Take a fresh look at your lifestyle.

مجرب نسخہ ۔ شمائلہ عثمان

اکمل صاحب پچھلے دوسال سے شدید پریشانی کی حالت میں تھے ان کا ایک بیس سال پرانا کریانہ اسٹور تھا جو علاقے کا سب سے پرانا اور کسی زمانے میں اکلوتا ہونے کی وجہ سے خوب چلتا تھا۔ لیکن دوسال قبل سامنے ہی اصغر صاحب نے ایک اسٹور کھولا جو مختصر عرصے میں ترقی کر کے منی مارکیٹ کی شکل اختیار کرگیا تھا ۔ اکمل صاحب کی پریشانی کی وجہ وہی اسٹور تھا جس کی وجہ سے علاقے میں ان کی ساخت بری طرح متاثر ہو رہی تھی انہوں نے بہت جتن کیے دعائیں وظیفے صدقات لیکن نقصان بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا کبھی مال کی ڈلیوری میں مشکلات، گاہکوں کا دن بدن کم ہونا پرانے ملازمین کا چھوڑ کرچلا جانا حتیٰ کہ نوبت قرضوں تک جا پہنچی۔ کئی بہی خواہ اصغر صاحب کی جانب اشارہ دے چکے تھے کہ انہوں نے بندش (کالا علم) کروا دیا ہے تب ہی برسوں پرانا چلتا ہوا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ کافی عرصے تک تو اکمل صاحب بندش ختم کروانے کے چکر میں وقت اور پیسہ لٹاتے رہے ۔ پھر کسی نے یہ بات ذہن میں ڈالی کہ الٹا کوئی عمل (کالا علم) اصغر صاحب پر کر دیاجائے جس سے ان کا کاروبار ٹھپ ہوجائے تو گاہک دوبارہ واپس آجائیں گے ۔ اکمل صاحب میں ہزار اخلاقی خرابیاں سہی لیکن ان کا دل کالے علم کی طر ف مائل نہ ہوا وہ جانتے تھے کہ یہ شرک ہے سو وہ ایمان کا سودا کر کے کافر بننے کے لئے تیار نہ تھے۔ کچھ زیادہ راسخ العقیدہ تو نہ تھے لیکن بہرحال ماں باپ نے بچپن سے نماز کی عادت ڈال دی تھی ۔

پیروں فقیروں آستانوں پر چڑھاووں سے مالی حالت مزید پتلی ہوگئی چڑچڑاپن شدید غصہ اورگالم گلوچ میں مزید اضافہ ہو گیا گھر کا ماحول بھی کشیدہ ہو گیا، بیوی بچے سہمے سہمے رہتے ۔ ہر شخص انہیں اپنی تباہی کا ذمہ دار نظر آ رہا تھا ۔ ایک دن اچانک مجیب صاحب کا خیال آیا جو پیچھے محلے میں رہتے تھے ریٹائر سرکاری ملازم تھے ۔ محلے میں صاحب دانش اور اہل علم کے طور پر جانے جاتے تھے اور لوگوں کی مشکلات میں ان کی روحانی مدد فرماتے تھے ۔

