہر احوال سے واقف خدا کی نگرانی میں جینا ہے۔ یہ خدا سے سب سے بڑھ کر محبت کرنے، اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کرنے کا نام ہے۔ یہ بے روح وظیفوں کے بجائے دل کی تڑپ کے ساتھ خدا کو پکارنے کا نام ہے۔ اس روحانیت میں بیوی، بچے، گھر، مال، کاروبار اور زندگی کی ہر خوبصورتی کے ساتھ انسان روحانی انسان بن سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اپنے نفس کو کسی اخلاقی آلودگی سے ناپاک نہ کرے۔
آج بدقسمتی سے مسلمانوں نے قرآن مجید کے ماڈل کو چھوڑ کر یہودیت کے قانونی اور مسیحیت کے روحانی ماڈل کی پیروی شروع کر دی ہے۔ مگر اصل نجات صرف قرآن کے ماڈل میں ہے۔