کھونا اور پانا ۔ ابویحییٰ
انبیا علھیم السلام کی قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو ایسا کم ہوتا ہے کہ وہ دین کا نام لینا چھوڑ دیں یا ان میں دینی جذبہ کم پڑ جائے۔ ہوتا اکثر یہ ہے کہ ان کی اصل وفاداری اللہ اور اس کے رسولوں سے ہٹ کر اپنے قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی طرف ہوجاتی ہے۔
یہود و نصاریٰ اس کی بہترین مثال ہیں۔ یہود قوم پرستی کی سب بڑی مثال ہیں۔ ان کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ دنیا میں سچائی کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں۔ خدا کے بندوں کو خدا تک پہنچائیں۔ مگر صدیوں کے زوال کے بعد ان کے قومی تعصبات ان پر اتنے غالب آ گئے کہ وہ ایک داعی گروہ کے بجائے ایک قوم بن بیٹھے۔ یہودی قوم کا غلبہ، یہودیوں کا وطن، یہودیوں کی تہذیب ان کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی۔ یہاں تک کہ وہ اس قوم پرستی کے پیچھے اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے دشمن ہوگئے، مگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔
نصاریٰ فرقہ وارانہ تعصبات کی آخری انتہا تک جاپہنچے۔ وہ یہود کا ایک اصلاحی گروہ تھے جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئے تھے۔ مگر اس کے بعد وہ گروہ در گروہ بٹتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ اس معاملے میں یہود سے بھی بہت آگے نکل گئے۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں عیسائیوں کے 43 ہزار سے زیادہ فرقے پائے جائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے مسلمان بھی فرقہ پرستی اور قوم پرستی میں یہود و نصاریٰ سے پیچھے نہیں۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا کو پانے کے لیے اپنے آپ کو کھونا پڑتا ہے۔ آہ مگر آج کا مسلمان اپنی فرقہ وارانہ اور قوم پرستانہ سوچ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اپنے آپ کو کیا چھوڑے گا۔ اور نہیں چھوڑ سکتا تو نہیں پاسکتا۔ خدا کو نہیں پاسکتا۔ سچائی کو نہیں پاسکتا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی حقانیت کو نہیں پاسکتا۔ ہدایت کو نہیں پاسکتا اور آخرکار جنت کو نہیں پاسکتا۔ چاہے کتنا بڑا ہی اسلام کا دعویدار ہو۔ چاہے کتنا بڑا ہی خدا کا نام لیوا ہو۔