مجیب صاحب اکمل صاحب سے واقف تھے کچھ عرصہ پہلے تک سودا ان کی ہی دکان سے لیتے تھے اس لیے اکمل صاحب کو ان سے ملاقات میں قطعی کوئی جھجک محسوس نہ ہوئی وہ ان کے گھر پہنچ گئے اور تمام روداد سنائی مجیب صاحب کمال کے نبض شناس آدمی تھے ، ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ بیماری کی جڑ تک پہنچ گئے ہیں ۔ اب انہوں نے علاج شروع کیا لیکن شرائط پہلے ہی بتا دیں یعنی پابندی ، غوروفکر اور یکسوئی کے ساتھ قرآن پاک بلا ناغہ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنا چاہے دو آیتیں ہی کیوں نہ پڑھی جائیں ، پاک صاف با وضو رہنا نماز بغیر قضا کئے پابندی سے پڑھنا اور کسی بھی وقت ایک تسبیح کلمہ طیبہ اور ایک تسبیح استغفار کی پڑھنا، پڑھتے وقت غور وفکر اور یکسوئی لازمی ہے اور آخر میں عاجزی سے گڑگڑا کر اللہ کے حضور دعا کرنی ہے ، 40 دن کا عمل ہے ، بظاہر نسخہ مشکل نہ تھا نماز تو عادتاً پڑھتے ہی تھے ، لیکن اکثر فجر میں کوتاہی ہوجاتی تھی تو اس کی پابندی میں مشکل پیش آئی باقی تسبیح چٹکی بجاتے ہوجاتی قرآن پڑھنے کی باری رمضان میں آتی تو اس کی بھی پابندی شروع کر دی لیکن اس میں مزہ آنے لگا آدھا ، پونا پارہ روز پڑھ لیتے 40 دن چٹکی بجاتے ہی گز رگئے کاروباری حالات تو نہ بدلے لیکن غصہ اور چڑچڑاپن کم ہو گیا ۔ دوبارہ مجیب صاحب کے پاس گئے اور حالات بیان کئے انہوں نے جواب دیاعمل میں غوروفکر اور یکسوئی کی کمی ہے وہ پورا ہوتے ہی کام بننے شروع ہوجائیں گے۔

اب اکمل صاحب نے قرآن نماز اور تسبیحات غورو فکر سے پڑھنی شروع کی شروع میں تو کچھ محسوس نہ ہوا لیکن آہستہ آہستہ دل کی دنیا تبدیل ہوگئی۔ قرآن پڑھتے ہوئے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ بیشتر جگہوں پر ان ہی سے مخاطب ہے ، کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت طاری ہوجاتی جوکلمہ بچپن سے پڑھا لیکن اسے محسوس اب کیا جب دل میں خوف خدا نے گھر کر لیا تو باہر کی دنیا نئے ڈھنگ کی نظر آئی لہجے میں نرمی اور شائستگی آ گئی، گالم گلوچ غائب ہوگئی۔

اب صبح فجر کی نماز کے بعد تسبیحات پھر قرآن بمعہ ترجمہ تفسیر غور و فکر سے پڑھنے کے بعد نیند غائب ہوجاتی سیدھے اسٹور کا رخ کرتے اور کاروبار زندگی کی ابتدا کرتے ، اصغر صاحب کا اسٹور آدھا دن گزار کر کھلتا اور آدھی رات تک چلتا ۔ جب صبح صبح اسٹور کھولا تو دوسری چوائس نہ ہونے کی وجہ سے گاہکوں کی آمد شروع ہوئی کچھ جان میں جان آئی۔ پہلے جو پوری دنیا اپنی بربادی کی ذمہ دار نظر آ رہی تھی استغفار کا ورد کرتے ہوئے اپنی کوتاہیاں کمزوریاں اور خرابیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئیں پہلے جو ناپ تول میں ڈنڈی مارتے تھے وہ فوراً ختم کیا فون کال پر ہوم سروس کی سہولت شروع کی مہینے بھر کی خریداری پر ڈسکاؤنٹ آفر رکھیں مال کی کوالٹی پر خصوصی توجہ دی سپلائر کی ادائیگی وقت پر کی جس سے مال کی ڈلیوری آسان ہوگئی دوشفٹوں میں ملازم رکھے جن کے ساتھ نرمی کا برتاؤ اختیار کیا اور اضافی منافع کی صورت میں بونس دینے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی میں اضافہ ہوا منافع کی شرح بہت معمولی رکھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار میں برکت ہونے لگی ، اب اپنی ترجیحات کا تعین کر کے پہلے قرض کی ادائیگی پھر اسٹور کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کامنصوبہ بنایا ۔

اب نہ یہ پرانے اکمل صاحب تھے نہ پرانا جیسا کاروبار ، اب اکمل صاحب نماز پڑھنے والے نہیں نماز قائم کرنے والے بن گئے ، قرآن پاک پڑھنے والے ہی نہیں اس سے ہدایت لے کر عمل کرنیوالے بن گئے۔